حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی
ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت عروہ ؒ کہتے ہیں
حضور کے زمانہ میں فتح مکہ کے موقع پر ایک عورت نے چوری نے کی اس عورت کی
قوم والے گھبرا کر حضرت اُسامہ بن زید ؓ کے پاس گئے تاکہ وہ حضور سے اُس
عورت کی سفارش کردیں (اور یوں اُن کی عورت چوری کی سز ا سے بچ جائے ) جب
حضرت اُسامہ ؓ نے اس بارے سے حضور سے بات کی تو آپ کا چہرہ مبارک (غصہ کی
وجہ سے ) بدل گیا اورفرمایا (اے اُسامہ ) تم مجھ سے اللہ کی حدود کے بارے
میں (سفارش ) کی بات کررہے ہو (حضرت اُسامہ ؓ سمجھ گئے کہ سفارش کرکے انہوں
نے غلطی کی ہے اس لیے فوراً ) حضرت اسامہ ؓ نے کہا یارسول اللہ آپ میرے لیے
استغفار فرمائیں شام کو حضور بیان فرمانے کھڑے ہوئے پہلے اللہ کی شان کے
مناسب ثناء بیان کی پھر فرمایا”تم سے پہلے لوگ صرف اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ
جب ان طاقتور اور معزز آدمی چوری کرتا تو اُسے چھوڑ دیتے اور جب کمزور آدمی
چوری کرتا تو اُس پر حد شرعی قائم کرتے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد
ﷺ کی جان ہے اگر محمد ﷺ کی بیٹی فاطمہ ؓ بھی چوری کرے گی تو میں اس کا ہاتھ
ضرور کاٹوں گا “
پھر حضور نے حکم دیا جس پر اس عورت کا کاٹاگیا اور اس نے بہت اچھی توبہ کی
اور اس نے شادی بھی کی حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں اس کے بعد وہ عورت (میرے پاس
) آیا کرتی تھی اور میں اس کی ضرورت کی بات حضور کے سامنے پیش کیاکرتی تھی
۔
قارئین ہمارے معاشرے کی ایک بدقسمتی ہے کہ برطانوی راج کے ختم ہونے کے بعد
بھی ابھی تک خوئے غلامی اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے اثرات کی وجہ سے
پختہ ہونے والی بری عادتیں 65سال گزرنے کے باوجود سدھر نہیں پائی ہیں ہمارا
نظام انصاف اگر غور سے دیکھیں تو انہی بندشوں کا شکار دکھائی دیتاہے کہ جس
کی وجہ سے دنیا کے ایک مشہور مفکر نے کہا تھا ”Justice Delayed,Justice
Denyed“ہمارے یہاں ایسے ایسے واقعات دیکھنے اور سننے میں آئے ہیں کہ فوج
دار ی وسول مقدمات میں ایک نسل گزر گئی لیکن انصاف کی کرسی پر براجمان منصف
انصاف نہ دے سکے اور ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے کہ نظریہ ضرورت کے تحت
پاکستان کے سب سے جینئس اور ذہین ترین سیاسی رہنما ذوالفقار علی بھٹو کو
عدالت نے تختہ دار پر لٹکا دیا بعد ازاں خود ججز نے تسلیم کیا کہ انہیں
مختلف دباﺅ کا شکار بناکر فیصلے کروائے گئے جبکہ ہم جس دین کے ماننے والے
ہیں اُس کا سبق تو یہ ہے کہ جج یا منصف ایک ایسی کرسی پر براجمان ہوتاہے
جہاں اس نے صرف اور صرف عدل کے ساتھ فیصلے کرنے ہوتے ہیں -
قارئین آج کے موضوع کی طرف چلتے ہیں آزادکشمیر کے سابق صدر راجہ ذوالقرنین
خان نے اپنے دور صدارت میں جو سب سے بڑا کارنامہ سرانجام دیا وہ میرپور
یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے قیام کا تھا راجہ ذوالقرنین خان نے
ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے دوڑ دھوپ کرکے قوم کی نسلیں سنوارنے والا یہ ادارہ
منظور کروایا اس حوالے سے ہم نے ایک مرتبہ ایف ایم 93ریڈیو آزادکشمیر کے
مقبول ترین پروگرام ”لائیو ٹاک ود جنید انصاری “میں اس وقت کے ہائر
ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین وسابق وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی
ڈاکٹر عطاءالرحمن کا انٹرویو کیا جس میں ہمارا ساتھ آزادکشمیر کے معتبر
ترین صحافیوں کے صف اول میں شامل راجہ حبیب اللہ خان نے دیا ڈاکٹر
عطاءالرحمن نے اس انتہائی دلچسپ انٹرویو میں انکشاف کیا کہ میرپور
یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی منظوری انہوں نے خود دی تھی اور اس
یونیورسٹی کیلئے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے خطیر فنڈز بھی منظور کیے تھے ڈاکٹر
عطاءالرحمن نے بتایا کہ کشمیری کمیونٹی کے ساتھ اُن کی دلچسپی خصوصی نوعیت
