میں وزیر اعلی پنجاب کی صلاحیتوں
کا احترام کرتا تھالیکن جب ان کے دعوﺅں اور انتظامیہ کی ہٹ دھرمی کا موازنہ
کرنے لگتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ بیوروکریسی اور خصوصا تھانہ کلچر انہیں
اتنی ہی اہمیت دیتا ہے جتنی گھر داماد کو سسرال والے ۔ وزیر اعلی پنجاب
اپنی تمام تر محنت اور بھاگ دوڑ کے باوجود تھانہ کلچر درست نہیںکر سکے اور
نہ ہی بیوروکریسی ان کے ہاتھ آئی ۔ خادم اعلی صوبے کی انتظامیہ کو جتنا
کھینچتے ہیں اتنا ہی انتظامیہ ان کے احکامات کا ”فالودہ “ بنا دیتی ہے ۔کم
از کم لاہور کی حد تک بات کی جائے تو اب میں پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا
ہوں کہ یہاں جس طرح وزیر اعلی پنجاب سرکاری آفیسران کو کچھ نہیں سمجھتے اسی
طرح سرکاری آفیسران بھی انہیں کچھ نہیں سمجھتے اور نہ ہی ان کے احکامات
انتظامیہ کے ذمہ داران تک پہنچائے جاتے ہیں ۔
10 محرم کی دوپہر میں اپنی صحافتی ذمہ داریوں کی بنا پر لاہور شہر کی خاک
چھان رہا تھا ۔ اس روز ڈبل سواری پر پابندی تھی جبکہ میر ے ساتھ موٹرسائیکل
پر ایک اور صحافی بھی تھا۔ محرم کے حوالے سے وزیر اعلی پنجاب نے اخبارات
میں لاکھوں کے جو اشتہارات شائع کروائے ان میں صاف صاف لکھا تھا کہ بزرگ،
خواتین ، بچے اور صحافی اس پابندی کی زد میں نہیں آتے ۔ صحافیوں کے حوالے
سے یہ وضاحت بھی کی گئی تھی کہ ان کے پاس اپنا کارڈ موجود ہونا چاہیے۔ مجھے
دکھ کے ساتھ بتانا پڑ رہا ہے کہ اس روز پنجاب پولیس کے جوان ڈاکو بن چکے
تھے۔ کئی مقامات پر ”پرچہ “ کی دھمکی دے کر دیہاڑی لگانے والوں کو میں نے
خود بھی دیکھا ۔ حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کے دن لاہور میں یزیدیت ننگا
ناچ ناچتی نظر آ ئی ۔ موبائل سروس جام ہونے کا فائدہ پولیس جوانوں نے یوں
اٹھایا کہ لوگوں کو بلاوجہ روک کر” بھتہ “ مانگنے کے ساتھ ساتھ پرچہ درج کر
کے تھانے میں بند کر دینے کی دھمکیاں دی جا رہی تھی ۔ لاہور کے شہری یزیدیت
کے علمبرداروں کو بھتہ دینے پر مجبور تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ بے
گناہ ہوتے ہوئے بھی کم از کم ایک روز تک انہیں جیل میں رہنا پڑے گا اور اس
دوران ان کے گھر والے انہیں ہسپتالوں کے مردہ خانوں میں تلاش کرتے رہیں گے
۔
میں ا پنے ساتھی صحافی کے ساتھ اسی موضوع پر بات کر رہا تھا کہ ہمیں سی سی
پی اوآفس سے کچھ ہی فاصلے پر ٹریفک پولیس کے مزنگ سیکیٹر آفس کے سامنے
پنجاب پولیس کے جوانوں نے روک لیا ۔ ہم نے انہیں نہ صرف یہ وضاحت کی کہ ہم
اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں بلکہ اپنے ادارے کی جانب سے جاری کردہ کارڈ کے
علاوہ پنجاب اسمبلی کا جاری کردہ کارڈ بھی ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔ ان
جوانوں نے کارڈ دیکھنے کے بعد اپنی تسلی کی اور پہلا سوال یہ کیا کہ آپ
صحافی ہیں توکیا اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کریں ؟ میرے دوست
نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا اور پوچھا قانون کی خلاف ورزی سے آپ کی مراد
کیا ہے؟ جواب ملا ڈبل سواری ۔ میں نے اسے بتایا کہ بطور صحافی آپ ہماری
شناخت کر چکے ہیں اور وزیر اعلی پنجاب نے ڈیوٹی پر موجود صحافیوں پر اس
پابندی کا اطلاق نہیں کیا حالانکہ یہ بات انہیں آئی جی یا سی سی پی کی جانب
سے ملنی چاہی تھی ۔ لیکن اس وقت میں بھونچکا رہ گیا جب اس محافظ نے کہا :
اگر ہم یہ کارڈ پھاڑ دیں اور آپ کو تھانے میں بند کر دیں تو کیا کر لو گے؟
تم لوگ تو یہی ثابت نہیں کر سکو گے کہ تم نے ہمیں اپنا کارڈ دکھایا تھا ۔
دوران گفتگو دوسرا جوان پسٹل ہاتھ میں تھامے بار بار اس کا چیمبر مار رہا
تھا اور ایک آدھ مرتبہ نہ صرف میگزین نکال کر ہمیں گولیوں کا دیدار کروایا
گیا بلکہ میگزین سے ایک گولی نکال کر دوبارہ ڈالی گئی ۔
پولیس کے یہ جوان نہ صرف وزیر اعلی پنجاب بلکہ آئی جی سمیت اپنے تمام
