اللہ رب العزت نے وطن عزیز
پاکستان کو1950ئکی دہائی میں سوئی گیس کی نعمت سے نوازا تھا۔یہ وہ نعمت ہے
جو پاکستان کو کسی غیرملک سے خریدنی نہیں پڑتی بلکہ یہ قدرت کا انمول عطیہ
مفت میں عنایت کیا گیا ہے۔ پاکستان میں سوئی گیس کا استعمال 1950 ئ کی
دہائی کے آخر میں شروع ہوگیا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک یعنی گذشتہ 50 سال
سے زائد عرصہ کے دوران مساجد،مدارس اوردیگر دینی اداروں کوسوئی گیس کی
فراہمی عام گھریلو صارفین کی طرح کی جارہی تھی۔ہم لوگ عرصئہ دراز سے حکومتِ
وقت سے یہ مطالبہ کرتے آرہے تھے کہ چونکہ مساجد اور مدارس فلاحی ادارے
ہیںجو حکومت کی امداد کے بغیر گرانقدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور انہوں
نے لوگوں کی دینی ضروریات پوری کرنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔ اِس لیے ان دینی
اداروں کو سوئی گیس کی فراہمی عام گھریلو صارفین کے مقابلہ میں رعایتی
نرخوں پر ہونی چاہیے۔ہمارے اِ س دیرینہ جائز مطالبہ کو تسلیم کرنے کی بجائے
حکومتِ پاکستان کے ذیلی ادارے ”اوگرا“نے 22 ستمبر 2012 ءسے مساجد،مدار س
اور دیگر دینی اداروں کو عام گھریلو صارفین کے زمرے سے نکال کر اسلام دشمنی
کا مظاہرہ کرتے ہوئے ظالمانہ طور پر ان دینی اداروں پر ناقابلِ برداشت
معاشی بوجھ ڈال دیا ہے۔ چنانچہ مساجدودینی مدارس میں گیس کنکشن حاصل کرنے
کا خرچہ 3,000 روپے سے بڑھا کر 31,000 روپے کردیا ہے یعنی سروس لائن کی رقم
1,500 روپے سے بڑھا کر5,000 روپے اور سیکیورٹی کی رقم 1,500 روپے سے بڑھا
کر26,000 روپے کردی ہے یعنی اگر کوئی اپنی کوٹھی یا مکان پر گیس کنکشن
لگوائے تو اسے محض 3,000 روپے دینے ہوں گے اور اگر اللہ کے گھر کے لےے گیس
کنکشن لیا جائے تو31,000 روپے دینے ہوں گے۔عام گھریلو صارفین کے لےے سوئی
گیس کے تین نرخ ہیں یعنی 100روپے فی یونٹ،200روپے فی یونٹ اور 500 رو پے فی
یونٹ۔ لیکن مساجد ومدارس وغیرہ کے لےے ایک ہی نرخ ہے یعنی 500روپے فی
یونٹ۔وہ جتنی بھی گیس استعمال کریں گے ان کو ساری مقدار پر500 روپے فی یونٹ
کے حساب سے ادائیگی کرنا ہوگی۔ان دینی اداروں کو سستے نرخوںیعنی 100 روپے
فی یونٹ اور 200 روپے فی یونٹ سے محروم کردیا گیا ہے۔عام گھریلو صارفین کے
لیے کم سے کم بل کی رقم تقریبا200 روپے ہے اور گذشتہ ماہ تک مساجد ومدارس
وغیرہ کے لیے بھی کم سے کم بل کی رقم200 روپے ہی تھی مگر حکومت کے ذیلی
ادارے ”اوگرا“ نے اسلام دشمنی میں ظالمانہ طور پر 22ستمبر 2012 ءسے دینی
اداروں کے لےے کم سے کم بِل کی رقم 200 روپے سے بڑھا کر 3,600 روپے کردی
ہے۔مساجد میں وضو کے گرم پانی کے لیے تین ماہ یعنی دسمبر، جنوری اور فروری
میں سوئی گیس استعمال کی جاتی ہے باقی 9 ماہ یعنی مارچ سے نومبر تک مساجد
میں گیس کا استعمال نہیں ہوتا۔چنانچہ اِن 9 ماہ کے دوران گیس استعمال نہ
کرنے کے باوجود 3,600 روپے ماہوار کے حساب سے 9 ماہ کا کم از کم
بل32,400روپے ادا کرنا ہوگا اور اس کے علاوہ گیس کے استعمال کے حساب سے بھی
فی یونٹ پانچ سو روپے مزید ادائیگی بھی کرنی پڑے گی ۔
مساجد ومدارس کے ساتھ یہ ظالمانہ اور غیر مساویانہ طرزِ عمل اسلام دشمنی
اور ظلم کی اِنتہا نہیں تو اور کیا ہے؟ اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آنے
والی اس مملکت میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لوگوں کی دینی ،علمی ،روحانی
اور اسلامی ضروریات پوری کرنے کے لیے مساجد ومدارس کے جملہ اخراجات اور
انتظامات ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی۔ اگر ریاست تمام تر بوجھ اور
