جب جانور مر جاتا ہے تو اس کا
مالک بھی مر جاتا ہے پھر ہم تعزیت اور افسوس کر لیتے ہیں اور کچھ کر بھی تو
نہیں سکتے۔
یہ الفاظ ہیں70 سالہ اللہ ڈیوایا کی جو کہ چولستان کے ٹوبہ قصائی والہ کے
قریب رہتا ہے۔چولستان وہ خطہ ہے جہاں جانور انسان کو پالتے ہیں۔چولستان میں
رہنے والے خاندانوں کی روز مرہ کی ضروریات کی ہر چیز جانور ہی پوری کرتے
ہیںیہاں کی ڈیڑھ لاکھ آبادی کا ذریعہ معاش اور اور کئی سالوں سے ہاکڑہ
تہذیب ، چولستانی ثقافت بھی جانووروں سے حاصل ہونے والی پیداوار دودھ،
گھی،اون اور گوشت کی آمدن کے سہارے زندہ ہیں۔گزشتہ ماہ جولائی اور اگست
میںپر اسرار بیماری کی وجہ سے ہونے والی جانوروں کی ہلاکتوںنے چولستان
میںبسنے والے خاندانوں کو شدید نقصان پہنچاےا اللہ ڈیوایا کو بھی دوسرے
چولستانیون کی طرح اپنے جانوروں سے کئی امیدیں وابسطہ تھیں۔۔۔۔متاثرہ کا
بیان۔ کہ ہمارے جانور مختلف قیمتوں میں بکتے ہیں اور پھر ہم گھر کا نمک مرچ
گھر والوں کے کپڑے اور کوئی زیور لیتے اور بچوں کی شادیاں بھی کرتے لیکن جب
جانور مر جائے تو سب کچھ ختم ۔سرکا ری محکمہ لایﺅ سٹاک کے اعداد و شمار کے
مطابق چولستان میں جانوروں کی تعداد تقریباََ بیس لاکھ سے زائد ہے۔اور
چولستانی جانوروں سے جو پیداوار حاصل کی جاتی ہیں وہ پنجاب کی پیداوار کا
چالیس فی صد حصہ ہیں۔ ایک مقامی باشندہ اللہ بچایا سے جانوروں کی ہلاکت کے
بارے میں پوچھا تو جانوروں کے مرنے کی کیفیت کچھ یوں بیان کرتے ہیںکہ
جانوروں میں بیماری آئی مریض جانور کانپتے کانپتے جانور مر جاتا تھاذبح
کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا آخر ہم نے چھری قریب رکھی اور سولہ جانوروں کے
مرنے کے بعد سترہویں جانور کو ہم نے ذبح کیا اور خون کو ٹیسٹ کے لیے بھیجا
پتہ چلا کہ گل گھوٹو کی بیماری تھی پھر دوائی لی تو اب باقی جانور ٹھیک ہیں
جو چلے گئے وہ تو گئے باقی ٹھیک ہیں۔مقامی اور متاثرہ لوگوں کے مطابق
جانوروں کی ہلاکت کی وجہ گل گھوٹو بیماری تھی اس بیماری سے جانور کا گلہ
سوج جاتا ہے جسکی وجہ سے جانور کھا پی نہیں سکتا اور پانی بھی نہیں پی سکتا
اور بہت کم وقت میں سانس لینے میں بھی دشواری ہوجاتی ہے اور چند گھنٹوں میں
جانور کی موت ہو جاتی ہے۔اس حوالے سے حکومتی عہدیدار لائیو سٹاک چولستان
ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر سہیل کے ساتھ گفتگو کی تو ان کا
کہنا تھابیماری سے نہیں چارے کی کمی کی وجہ سے ہوئی ۔ان کا کہنا تھاکہ ان
دنوں دس منٹ کے لیے بہت تیز بارش ہوئی اور جانوروں نے پانی جی بھر کے پی
لیا اور اوپر سے خوراک نہیں ملی جس کی وجہ سے گریزنگ نہیں ہوئی اور گل
گھوٹو کی بیماری نہیں تھی اگر وہ ہوتی تو باقی جانور بھی اس بیماری سے
متاثر ہوتے کیونکہ یہ چھوت کی بیماری ہے ہماری رپورٹس کے مطابق ایسی کوئی
بیماری ثابت نہیں ہوئی۔ مقامی لوگوں سے انٹرویوز کے دوران ریوڑوں میں
سرکاری سطح پر کی گئی گل گھو ٹو بیماری کی روک تھام کے لیے جانوروں کو
لگائی گئی ویکسین کی بوتلیںدیکھنے کو ملیں جن پر گل گھوٹو کی ویکسین کا نام
ہیمورہیجک سپٹیسیمیا واضح لکھا ہوا تھا۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ چولستان میں
جانوروں کی ہلاکتیںکسی بیماری سے ہی ہوئی ہیں۔ مال مویشی ہی چولستان کے
رہایشیوں کا مکمل اور واحدذریعہ معاش ہیں۔ ان کی بھی دیکھ بھال نہ کی گئی
تو چولستان میں بسنے والے خاندانوں کی معاشی بد حالی کا بڑھنے کا خدشہ ہے
جس سے بچوں کی شادیاں، تہذیب و تمدن اور دوسرے رسم و رواج بری طرح متاثر ہو
رہے ہیں ۔اور اب بھی کئی خاندان خانہ بدوشوں جیسی زندگی گزار رہے ہیںمقامی
باشندے محمد حسین کا کہنا ہے کے اس کے جانور گل گھوٹو کی بیماری سے مرے ہیں
جس کے بعد اس کے خاندان کو معاشی طور پر زندگی کا سب سے بڑا نقصان پہنچا
ہے۔محمد حسین نے بتایا کہ بیوی اور بچوں کے علاوہ کوئی دولت نہیں ایک ٹکہ
بھی نہیں ہےابھی اپنی بیٹی کی شادی کی ہے ہمسایوں سے بھیک مانگ کر۔ دس سے
بارہ ہزار اکٹھے ہوئے تھے بس ان سے جو کچھ ملا وہ بیٹی کو دے کر بیاہ دیا
اور قرض ادا کیا۔محمد حسین کہتا ہے کہ چولستان میں تعلیم کی کمی کی وجہ سے
چولستان میں اب بھی بیک وقت ایک ہی ٹوبہ سے انسان اور جانوراکٹھے پانی پیتے
ہیں اور چولستان میں تعلیم کا نام نشان تک نہیں۔چولستانیوں کی معشیت ختم
ہونے کا خدشہ ہے۔ معلوم نہیں کہ ان چولستانیوں کی زندگی میں تبدیلیاں کب
آئیں گیں۔اور یہ کب خوشحال دنیا کا حصہ بنیں گے۔ |