حضرت مولانا محمدیوسف کاندھلوی ؒ
اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ
حضور ﷺ کا انتقال ہو گیا ۔ حضرت ابو بکر ؓ نے دیکھا کہ لوگ آپس میں چپکے
چپکے باتیں کر رہے ہیں ۔ حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے اپنے غلام سے فرمایا جاﺅ اور
سنو کہ لوگ چپکے چپکے کیا باتیں کر رہے ہیں پھر مجھے آکر بتاﺅ۔ اُس نے واپس
آکر بتایا کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ محمد ﷺ کا انتقال ہو گیا ہے ۔ حضرت ابو
بکر ؓ یہ سنتے ہی تیزی سے چلے اور وہ فرما رہے تھے کہ ہائے میری کمر ٹوٹ
رہی ہے۔ اُنہیں اتنا زیادہ غم تھا کہ لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ مسجد تک
نہیں پہنچ سکیں گے۔ بہرحال وہ ہمت کر کے کسی طرح مسجد پہنچ ہی گئے۔
حضرت ابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں جب رسول اللہ ﷺ نے دنیا سے پردہ فرما لیا تو
حضرت ابو بکر صدیق ؓ حضور اکرم ﷺ کے حجرہ سے مسجد تشریف لائے۔اُس وقت حضرت
عمر ؓ مسجد میں لوگوں میں بیان کر رہے تھے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے کہا ۔ اے عمرؓ
بیٹھ جاﺅ( اس پر حضرت عمر ؓ بیٹھ گئے) ۔حضرت ابوبکر ؓ نے اللہ تعالیٰ کی
حمد و ثناءاور کلمہ شہادت کے بعد فرمایا۔ اما بعد تم میں سے جو آدمی محمد ﷺ
کی عبادت کرتا تھا اُسے معلوم ہوجانا چاہیے کہ محمد ﷺ کا انتقال ہو گیا ہے
اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا اُسے یقین ہو جانا چاہیے کہ اللہ
تعالیٰ ہمیشہ زندہ رہیں گے اُن کو موت نہیں آسکتی۔اور اللہ تعالیٰ نے قرآنِ
مجید میں فرمایا ہے کہ ”اور محمد ﷺ نرے رسو ل ہی تو ہیں۔ آپ سے پہلے اور
بہت سے رسول گزر چکے ہیں ۔ سو اگر آپ کا انتقال ہو جائے یا آپ شہید ہی ہو
جائیں تو کیا تم لوگ اُلٹے پھر جاﺅ گے“(آل عمران144)۔
حضرت ابنِ عباس ؓ کہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی قسم کہ ایسا معلوم ہو رہا تھا
کہ گویا لوگ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی تلاوت سے پہلے اس آیت کو جانتے ہی نہیں
تھے کہ یہ بھی اُتری ہے۔ تمام لوگوں نے حضرت ابو بکر ؓ سے اس آیت کو ایک دم
لے لیا اور ہر آدمی اسے پڑھنے لگا اور حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا۔اللہ
کی قسم جوں ہی میں نے حضرت ابو بکر ؓ کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا تو میں دہشت
کے مارے کانپنے لگ گیا اور میرے پیروں میں اُٹھانے کی سکت نہ رہی اور میں
زمین پر گر گیا اور جب میں نے حضرت ابو بکر ؓ کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا تب
مجھے پتا چلا کہ حضورﷺ کا انتقال ہو گیاہے۔
حضرت عبد الرحمان بن سعید بن یربوع ؓ فرماتے ہیں ۔ایک دن حضرت علی بن ابی
طالب ؓ آئے۔ اُنہوں نے سر پر کپڑا ڈالا ہوا تھا اور بہت غمگین تھے۔ حضرت
ابو بکر ؓ نے اُن سے فرمایا کیا بات ہے بڑے غمگین نظر آرہے ہو۔ حضرت علی ؓ
نے کہا کہ مجھے وہ زبردست غم پیش آیا ہے جو آپ کو نہیں آیا ہے۔ حضرت ابو
بکر ؓ نے فرمایا کہ سنو یہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے
کر پو چھتا ہوں کہ کیا تمہارے خیال میں کوئی آدمی ایسا ہے جسے مجھ سے زیادہ
حضور ﷺ کا غم ہوا ہو؟
حضرت امِ سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ کا جنازہ ہمارے گھروں میں رکھا ہوا
تھا۔ ہم سب ازواجِ مطہرات جمع تھیں اور رو رہی تھی اور اُس رات ہم بالکل نہ