ذمہ داری اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی تو کم از کم بجلی اور گیس کی سہولت تو
مفت مہیا کی جاتی لیکن یہاں تو الٹی ہی گنگا بہتی ہے۔اسلا م کے نام پر معرضِ
وجود میں آنے والی اس ریاست میں دین پر عمل کرنے کو روز بروز مشکل سے مشکل
بنایاجا رہا ہے جبکہ گناہ کرنا دن بدن آسان سے آسان تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔
وہ چیزیں جن کی وجہ سے نسلِ نو کے بہکنے اور بے راہ روی کا شکار ہونے کے
امکانات زیادہ ہیں انہیں سستا کیا جارہا ہے ،ان تک رسائی آسان ہوتی چلی
جارہی ہے اور وہ ہر آدمی کی پہنچ میں ہیں لیکن وہ دینی مدارس جو اس قوم کے
بچوں اور بچیوں کو علومِ نبوت سے روشناس کروانے والے ہیں اور وہ مساجد جو
ایک مسلمان کی ایمانی اور روحانی زندگی کے لیے ازحد ضروری ہیں ان کا انتظام
مشکل سے مشکل تر بنایا جا رہا ہے ۔
حکومت کے اس ظالمانہ اور غیر منصفانہ فیصلے کے بارے میں عوام الناس میں
مختلف قسم کی آراءپائی جاتی ہیں ۔بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ اس عالمی
استعماری ایجنڈے کا حصہ ہے جس کے تحت دینِ اسلام سے نسبت رکھنے والی ہر
علامت ،ہر ادارہ اور ہر مرکز دشمن کا ہدف ہے اور وہ ہر اس عمل کو روکنا
چاہتے ہیں جواسلام کے غلبے اور مسلمانوں کی کامیابی کی ضمانت دیتے ہوں اور
جن کے ذریعے لوگ دین سے مزید قریب ہوسکیں یہی وجہ ہے کہ کبھی مساجد میں بم
دھماکے کروا کر لوگوں کو خوفزدہ کر دیا جاتا ہے اور انہیں مسجدوں میں جانے
سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔کبھی دینی مدارس کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے
،مدارس کی کردا ر کشی کی مہم چلائی جاتی ہے ،مدارس کے اساتذہ وطلباءکو شہید
کیا جاتا ہے ،مدارس پر بلاجواز چھاپے مارے جاتے ہیں ،مدارس کے ساتھ تعاون
کرنے والوں کو ہراساں کیا جاتا ہے اور اب ایک وار گیس کے بلوں کی شکل میں
کیا گیا۔ اس سے قبل بجلی کے بلوں میں بھی غیر اعلانیہ طو ر پر اس قسم کی
وارداتوں کو محسوس کیا گیااور اب گیس کے بلوں کی شکل میں نقب زنی کی کوشش
کی جارہی ہے جسے انشا اللہ کسی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا
۔جبکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ واردات کسی ایسے بے دین ،سیکولر اور
قادیانی مزاج بابو کے شاطرانہ دماغ کا شاخسانہ ہے جس نے مساجد ومدارس کو
ہدف بنا کر مسلمانوں کے ایمان وعقیدے اور مذہبی وابستگی پر ضرب لگانے کی
کوشش کی ہے لیکن اللہ کی ذات سے امید ہے کہ اس ملک کے کروڑوں اہلِ ایمان اس
کوشش کو ناکام بنا کر دم لیں گے ۔
اس ظالمانہ فیصلے کی اطلاعات ملنے کے بعد پید اہونے والی صورتحال پر غور
کرنے کے لیے ابتدائی مرحلے میں ہم نے اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے پلیٹ
فارم پر تمام مکاتب فکر کی سرکردہ شخصیات کو جمع کرکے باہمی مشاورت کی اور
حکمت عملی طے کر لی ہے کہ اس ظالمانہ جسارت کی ہرسطح پر ،ہر طریقے سے ہر
ممکنہ مزاحمت کی جائے گی۔ ابتدائی مرحلے میں ہم صدرِ پاکستان، وزیرِ اعظم
پاکستان ، وفاقی وزیرِ پٹرولیم پاکستان اور چئیرمین ”اوگرا“سے خطوط،مضامین
،اخبارات اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے مطالبہ کرتے ہیں کہ فی الفور مساجد
ومدارس کے سوئی گیس بلوں میں اضافہ کو واپس لیا جائے اور اس ظالمانہ
وجانبدارانہ فیصلہ کے ذمہ داروں کومعطل کرکے عبرتناک سزا دی جائے۔اسی طرح
چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی گزارش ہے کہ وہ اس اقدام پر سوموٹو نوٹس لیں
تاکہ اربابِ مساجد ومدارس اور پوری قوم میں پایا جانے والا اضطراب ختم
ہوسکے۔ |