تحریر،مرزا عارف رشید
اس ملک جہاں سب کی بولی لگتی ہے اور اس بولی ہر کوئی اپنی قسمت وصول کرتا
ہے تو پھر کچھ ٹی وی چینلز کے اینکرز کیوں پیچھے رہ جائیں ‘ جہاں ہمارے ملک
کے سیاستدانوں کی بولی لگتی ہو ‘ جہاں سرکاری افسران خود بکنے کیلئے تیار
ہوں جس ملک کے قانون کو خریدا جا سکتا ہے جہاں نائب قاصد سے لیکر سب کی
بولی لگتی ہو وہاں کچھ ٹی وی چینلز کے اینکرز کی بھی بولی لگی تو کچھ نے
اپنے آپکو سستا اور کچھ نے مہنگا بیچا ‘ کسی نے لاکھوں میں کسی نے کروڑوں
میں اور کسی نے گاڑیاں یا پلاٹ لیکر ۔ 18نومبر کی صبح جب میری نظر خبروں پر
پڑھی تو حیرانیگی ہوئی جس میں کچھ ٹی وی چینلز کے اینکرز کے بارے میں لکھا
ہوا تھا ۔ اس ملک کے سب سے بڑے بلڈرز ملک ریاض نے کس کس اینکر کو نوٹوں سے
خریدہ اور کن کن اینکرز نے اپنے ضمیر کا سودا کیا تھوڑے سے نوٹوں کی خاطر
ملک ریاض کے سامنے نوٹوں کی تھاپ پر رقص کرنے لگے ‘ کچھ نے نوٹوں کیلئے ‘
کچھ نے پلاٹس اور کچھ نے لمبی لبی گاڑیاں لیکر اپنے ضمیر کو بیچ ڈالا ‘ ان
اینکرز کے بنک اکاؤنٹس میں بڑی بڑی رقوم کہاں سے آئیں ۔ جہاں ملک میں پریس
کو چوتھا ستون کہا جاتا ہے ‘ پریس والوں کے سامنے بڑے بڑے سیاستدانوں کے سر
جھک جاتے ہیں وہاں ان کرپٹ اینکرز کی وجہ سے عامل و جید حقیقی صحافیوں کے
سر شرم سے جھک گئے ہیں کیا ان لوگوں کو کردار یہی ہے ؟ ان خوبصورت چہروں کے
پیچھے ایسے بھیانک چہرے چھپے ہوئے ہیں ‘ ان مبینہ بد کرداروں کی وجہ سے
پورے ملک کے صحافی شرم سے ڈوب گئے ہیں ‘ اگر ملک میں سیاستدان کرپشن کرتے
ہیں تو ہم انکو ایسے اچھالتے ہیں اور اگر کوئی سرکاری ملازم کرپشن کرے تو
ہم اسکے پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں ‘ اس وقت ہم اپنا گریبان نہیں دیکھتے ‘ ایسا
لگتا ہے جیسے ہم مسجد امام ہوں اور ہم نے کبھی کرپشن نہ کی ہو ۔ آج معلوم
ہوا کہ انکا کردار کیا ہے ‘ ملک ریاض نے بڑے بڑے اینکرز کو نوٹوں کی تھاپ
پر اپنی مرضی کا رقص کروایا ‘ ملک ریاض کا جب دل چاہتا تھا ‘ تھوڑے سے نوٹ
ڈال کر انکی زبان خرید لیتا تھا اور پھر یہ لوگ ملک ریاض کی زبان بولتے تھے
‘ ہمارے ٹی وی اینکرز جب ٹی وی سکرین پر آتے ہیں اور مختلف لوگوں سے سوال
جواب کرتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ سچ بول رہے ہوں یا ابھی نماز پڑھ
کر آئیں ہوں اور باوضو بیٹھے ہیں ‘ ایسا لگتا ہے کہ انکی وجہ سے ہمارے ملک
میں تبدیلی ضرور آئی گی لیکن انکا اصلی چہرہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا ‘ جب یہ
لوگ ضمیر فروش ہیں تو ملک میں کیا تبدیلی آ سکتی ہے ‘ اگر کوٹھے پر نچانے
والی منہ مانگے دام لیکر کسی کے سامنے ناچتی ہے تو ہم اسے کیوں برا کہتے
ہیں ‘ پھر اس میں اور ٹی وی اینکرز میں کیا فرق رہ گیا ہے لکھنے والے نے