سوئی تھیں۔ہم آپﷺ کو چارپائی پر دیکھ کر خود کو تسلی دے رہی تھیں کہ اتنے
میں آخر شب کو حضور ﷺ کو دفن کر دیا گیا اور قبر پر مٹی ڈالنے کے لیے ہم نے
پھاﺅڑوں کے چلنے کی آواز سنی۔تو ہماری بھی چیخ نکل گئی اور مسجد والوں کی
بھی اور سارا مدینہ اُس چیخ سے گونج اُٹھا۔ اُس کے بعد حضرت بلالؓ نے فجر
کی اذان دی اور جب اُنہوں نے اذان میں حضور ﷺ کا نام لیا یعنی اشھد ان محمد
رسول اللہ کہا تو زور زور سے رو پڑے اور اس سے ہمارا غم اور بڑھ گیا۔ تمام
لوگ آپﷺ کی قبر کی زیارت کے لیے اندر جانے کی کوشش کرنے لگے۔ اس لیے دروازہ
اندر سے بند کرنا پڑا۔ہائے وہ کتنی بڑھی مصیبت تھی۔ اُس کے بعد جو بھی
مصیبت ہمارے اُوپر آئی تو حضورﷺ (کے جانے)کی مصیبت کو یاد کرنے سے وہ مصیبت
ہلکی ہو گئی۔
حضرت ابو ذویب ہذلیؓ فرماتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ آیا تو میں نے دیکھا کہ
مدینہ والے اونچی آواز سے ایسے زور زور سے رو رہے ہیں جیسے کہ سارے حاجی
احرام کی حالت میں زور سے لبیک کہہ رہے ہوں۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا۔
لوگوں نے بتایا حضور ﷺ کا انتقال ہو گیا ہے (اس وجہ سے سب لوگ رو رہے ہیں)
حضرت ابو جعفر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کے بعد کبھی حضرت فاطمہ ؓ کو
ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ ہاں صرف تھوڑا سا مسکرا لیتیں جس سے چہرے کی ایک
جانب ذرا لمبی ہو جاتی۔
قارئین!آج کا کالم کوئی کالم نہیں ہے بلکہ بے ربط سے خیالات اور آنسوﺅں کا
ایک ایسا سلسلہ ہے جو ہم آپ سے شیئر کرنا چاہتے ہیں۔آج سے کچھ عرصہ قبل
برطانوی ہاﺅس آف لارڈز کے تاحیات رکن لارڈ نذیر احمدنے ہمیں برطانیہ سے فون
کیا اور غزہ میں فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور اُن کی مشکلات کا
ذکر کیا۔انہوں نے بتایا کہ غزہ میں اسرائیل کی طرف سے سولہ لاکھ سے زائد
آبادی پر ادویات اور خوراک حاصل کرنے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ اور اس
کا بہانہ کسی لطیفے سے کم نہیں۔ اسرائیل جو انکل سام۔۔۔۔ کی ناجائز اولاد
ہے اور اس وقت ایٹمی ہتھیاروں سے بھی لیس ہے اُس نے غزہ پر یہ پابندی یہ
الزام عائد کرتے ہوئے لگائی ہے کہ غزہ کے مسلمان جارحیت پسند اسلحہ سمگل
کرتے ہیں اور اسرائیل پر حملہ کرنے کی تیاری کرتے ہیں۔ اس لیے یہ پابندی
انتہائی ضروری ہے۔ لارڈ نذیر احمد نے بھرائی ہوئی آواز میں انتہائی دکھی
انداز میں بتایا کہ اسرائیل کی طرف سے عائد کردہ ان پابندیوں کی وجہ سے
سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں معصوم شیر خوار بچے ادویات اور مناسب خوراک نہ
ملنے کی وجہ سے موت کے گھاٹ اُتر چکے ہیں۔اور اس وقت عملاً صورتحال یہ ہے
کہ غزہ میں رہنے والے معصوم فلسطینی روزگار حاصل کرنے کے لیے مناسب مواقع
سے بھی محروم ہیں اور سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کے لیے بھی چند ناٹیکل مائلز
سے آگے نہیں جاسکتے جس کی وجہ سے بہت بڑا انسانی المیہ پیش آسکتا ہے۔
لارڈنذیر احمد نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ان معصوم فلسطینیوں کے لیے
اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے جو غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی طرف سے کئی سال سے
یرغمال بنائے گئے ہیں۔لار ڈ نذیر احمد نے ہمیںحکم دیا کہ ہم ان معصوم
فلسطینیوںکے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں موثر آواز بلند کریں اور
