کچھ موتی عربی ادب سے

امام ابویوسف(رح) کااندیشۂ عاقبت
امام ابویوسف(رح) نے اپنی مرض الوفات میں فرمایا:
’’بخدامیںنے کبھی زنانہیں کیا،نہ فیصلے میں کبھی نا انصا فی کی، مجھے اپنے متعلق کچھ اندیشہ نہیں، البتہ ایک حرکت مجھ سے ایسی سرزد ہوگئی جس کے مواخذہ کا مجھے اندیشہ ہے‘‘۔

آپ سے پوچھا گیا: کون سی حرکت؟ آپ نے فرمایا: خلیفہ ہارون الرشیدنے مجھے کہا تھا کہ میں لوگوں کے ہر قسم کے مسائل کا بغور جائزہ لے کر اس کی موجودگی میں ان پر فرمانِ شاہی کی مہر لگایا کروں، میری عادت یہ تھی کہ میں ایک دن پہلے ان کے کاغذات لے کر ان کی چھان پھٹک کرتا، ایک مرتبہ ان کا غذات میں ایک نصرانی کا مقدمہ تھا جس میں اس نے زمین کے سلسلہ میں امیر المومنین ہارون الرشید کے ظلم کی شکایت کی تھی،اس کا کہنا تھا کہ امیر المومنین نے اس کی زمین غصب کی ہے، میں نے اس کو قریب بلا کر کہا:آج کل یہ زمین کس کے قبضہ میں ہے؟ اس نے کہا:’’ امیر المومنین کے قبضہ میں ہے‘‘ میں نے پوچھا:’’ اس کی آمدنی کون اُٹھاتا ہے؟ اس نے کہا:’’ امیر المومنین‘‘ ہر مرتبہ سوال کرنے سے میرا مقصد یہ ہوتا کہ وہ امیر المومنین کو چھوڑ کر کسی دوسرے فریق کانام لے ،مگروہ ہر مرتبہ امیر المومنین کا ہی نام لیتا اور کہتا کہ میرا جھگڑا فقط امیر المومنین سے ہے۔

بہر حال میں نے اس سے روایتی پوچھ گچھ کے بعد اس کے کاغذات لوگوں کے عام کاغذات میں رکھ دئیے، پھر جب اگلے روز کچہری لگی تو میں نے ایک ایک کا نام لے کر لوگوں کو بلانا شروع کیا یہاں تک کہ اس نصرانی کا نمبر بھی آگیا، میں نے اسے بلایا، اس کا مدعی امیر المومنین کو پڑھ کر سنایا.

انہوں نے جواب دیا:’’ یہ زمین ہمیں منصور سے وراثت میں ملی ہے‘‘

میں نے نصرانی سے کہا:’’ سن لیاتو نے ،کیا تیرے پاس کوئی گواہ ہیں؟‘‘

اس نے کہا:’’ نہیں ،مگر آپ امیر المومنین سے قسم لیں‘‘ میں نے ہارون سے کہا:’’ کیا آپ قسم اٹھانے کے لئے تیار ہیں ؟

انہوں نے کہا:’’ ہاں‘‘ اور فوراً حلف اٹھایا،میں نے شرعی ضابطے کے مطابق فیصلہ ہارون کے حق میں کر دیا، اور نصرانی رفو چکر ہو گیا۔

اس کے بعد امام ابو یوسف(رح) نے ایک لمبی آہ کھینچ کر فرمایا: ’’ بس مجھے اسی کا خطرہ ہے کہیں پکڑا نہ جائوں‘‘

لوگوں نے آپ سے کہا:’’ اس میں خطرہ کی کون سی بات ہے؟ آپ کو جو کرنا چاہئے تھا آپ نے وہی کیا ہے، کوئی جرم نہیں کیا‘‘ آپ نے فرمایا:’’ نہیں مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ میں نے ہارون کو نصرانی کے ساتھ برابر کے درجے’’ مجلس خصومت‘‘ ﴿کٹہرے﴾ میں کھڑا نہیں کیا اور تقاضائے انصاف اس فرق کی اجازت نہیں دیتے‘‘﴿ الکوثری:حسن التقاضی، ص ۷ ۶ ، ۸ ۶ ﴾

