پولیس ہماری اور عدالتیں چین کی

چوبیس ستمبر دو ہزار بارہ چین کی، سیاسی ، عدالتی اور سول انتظامیہ (Bureaucracy )کیلئے ایک اہم دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ چین کے جنوب مغربی صوبہ سیچوان کے دارلخلافہ” شینگ د و “ (Chengdu ) کی انٹرمیڈیت پیپلز کورٹ (Intermediate People's Court ) میں عدالتی کارروائی کا آغاز ہوا، ملکی اور بین الاقومی میڈیا سمیت عوام بھی اس کیس میں دلچسپی لے رہی تھی ‘ اس کیس کے متوقع فیصلے نے یہ ثابت کرنا تھا کہ بھنگیوں اور چرسیوں کا ملک دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت کیسے بن گیا ‘اور اس فیصلے نے نوشتہ دیوار بننا تھا کہ عوامی ملازم ( Civil/Public Servant ) جتنے بڑے عہدے پر ہی کیوں نہ فائز ہوں قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتے ۔

سفید شرٹ پہنے، چشمہ لگائے ، جج کے عین سامنے، شونگ چنگ میونسپلٹی کا سابق پولیس سربراہ ‘ باون سالہ وانگ لی جون ( Wang Lijun ) بطور ملزم کر سی پر بیٹھا فرد جرم عائد کئے جانے کا انتظار کرنے لگا‘ سرکاری پروسیکیوٹر نے وانگ کے خلاف فردِ جرم جج کے سامنے پیش کی‘ وانگ پر چار بڑے الزامات عائدکئے گئے ‘ پہلا ، اس نے بطور پولیس چیف اختیارات کا نا جائز اور بے دریغ استعمال کیا‘دوسرا ، ایک برطانوی کاروباری شخصیت نیل ہوڈ(Neil Heywood) کے قتل کے ثبوت اور شواہد مٹانے کی کوشش کی(نیل ہوڈ کے قتل میں بوزی لائی(BoXilai) جو کہ حکمران پارٹی کا اہم رہنما ہے ‘کی بیوی گو کائی لائی (Gu Kailai ) ملوث تھی جسے وانگ نے بچانے کی کوشش کی تھی)‘ تیس لاکھ یوآن سے زائد رشوت اور بااثر شخصیات سے تحائف لینے سمیت چوتھا الزام یہ تھا کہ وہ اپنے عہدے کے بر خلاف سیاستدانوں کے قریب ہو رہا تھا ۔ عدالت نے فرد جرم سنانے کے بعدوانگ سے سوال کیا کہ کیا وہ اپنے دفاع میں کچھ کہنا چاہتا ہے؟‘عدالت کی اجازت سے وانگ اپنی نشست پر کھڑا ہوا‘ کمرہ عدالت میں موجود تمام حاضرین کیلئے تجسس بڑھنے لگا‘ مزید عدالتی کارروائی جاننے سے پہلے آپ ذرا یہیں ٹھرئیے اور اس عدالتی کارروائی کا پاکستان کی کسی بھی عدالت میں ہونے والی کارروائی سے موازنہ کیجئے‘یہاں اگر کوئی سیاستدان یا بائیسویں گریڈکا سرکاری ملازم بطور ملزم پیش ہو‘ جج ملزم سے اپنی صفائی میں کچھ کہنے کی اجازت دے‘ تو ملزم یقینا ان تمام الزامات کو من گھڑت اور اپنے خلاف سازش قرار دے گا‘ ملزم اسے عدلیہ کی مقننہ یا انتظامیہ سے محاظ آرائی سے تشبیہ دے گا‘اس کا وکیل عدالت کو اپیلوں، سماعتوںاور نظر ثانی میں الجھا کر تاریخ پہ تاریخ لینے کی کوشش کرے گا‘ ملک کے تمام سرکاری محکمے اس کو بچانے کیلئے’ ’اِکا“ کر لیں گے‘ اس کے دوست اور مفاد پرست ٹولے اس سے اظہار یکجہتی کیلئے عدالت کوسیاسی جلسہ بنا دیں گے ‘ عدالت کو درمیانی راستہ نکالنے پر مجبور کیا جائے گا‘ لیکن آپ یقین کیجئے چین کی اس عدالت کا منظر ہی کچھ مختلف تھا‘ ملزم کھڑا ہوا ‘ اس کے چہرے پر ندامت کے آثار واضح دیکھے جا سکتے تھے‘ اس نے عدالت میں اپنا دفاع کرنے سے معذرت کر لی‘ جج نے وانگ کو مخاطب کیا ” آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں تو کہہ سکتے ہیں“ وانگ نے نظریں اٹھائیں اور جج سے مخاطب ہوا ” میں تمام الزامات کا اعتراف کرتا ہوں جو مجھ سے سرزد ہوئے ہیں ،میں اپنی باقی زندگی افسوس اور ندامت میں گزارنا پسند کروں گا‘اس نظام کی سر بلندی کیلئے میں ان تمام لوگوں سے معذرت کرتا ہوں جو مجھ سے توقعات وابستہ رکھتے تھے کہ میں بطور پولیس سربراہ اپنے عہدے سے انصاف کروں گا‘ میرے پاس اس سے زیادہ کہنے کو کچھ نہیں کہ مجھے معاف کر دیں ‘ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے اپنے ادارے، عوام اور ملک کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔“ اور یوں سترہ ستمبر کوجس اہم کیس کی سماعت کا آغاز ہوااس کاچوبیس ستمبر کو صرف ایک ہفتے میںمثالی فیصلہ سنا تے ہوئے شونگ چنگ میونسپلٹی کے سابق پولیس سربراہ وانگ کو پندرہ سال قیدکی سزا سنا دی گئی۔ چینی حکومت نے بوزی لائی کوبھی الزامات کی زد میں آنے کے بعد مارچ دو ہزار بارہ میں پارٹی کی سربراہی سے ہٹا د یا تھا‘ اپریل دوہزار بارہ میں بوزی لائی کو حکمران کمیونسٹ پارٹی کی مضبوط فیصلہ ساز اور مشاورتی کونسل کی رکنیت سے بھی ہٹا دیا گیا۔