اسرائیل کی دہشت گردی اور مظالم کو آشکار کرتے ہوئے اُمتِ مسلمہ کو جگانے
کی کوشش کریں۔لارڈ نذیر احمد نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیل کی طرف سے ڈھائے
جانے والے تمام مظالم اور غزہ پر عائد پابندیوں کی اقوامِ متحدہ سمیت پچاس
سے زائد بین الاقوامی حقوق کی تنظیمیں کھل کر مذمت بھی کر چکی ہیں اور
اِنہیں غیر قانونی بھی قرار دے چکی ہیں۔
قارئین! راقم نے لارڈ نذیرا حمد کے حکم پر عمل کرنے کی پوری کوشش کی اور
اپنے کالموں ، شاعری ، ٹاک شوز اور دیگر ذرائعِ ابلاغ کے ذریعے حتی الامکان
آواز بلند کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔رواں ہفتے اسرائیل نے غزہ پر فضائی
حملہ کیا او ر اب تک کی اطلاعات کے مطابق غزہ میں درجنوں مسلمان شہید کئے
جاچکے ہیں ۔ ستر فیصد سے زائد شہداءمیں عورتیں اور بچے شامل ہیں۔انسانی
حقوق کا چیمپئن اور دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد امریکہ چپ سادھے بیٹھا ہے
اور تازہ ترین مسخرانہ بیان جو امریکہ کی طرف سے سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ
چند روز میں صورتحال بہتر ہو جائے گی۔56سے زائد اسلامی ممالک کی تنظیم او
آئی سی اس وقت بے غیرتی اور بے حمیتی کی چادر اوڑھے سو رہی ہے اور فلسطین
میں مسلمانوںکا قتلِ عام جاری و ساری ہے۔
قارئین! یہاں ہم متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین اور پاکستان پیپلز
پارٹی کے وزیر قمر الزمان کائرہ کو خراجِ تحسین پیش کرنے پر مجبور ہیں کہ
جنہوں نے انتہائی بلندآواز میں اسرائیل کی مذمت کی ہے اور اقوامِ متحدہ
سمیت دنیا کے اُن تمام بے غیرت ممالک کو للکارا ہے جو اسرائیل کو سپورٹ کر
رہے ہیں۔ معصوم فلسطینیوں کے لیے راقم نے گزشتہ شب ایک چھوٹی سی نظم لکھی
جو آپ کی نذر ہے۔
غزہ کے بچے
غزہ کی مائیں
تمہیں پکاریں
مجھے بُلائیں
وہ خوں کی بارش
وہ سرد آہیں
رقصِ ابلیس چار جانب
اور بموں کی دھائیں دھائیں
حکمران چُپ سبھی ہیں
چارہ گر اِک کہاں سے لائیں
اُٹھو او نوجوانو اُٹھو
جنتوں کی کھلی ہیں راہیں
غزہ کے بچے
غزہ کی مائیں
تمہیں پکاریں
مجھے بُلائیں
قارئین! اس سے قبل میانمار یعنی برما میںنام نہاد بدھ مت کے پیروکاروں نے
امن اورشانتی کے فلسفے کی دھجیاںبکھیرتے ہوئے مسلمانوں کا وہ قتلِ عام کیا
کہ جو وہم و گمان سے باہر ہے۔معصوم شیر خوار بچوں سے لے کر نوجوانوں اور
بوڑھوں تک کو ذبح کر دیا گیا ۔ اُنہیں ایک ایک جگہ اکٹھا کر کے آگ لگائی
گئی ۔ عورتوں کی عصمت ریزی کرنے کے بعد اُنہیں موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران پچاس ہزار سے زائد
مسلمان برما میں شہید کئے جاچکے ہیں۔انسانی آزادیوں اور حقوق کا چیمپئن
انکل سام جو عصرِ حاضر کا دجال ہے اُس نے ایک آدھ مذمتی بیان کے علاوہ کچھ
نہ کیا اور اب جب امریکی صدر باراک اوباما برما کا دورہ کرنے والے ہیںتو تب
امریکہ کو ہوش آیا ہے اور اُس نے برما میں مسلمانوںکے اجتماعی قتلِ عام کا
ہلکا سا نوٹس لیا ہے۔لیکن انتہائی شرم اور ذلت کی بات یہ ہے کہ ماسواترکی
کے کسی بھی اسلامی ملک کو یہ توفیق نہیںہوئی کہ برماکے مسلمان بہن بھائیوں
کے لیے غیرت کے ساتھ کوئی آواز بلندکرتے۔ امتِ مسلمہ کی قیادت کا فریضہ
سرانجام دینے والے پاکستان سے اس لیے کچھ نہ ہو سکا کہ برماکا مذہب بدھ مت
ہے اور برما کا گاڈ فادر چین ہے اور پاکستان اس وقت بین الاقوامی برادری
