گومل زام ڈیم کے اغواء شدہ ملازمین اور حکمرانوں کا رد عمل

پاکستان کے "دو ٹکے "کے عوام پر حکمران طبقے میں میں اتنا دم نہیں کہ پندرہ اگست 2012سے اغواء ہونیوالے گومل زام ڈیم کے ملازمین کو رہائی دلا سکے کیا حکمرانی کرنے والوں میں شرم اور حیا نام کی کوئی چیز ہے تو آج کل بڑے بڑے اشتہار چھپ رہے ہیں کہ ہم نے عوامی اسلامی فلاحی اور جمہوری ملک میں "دودھ او رشہد کی نہریں" بہادی ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی عوام بہت خوش ہیںاور آنیوالے انتخابات میں"دو ٹکے "کے عوام پھر بھی انہی "نام نہاد لی ڈروں" کو چن لے گی -دکھ و درد کا احساس ان اغواء ہونیوالے افراد کیلئے ہر شہری کے دل میں ہے لیکن نہیں تو صرف حکمرانوں کو - گذشتہ تین دنوں سے میں پشاور پریس کلب میں گومل زام ڈیم سے اغواء ہونیوالے آٹھ ملازمین کے خاندان والوں کو دیکھ رہا ہوں جو ہر ایک کا دروازہ کھٹکھٹارہے ہیں کہ شائدان کا مسئلہ حل ہو اور ان کے معصوم بچوں کیلئے کوئی آواز اٹھائے ہر کوئی انہیں " لارا لپہ "دے رہا ہے لیکن اللہ گواہ ہے کہ مجھے دلی اطمینان نہیں کیونکہ یہ آٹھ ملازمین "کمی کمینوں"کے اولاد میں سے ہیں جن کی اوقات صرف " انتخابات" کے دنوں میں ہر ایک کو یاد آتی ہیں اگر یہ کسی :"وڈیرے چوہدری خان یا سردار کے خاندان سے ہوتے تو پتہ نہیں کیا سے کیا ہوجاتا -

گومل زام ڈیم سے اغواء ہونیوالے آٹھ اہلکار جوکہ چینی اشتراک سے بننے والے منصوبے پر کام کررہے تھے کو 15 اگست کو اغواء کیا گیا تھا 11ستمبر کو ان کی ویڈیو منظر عام پر آگئی ابتداء میں عسکریت پسندوں نے اپنے کمانڈروں کی رہائی سمیت اٹھارہ کروڑ پاکستانی کرنسی کا مطالبہ کیا لیکن بعد میں صرف پندرہ کروڑ روپے پرراضی ہوگئے -گذشتہ کئی ماہ سے ان آٹھ افراد کے خاندان کے لوگ ہر اس در کو کھٹکھٹا رہے ہیں کہ خدارا ہماری مددکی جائے - عسکریت پسندوں نے تین دسمبر تک ڈیڈ لائن دی ہے کہ اگر ادائیگی نہیں کی گئی تو ان بے گناہ افراد کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے-ان آٹھ ملازمین کے خاندان کے افراد حکمرانوں کے ڈیروں اور ایوانوں پر حاضریاں لگا لگا کر تھک گئے لیکن " پختون خوار "میں وفاق کی نمائندگی کرنے والا " بابوجی "کبھی ان متاثرہ خاندانوں کو ایک طرف بھیج دیتا ہے اور کبھی دوسری طرف لیکن ان کی کوئی مدد نہیں ہورہی اور اب یہ لاچار اور بے بے بس خاندان ان " بابو جی اور ان جیسے بے شرموں"کو " شرم"دلانے کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ بھی لگارہے ہیں تاکہ اگر شرم ذرہ برابر بھی ہو تو شائد ان کے بچوں کیلئے کوئی اقدام اٹھایا جاسکے- ان متاثر ہونیوالے خاندانوں کے بقول ہمیں نہیں پتہ کہ ہمارے بچوں کیساتھ ایسا ہوگا- ہمارے بچے تو :"سرکار "کے ملازم تھے ان کی حفاظت ان کی ذمہ داری ہے لیکن!