موجودہ آئی جی پنجاب حبیب الرحمان کو سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ایک کیس میںنو مئی دو ہزار بارہ کو طلب کیا تھا‘ آئی جی پنجاب پیش ہوئے تو عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں انہیں چیف جسٹس کی برہمی اور سخت سرزنش کا سامنا کرنا پڑا‘ اسی روز آئی جی آفس کے ایک انتہائی سینیئر اہلکار نے دوران گفتگو مجھ سے شکوہ کیا ، ” آئی جی پنجاب پونے دو لاکھ پولیس فورس کا کمانڈر ہے‘ وہ بائیسویں گریڈ کا افسر ہے‘ پولیس طاقت اور حکومت کی مضبوطی کی علامت ہے‘ لیکن یہ کہاں کا دستور ہے کہ اتنے سینئر اور طاقتور افسر کی اس طرح بھری عدالت میں سرزنش کی جائے؟‘ ‘اگر ہم نے اس طرح عدالتوں کو اپنی فورس، اختیارات اور طاقت کی عینک سے دیکھنا شرو ع کر دیا تو ہمارے پیر ہاتھی کے اور عدالتیں چیونٹیاں بن جائیں گی۔

جب وانگ نے الزامات کا دفاع کرنے سے انکار کر دیا تو میں ایک لمحے کیلئے سوچنے لگا کہ اس جواب کے بعد کمرہ عدالت میں موجود حاضرین وانگ کوحیرت سے گھورنے لگیں گے‘ وانگ کا وکیل وانگ یونسائی (Wang Yuncai )اسے اپنا بیان واپس لینے پر زور دے گا‘ وانگ کے اہلیخانہ مایوس ہوں گے‘ لیکن دوسرے ہی لمحے مجھے یہ احساس ہوا ”نہیں، یہ قانون کی لاش پر جشن منانے والوں کا پاکستان نہیںبلکہ قانون کے سامنے سر جھکانے والوں کا چین ہے‘ یہ پولیس آئی جیز، چیف سیکریٹر یز، کمشنرز،مسلح افواج، خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان،گورنرز، وزرائے اعلی، مشیران اور چند وزرا کا جنگل نہیں بلکہ چین میں بسنے والے ایک ارب سینتیس کروڑباشندوں کی ریاست ہے اور یہ جناح کی تعلیمات سے انحراف کرنے والوں کا پاکستان نہیں بلکہ ماوزے تنگ کے نقش پا پر چلنے والوں کا چین ہے“ میری حکومت سے ایک درخواست ہے کہ اگرآپ پولیس سمیت دیگر سرکاری محکموں کو ٹھیک نہیں کر سکتے تو نہ کریں لیکن پاکستانی پولیس اورسرکاری ملازمین کے احتساب کیلئے چینی عدالتیں ہی قائم کر دیں، ملک خود بخود آئیڈیل بن جائے گا!
Ameer Abbas
About the Author: Ameer Abbas Read More Articles by Ameer Abbas: 18 Articles with 16315 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.