کیا خوب لکھا کہ ” مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے“ جس ڈون کی وجہ سے اپنے
ضمیر کا سودا کیا تھا اسی نے آج انکے چہرے بے نقاب کر کے اصلی چہرہ دکھا
دیا ‘ ڈاکٹر شاہد مسعود ( المعروف قیامت کی نشانیاں بتانے والے) کیا انہیں
ایسی حرکت کرتے ہوئے قیامت نظر نہیں آئی ‘ حامد میر ( المعروف وڈے صحافی)
مبشر لقمان ( المعروف جھوٹ کو سچے بنانے والے ) ‘ کامران خان ( المعروف مرد
بحران ) ‘ حسن نثار ‘ ( المعروف عقل کل ) ‘ جاوید چوہدری ( المعروف سمجھ
داروں کی نانی ) ‘ مہر بخاری ( المعروف ساری دُنیا کا درد رکھنے والی )
مظہر عباس ( المعروف بابائے صحافت ) ‘ مشتاق مہناس ( بابا جی پڑھے لکھے )
‘ماروی سرمد ( گلیمریس کوئین ) ‘ ارشد شریف ‘ نصرت جاوید ( المعروف پہنچے
ہوئے صحافی ) ‘ منیب فاروق ( المعروف تاریخ سے نابلد ) ‘ آفتاب اقبال (
المعروف اُردو کے تلفظ درست کرانےوالے ) ‘ سہیل وڑائچ ( المعروف ہم گھر گئے
) ‘ عاصمہ شیرزای ( المعروف پردہ دار خاتون ) اور سیمی ابراہیم ( المعروف
نئی نئی آمد ) یہ سب چلے ہوئے کارتوس ہیں ۔ ملک ریاض نے دیکھ لیا کہ یہ
مبینہ ضمیر فروش اب میرے کام کے نہیں رہے اور اب یہ میری شرط رنج کے مہرے
نہیں رہے جب تک یہ ملک ریاض کے کام کے تھے تو بڑے مزے سے جسکا دل کرتا تھا
اسکے کپڑے اتار لیتے تھے ان لوگوں کی وجہ سے حقیقی صحافیوں کے قلم کو زوال
آیا ‘ جہاں بڑے بڑے لیڈر قلم سے ڈرتے تھے تم جیسے نام نہاد صحافیوں نے ایسے
حقیقی صحافیوں کو آ گے آنے ہی نہیں دیا اور تمہارا ضمیر تمہں ملامت کیوں
نہیں کرتا کہ تم ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر بڑی بڑی باتیں تو کرتے ہو ‘ آج تم
لوگوں کی وجہ سے حقیقی میڈیا بد نام ہو گیا ہے اور چھوٹی چھوٹی خبروں کو
ایسے پیش کرتے ہو جیسے خدا نخواستہ ملک ٹوٹ رہا ہو ‘ کوئی شریف آدمی اگر تم
جیسوں کو ہتھ چڑھ جائے تو تم لوگ اسکی بے عزتی کرتے رہتے ہو آخر کار اسکی
لاٹھی بے آواز ہے اور ایک نہ ایک دن تم جیسوں کو کرپشن بے نقاب ہونی تھی ‘
انتے عرصہ سے تم مسجد امام بن کر عوام کے جذبات سے کھیلتے پھر ہو آخر
تمہارا زار فاش ہو گیا تم جیسے گندے انڈوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا
چاہئے تھا کل تک ٹی وی سکرین پر تھانیدار بن کر بیٹھنے والے کب جیل جائیں
گے ‘ ہمارا ملک کا کوئی ایسا قانون نہیں جو تم جیسے کرپٹ صحافیوں کو پکڑ
سکے ‘ تم وہ کرپٹ صحافی ہو جن کی وجہ سے حقیقی عمل و جید صحافی پریشان ہو
گئے ہیں ‘ اتنی بڑی بڑی تنخواہیں لیکر بھی اپنے ضمیر سود ضمیر کر دیا ‘ کیا
پاکستان دُنیا میں پہلے کم بد نام تھا کہ تم جیسے نے اسے اور بدنامی کے
اندھیروں میں ڈوبا دیا ‘ تم جیسوں سے تو وینا ملک اچھی جسکے کم از کم قول و
فعل میں تضاد تو نہیں ہے اور وہ جو کہتی ہے وہ کرتی ہے۔ |