آفیسران کے منہ پر یہ کہہ کر تھپڑمار چکے تھے کہ ہم یہ کارڈ پھاڑ کر پھینک
دیں اور تم پر پرچہ کر کے تھانے میں بند کر دیں تو کیسے ثابت کرو گے؟ اب
ہمار ے پاس نہ تو کوئی اصول بچاتھا اور نہ ہی قانون ۔ پنجاب اسمبلی اور سی
سی پی او آفس کے قریب پنجاب پولیس کا جوان پنجاب اسمبلی کی جانب سے جاری
کردہ کارڈ پھاڑنے کی بات کر رہا تھا جبکہ اس کا ساتھی بار بارسرکاری پسٹل
کا چیمبر چڑھاتے ہوئے ہمارا این کاﺅنٹر کرنے کا اشارہ دے رہا تھا ۔ ہم اس
مقام پر کھڑے تھے جہاں قانون کتابوں کی کسی شیلف میں اور وزیر اعلی کے
احکامات اخبار میں ہی اچھے لگتے ہیں ۔ وہاں سے ہمیں کس طرح امان ملی یہ ایک
الگ کہانی ہے ۔بہرحال جب میرے دوست نے ان کی موٹر سائیکل کا نمبر دیکھنے کی
کوشش کی تو معلوم ہوا ان بہادر محافظوں نے نمبر پلیٹ لگانے کی زحمت ہی نہیں
کی ۔یہ رسم لاہور میں عام ہے کہ پولیس جوان موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ نہیں
لگاتے۔ اسی طرح اب یہ بھی عام ہو چکا ہے کہ نام والا بیج سویٹر کے اندر
لگایا جاتا ہے تاکہ ان ” ضروری کاموں “ کے دوران شناخت ممکن نہ رہے۔ عین
ممکن ہے کہ پولیس آفیسران یا وزیر اعلی کے حامی یہ دلیل دیں کہ ہو سکتا ہے
یہ لوگ پولیس فورس س تعلق نہ رکھتے ہوں تب مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ 10 محرم
کو لاہور کی معروف شاہراہ پر ایک اعلی پولیس آفیسر کے دفتر کے پاس دہشت گرد
سر عام اسلحہ لہراتے ہوئے لوٹ مار کر رہے تھے اور انتظامیہ میں سے کسی میں
اتنی ہمت نہ تھی کہ انہیں گرفتار کر سکے۔ پھر مجھے یہ بھی بتانا پڑے گا کہ
ہماری تاریخ میں ایک ایسے بادشاہ کا بھی ذکر ہے جس نے ہجڑوں کی فوج بھرتی
کر رکھی تھی اورایک مرتبہ پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی تھی۔
شام واپسی پر ہمیں مال روڈ نہر کے پاس ٹریفک پولیس کے سارجنٹ نے روک لیا ۔
غنیمت تھی کہ اس کے پاس پسٹل نہیں تھا ورنہ شاید وہ بھی یہی رویہ اختیار
کرتا ۔ اس نے وزیر اعلی کے اس حکم سے ہی انکار کر دیا کہ ڈبل سواری پر کچھ
لوگوں کو رعایت دی گئی ہے۔ جب میں نے پوچھا کہ ہماری بات رہنے دو لیکن یہ
بتاﺅ کہ کیا وزیر اعلی کی جانب سے ایسا بھی کوئی حکم نہیں جس کی رو سے
بزرگوں یا خواتین کو کوئی رعایت دی گئی ہے ؟ اس کا جواب تھا ہمیں تو یہی
حکم ہے کہ جو بھی نظر آئے اس کے خلاف پرچہ کر دو۔
مجھے نہیں معلوم کہ وزیر اعلی اور آئی جی صاحب نے اپنے ان جوانوں کی تربیت
کس ماحول میں کی ہے ۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ انہیں وزیر اعلی کے احکامات
کیوں نہیں بتائے جاتے ؟ لیکن میں یہ ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ ایک ٹریفک
سارجنٹ کو یہ حکم کس نے دیا کہ وہ چالان کی بجائے پرچہ درج کرنے لگے؟ میں
یہ بھی جاننا چاہوں گا کہ محافظ فورس کے جوان کو یہ حکم کس نے دیا کہ وہ
وزیر اعلی کے احکامات کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے پنجاب اسمبلی اور
صحافتی اداروں کے جاری کردہ کارڈ پھاڑ کر شناختی ثبوت ضائع کرنے کی کوشش
کرے؟ کیا وزیر اعلی یا آئی جی پنجاب نے پولیس فورس کو155/C پولیس ایکٹ 2002
کی دھجیاں اڑانے کی اجازت د ے رکھی ہے؟ سی سی پی او آفس کے پاس کھڑے جوان
میں اتنی جرات اسی وقت آ سکتی ہے جب اسے معلوم ہو کہ سی سی پی او صاحب اور
دیگر اعلی آفیسران کچھ پی پلا کر دھت سو رہ ہیں ۔ کیا واقعی ایسا ہی تھا ؟
جس صوبے کا وزیر اعلی اور پولیس آفیسران راہ جاتے شہریوں کو تحفظ فراہم
کرنے میں ناکام رہے ہوں اور جہاں پولیس جوان ایک اعلی پولیس آفیسر کے دفتر
کے پاس کھڑے ہو کر پنجاب اسمبلی کے کارڈ پھاڑنے پر آمادہ ہوں ، جہاں ایک
محافظ ڈیوٹی پر جانے والوں کے شناختی کارڈ پھاڑنے کی بات کریں اور جہاں
سرکاری ملازم اپنے صوبے کے وزیر اعلی کے احکامات کو جوتے کی نوک پر رکھیں
وہاں یزیدیت کا پرچم بلند کیا جاتا ہے اور معذرت کے ساتھ کہ میں کبھی بھی
ایسے علمبرداروں کے قصیدے لکھنے کا قائل نہیں رہا۔ |