قاضی ایاس(رح) کا مدبرانہ فیصلہ
کہا جاتا ہے کہ ایک آدمی نے کسی کے پاس مال رکھوایا پھر جب اس سے واپسی کا مطالبہ کیا تو اس نے سرے سے مال ہی کا انکار کر دیا، آدمی اسے کھینچ کھا نچ کر قاضی ایاس(رح) کی عدالت میں لے آیا۔

مدعی:’’میں نے جو مال اس کے پاس رکھوایا تھا میں اس سے وہ مانگتا ہوں اور اس کی اتنی مقدار تھی، یہ اس کا انکار کرتا ہے۔

قاضی ایاس(رح): کوئی گواہ ہے؟

مدعی:’’ اللہ گواہ ہے‘‘۔

قاضی ایاس(رح): تونے مال اس کو کہاں دیا تھا؟‘‘

مدعی: فلاں جگہ‘‘

قاضی ایاس(رح) : وہاں کی کوئی ایسی نشانی جو تمہیں یا د ہو؟‘‘

مدعی: وہاں ایک بڑادرخت تھا‘‘

قاضی ایاس(رح) :وہاں جائو،درخت دیکھو، شاید تمہیں کوئی ایسی علامت یا نشانی مل جائے جس کے سبب تمہارا حق اس پر ثابت ہوجائے، یاممکن ہے کہ تم نے مال وہیں کہیں دبایا ہو ۔ وہ آدمی تیزی کے ساتھ وہاں سے نکل گیا۔

قاضی ایاس(رح):﴿مدعی علیہ سے﴾’’تم مدعی کے آنے تک یہاں بیٹھے رہو‘‘۔

مدعی علیہ ایک طرف بیٹھ گیا، قاضی ایاس(رح) دیگر لوگوں کے معاملات نمٹاتے رہے، تھوڑی دیر کے بعد مدعی علیہ کی طرف متوجہ ہو کر کہا: کیا خیال ہے تمہارا مدعی اس درخت تک پہنچ گیا ہوگا جس کا وہ اپنے دعوے میں ذکر کر رہا تھا؟

اس نے کہا:’’ نہیں‘‘

قاضی ایاس(رح) نے کہا:’’ اے اللہ کے دشمن! اللہ کی قسم تو نے ہی خیانت کی ہے‘‘ ﴿ کیونکہ اس شخص کا درخت کو پہچاننا اور اس کے فاصلے کااندازہ کرنا اس بات کی دلیل تھی کہ اس نے واقعۃً اس درخت کے نیچے مدعی سے کوئی معاملہ کیا تھا﴾

اس نے کہا:’’ مجھے معاف کیجئے، اللہ تمہیں معاف کرے آپ نے اہلکار﴿حفاظتی دستوں﴾ سے فرمایا:’’ مدعی کے آنے تک اسے گرفتار کر لو‘‘

جب مدعی آگیا تو آپ نے اس سے فرمایا:’’ اس نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے، اب اپنا حق اس سے وصول کر لو‘‘۔﴿ ابن حجہ: ثمرات،ص ۸۱۱﴾

حق سب سے بڑا ہے
قاضی ایاس(رح) اپنے بچپن میں ایک شیخ کے ہمراہ دمشق کے قاضی﴿جج﴾ کے پاس گئے اور کہا:
اس بوڑھے نے مجھ سے زیادتی کی اور میرا مال کھا گیا ہے‘‘

قاضی نے کہا:’’ شیخ کے ساتھ تمیز سے بات کرو، ان کے متعلق ایسی اُلٹی سیدھی باتیں نہ کرو‘‘

ایاس(رح) نے کہا: حق مجھ سے، اس سے اور تجھ سے غرض سب سے بڑا ہے‘‘

قاضی:’’ چپ رہ‘‘

ایاس(رح):’’ چپ رہا تو میر اکیس کون لڑے گا‘‘

قاضی:’’ اچھا بول، تیرے منہ سے کوئی خیر کی بات نہیں نکلے گی۔

ایاس(رح): لاالہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ﴿ یہ کلمہ جو سراسر خیر ہے کہہ کر انہوں نے قاضی کی بات جھٹلادی﴾

خلیفۂ وقت کو جب اس قصہ کا علم ہوا تو اس نے قاضی کو معزول کرکے ایاس(رح) کو ان کی جگہ قاضی بنا دیا۔﴿ ابن حجہ: ثمرات،۶۲۱،۷۲۱﴾
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 154734 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More