میں چین کے علاوہ اپنے تمام دوستوں سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے اس لیے اپنے اس
آخری دوست کے خلاف پاکستان کوئی بھی آواز بلند نہیں کر سکتا۔ چاہے وہ آواز
کتنی ہی برحق کیوں نہ ہو۔
قارئین! یہ دونوں زخم تو تازہ ہیں۔ آئیے رستے ہوئے ناسور کی طرف چلتے ہیں۔
1947ءسے لے کر آج تک 65سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور بین الاقوامی اداروں کی
رپورٹس کے مطابق کشمیر میں چھ لاکھ سے زائد انسان بھارتی فوجوں کے قتلِ عام
کی نذر ہو چکے ہیں۔ لاکھوں عورتوں کی عصمت دری کی جاچکی ہے اور ڈیڑھ کروڑ
سے زائد انسان بھارتی افواج کے ہاتھوں مغوی بنے ہوئے ہیں۔بھارت مسئلہ کشمیر
کو اقوامِ متحدہ میں1948ءمیں لے کر گیا۔ سلامتی کونسل نے قراردادیں پاس کیں
اور آج تک وہ قرار دادیں عمل در آمد سے محروم ہیں۔بھارتی مقبوضہ کشمیر میں
آئے روز گمنام اجتماعی قبریںدریافت ہو رہی ہیں۔ ایک قبر تو ایسی بھی نکلی
کہ جس میں تین ہزار سے زائد کشمیری دفن تھے۔انسانی حقوق کے چیمپئن کہا ں
ہیں۔
قارئین! پوری اُمتِ مسلمہ میں راقم نے بغور دیکھا ہے ۔ واحد لارڈ نذیر احمد
ایک ایسی شخصیت ہیں کہ جنہوں نے گزشتہ بیس سالوں کے دوران ہر بین الاقوامی
فورم پرکشمیریوں، فلسطینیوں سے لے کر دنیا بھر کے مسلمانوں اور مظلوم اقوام
کے حقوق کی بات کی ہے۔آج غزہ، برما اور کشمیر پوری دنیا کی امن پسند اور
مہذب اقوام کو پکار رہے ہیں۔یہ وہ قرض ہے جو نامِ انسان اور انسانیت کے
چہرے پر داغ بن کر اُس وقت تک دہکتے رہیں گے جب تک ان زخموں اور داغوں کا
مداوا نہیں کر دیا جاتا۔بقول غالب
کب و ہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری
خلشِ غمزہ خون ریز نہ پُوچھ!
دیکھ خوں نا بہ فشانی میری
متقابل ہے مقابل میرا
رُک گیا دیکھ روانی میری
قدرِ سنگِ سرِ راہ رکھتا ہوں
سخت ارزاں ہے گرانی میری
کر دیا ضعف نے عاجز غالب
ننگِ پیری ہے جوانی میری
قارئین!اس وقت پوری اُمتِ مسلمہ پر بے غیرتی کی خاموشی طاری ہے۔اگر
اُمیدکہیں دکھائی دیتی ہیں تو مسلمان نوجوانوں کے اندر موجود جذبہ ہے جو
روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔پوری دنیا میں آباد مسلمان نوجوان ان مظالم پر چیخ
رہے ہیں ۔ احتجاج کر رہے ہیں اور کئی جگہوں پر علمی اور عملی تحریکیں منظم
ہو رہی ہیں جو مستقبلِ قریب میں امریکہ اور اُس کے دیگر پیروکاروں کے لیے
مشکلات کھڑی کر دیں گی۔انکل سام ، اسرائیل ،انڈیا اور ابلیس کی پیروکار
تمام قوتیں اس وقت مسلمانوں کا قتلِ عام کر رہی ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے
کہ حق کے تمام متوالے اکٹھے ہو جائیں اور ان مظالم کے خلاف مشترکہ جدوجہد
کریں۔
آخر میں حسبِ روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔
”ایک چور میڈیکل سٹور میں داخل ہوا۔ اُس نے کچھ کہنے کی کوشش ہی کی تھی کہ
اُس پر کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔ میڈیکل سٹور کے سیلز مین نے اُسے پانی پلایا
اور جب اُس کی طبیعت بحال ہو گئی تو پوچھا جی جناب بتایئے آپ کیا کہنے
چاہتے تھے۔“
”چور نے فوراً جیب سے ریوالور نکالا اور کاﺅنٹر پر بیگ رکھتے ہوئے کہا۔ یہی
کہ تمام رقم نکال کر اس بیگ میں ڈال دو۔“
قارئین! برطانیہ ،امریکہ ، انڈیا، اسرائیل اور ان جیسے دیگر تمام بنارسی
ٹھگ اور لٹیرے شریف اقوام کے ساتھ یہی سلوک کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کے مہذب
لوگو اکٹھے ہو جاﺅ اور ان بدمعاشوں اور لٹیروں کا ہاتھ روکو۔ |