عسکریت پسندوں کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کیا انہیں معلوم نہیں کہ "دو ٹکے"کے عوام کی کہیں پر اہمیت نہیں اور ایسے "ب حیثیت" لوگوں کو اغواء کرنے سے انہیں کیا ملے گا یہ غریب تو یومیہ مزدور ہیں یعنی دیہاڑی دار ملازمین ہیں اور دیہاڑی دار کے ہمارے ہاں کیا اوقات ہیں یہ تو ہر ایک کو پتہ ہے اگر دیہاڑی دار ملازم ایک دن مزدوری کرے گا تو اس کے گھر کا چولہا جلے گا ورنہ پھر فاقے ایسے میں ان بے چاروں کی اغوائیگی سمجھ میں نہ آنیوالی بات ہے اورکیا انہیں یہ نہیں پتہ کہ ہمارے حکمران آج کل اپنی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں حکمرانوں کو آنیوالے انتخابات کی تیاری کرنی ہے کچھ لوگوں کو اپنے "بچوں" کو تیار کروانا ہے کہ اگلے انتخابات میں کس طرح "ڈرامہ"کرکے بے وقوفوں کو "مزید بے وقوف"بنا کر "آوے ہی آوے"کے نعرے لگانے ہیں کچھ لوگ "بھرتیوں"میں اپنے لئے "کمیشن"بنانے کے چکروں میں مصروف عمل ہیں اور کچھ "لی ڈر" اس چکر میں ہیں کہ کس طرح اسے"عوامی فلاحی اسلامی اور جمہوری "مملکت سے سیاسی پناہ کے نام پر نکلیں اور اپنی فیملی کو بیرون ملک میں ایڈجسٹ کرے تاکہ وہ اور ان کی اولاد یہاں کی آلودہ ماحول سے متاثر بھی نہ ہوں اور جب انہیں"آرڈراور موقع "ملے تو پھر وہاں سے "عوامی خدمت"کا منصوبہ لیکر آجائیںاور " ب حیثیت"لوگوں کی مزید خدمت کرسکیں- کچھ عرصہ قبل صومالی قزاقوں نے کچھ پاکستانیوں کو اغواء کیا تھا اور انہوں نے ڈیمانڈ بھی اربوں میں کی تھی لیکن اس کیلئے پتہ نہیں کہاں کہاں سے لوگ نکل آئے اور سڑکوں پر لوگوں نے پیسے جمع کروا کر ان پاکستانیوں کو رہا کروادیا-کیا اغواء ہونیوالے یہ آٹھ ملازمین "پاکستانی"نہیں یا پھر اس صوبے سے وابستگی کی وجہ سے ان کی اوقات بس اتنی ہی ہے مجھے کسی اور سے تعصب نہیں اللہ تعالی ہر ایک کو اس عذاب سے بچائے لیکن جب اس صوبے سے وابستگی کی بناء پر "ہمارے ساتھ تعصب" برتا جاتاہے تو ہم کیا کریں-

ویسے ایک بات جوہمارے ہاں ہر کوئی کررہا ہے کہ ہمارے " پختون خوار" کے لی ڈروں سے تو کراچی کے "غنڈے"اچھے ہیں جو اپنے شہریوں کیلئے آواز تو اٹھاتے ہیں کیونکہ ان کی " غنڈہ گردی"کرنے والوں کی ہر جگہ بدمعاشی چلتی ہے جبکہ ان کے مقابلے میں ہمارے خیبر پختونخوا جسے آج کل کچھ لوگ پختون خوار بھی کہتے ہیں میں "قومیت" کی بنیاد پرسیاست کرنے والوں کو کچھ نظر ہی نہیں آتاںگذشتہ چار سالوں سے "شہیدوں کی پارٹی"سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کے " جوتے سیدھی"کرنے والے آنیوالے انتخابات میں "ملا "کیساتھ اتحاد کیلئے تیار ہوگئے ہیں حالانکہ ان پانچ سالوں میں ان لوگوں نے"ملا " کے پیچھے کونسا ڈرامہ نہیں کیا لیکن خیر یہ بھی سیاست ہے- افسوس کی بات ہے کہ اب تک " لالٹین والی سرکار "کے کسی لی ڈر نے اناغواء شدہ ملازمین کیلئیغلطی سے بیان بھی نہیں دیا اور نہ ہی کوئی اقدام اٹھایا ہے اگر اس صوبے سے تعلق رکھنے والے "لی ڈر"جن کے خیر سے ملائشیا میں پام آئل کی فیکٹریاں اور دبئی اور ناروے میں ہوٹل ہیں اگر پنے مال سے کچھ "زکواة"ہی نکال دے تو ان آٹھ افراد کی رہائی ممکن ہوسکتی ہے لیکن وائے افسوس ایزی لوڈ -جو حکمران اپنے عوام کو تحفظ تعلیم خوراک سمیت مختلف بنیادی ضروریات فراہم نہیں کرسکتی ایسے میں ان "مفت خوروں"کا اپنے اوپر مسلط کرنے کا مقصد کیا ہے اسمبلیوں میں بیٹھ کر بیان دینے سے کچھ نہیں ہوتا نہ اس دو ٹکے کے عوام کے "ٹیکسوں"پر چلنے والی گاڑیوں میں عیاشیاں کرنے سے کچھ نہیں ہوگا جو لوگ آٹھ افراد کا تحفظ نہیں کرسکتے وہ ملک کے عوام کا کیا تحفظ کرینگے - ان نام نہاد لی ڈروں کو اپنے "ریڈ زونوں"سے باہر نکلنا ہوگا اگر پھر بھی یہ لوگ نہیں نکلتے تو پھر انہیں نکالنا ہوگا جس کیلئے "آوے ہی آوے"کے نعرے لگانے والوں کو کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا کیونکہ ان کے ڈر یہ "صاحبان" میدان عمل میں آئیں گے اور اس "بھوکی ننگی قوم"کیلئے کچھ کریں گے - ورنہ ایسے نام نہاد لی ڈروں کی " دو ٹکے"کے عوام کو ضرورت نہیں-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 422525 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More