کی ہے اور ان کی یہ خواہش ہے کہ کشمیر ی بچے جو انتہائی ذہین اور باصلاحیت
ہیں وہ پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ لیول تک تعلیم حاصل کرکے ایسے ادارے
قائم کریں جہاں تحقیق کا کام کیاجائے کیونکہ آنے والا دور انہی اقوام ہے جو
ریسرچ کرتے ہوئے ایجادات اور اپلائڈ سائنسز کی طرف آئیں ڈاکٹر عطاءالرحمن
نے اس انٹرویو میں اپنے ہونہار شاگرد اور اس وقت کے وائس چانسلر آزادکشمیر
یونیورسٹی پروفیسر حبیب الرحمن کا ذکر بھی کیا اور ان کیلئے نیک تمناﺅں کا
اظہار کیا ۔
قارئین یہ آج کے کالم کا ابتدائیہ تھا ہماری اطلاعات کے مطابق میرپور
یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر کی تعیناتی کا تنازعہ اس
وقت کھڑا ہوا جب پروفیسر انجینئر نائب حسین چوہدری کو اس وقت کے صدر یعنی
چانسلر میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے بحیثیت وائس چانسلر
تعینات کیا اس سے قبل کا کچھ بیک گراﺅنڈ ہم آپ کو بتاتے چلیں جب کبھی بھی
وائس چانسلر کے انتخاب کا مرحلہ آتاہے تو ”سرچ کمیٹی “تشکیل دی جاتی ہے جو
چانسلر کو درست بندوں کا انتخاب کرنے کے بعد انہیں ایڈوائس دیتی ہے کہ یہ
لوگ وائس چانسلر بننے کے اہل ہیں یونیورسٹی ایکٹ نام کی ایک دستاویز
آزادکشمیر قانون سا زاسمبلی نے منظوری کررکھی ہے جو تمام قواعد وضوابط مرتب
کرتی ہے راجہ ذوالقرنین خان نے اُس وقت اپنے ایک قریبی ساتھی اور قابل
اعتماد ودیانتدار بیورو کریٹ وماہر تعلیم پروفیسر چوہدری امیر افضل کو
بلایا اور ان سے مشاورت کی کہ کیاجائے یہاں ضمنی طور پر ایک اور بات آپ کو
بتاتے چلیں کہ میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پہلے ایک انجینئر
نگ کالج تھا جسے ترقی دے کر انجینئرنگ یونیورسٹی بنایا گیا اور بعد ازاں
دیگر فکلیٹیز کے کچھ ”ذہین “لوگوں صدر راجہ ذوالفرنین خان کو اپنے مخصوص
مقاصد کے تحت بریفنگ دے کر اس کانام میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ
ٹیکنالوجی رکھوا دیا اگر یہ صرف انجینئرنگ یونیورسٹی رہتی تو اس کا وائس
چانسلر صرف انجینئرنگ کی فیلڈ کا ایکسپرٹ ہی رکھا جاسکتاتھا لیکن نام تبدیل
ہونے سے دیگر سائنسز کا بھی کوئی پروفیسر وائس چانسلر بننے کا اہل ہوگیا
پروفیسر امیر افضل کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان انجینئرنگ کونسل کی
گورننگ باڈی کے ممبر ہیں پاکستان کی تمام انجینئر نگ یونیورسٹیز کے وائس
چانسلر اس کونسل کے ممبر ہیں لیکن میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ
ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر کو اس کا ممبر نہ بنایا گیا پروفیسر امیر افضل نے
ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس پر شدید احتجاج کیا کہ پی ای سی میں ہماری
یونیورسٹی کے وی سی کو کیوں ممبر نہیں بنایا گیا اس پر پی ای سی نے وضاحت
دی کہ چونکہ آپ کی یونیورسٹی خالصتاً انجینئرنگ یونیورسٹی نہیں رہی اس لیے
آپ کے وی سی کو ممبر شپ نہیں دی گئی پی ای سی نے یہ بھی کہا کہ اگر میرپور
یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ساٹھ فیصد شعبہ جات انجینئرنگ کے
ہوتے تو ہم تب بھی آپ کے وی سی کو ممبر شپ دے دیتے چوہدری امیرافضل نے اس
موقع پر وسیع تر مفاد میں صدر آزادکشمیر راجہ ذوالقرنین خان کو یہ مشورہ
دیا کہ میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا وی سی وہ شخص ہونا
چاہیے جو انجینئر ہونے کے ساتھ ساتھ پی ایچ ڈی بھی ہو صدر راجہ ذوالقرنین
خان نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور مدحت شہزاد اور پروفیسر امیر افضل کی
ڈیوٹی لگائی کہ وہ اشتہار ڈرافٹ کریں جب یہ دونوں شرطیں اشتہار میں شامل
ہوکر اخبارات میں آئیں تو بہت سے لوگوں کو یہ ناپسند آئیں یہاں پر ہم یہ
بتاتے چلیں کہ یونیورسٹی رولز جو ایکٹ کے مطابق اسمبلی سے منظور شدہ ہیں ان
میں ہر گز یہ شرط نہیں ہے کہ وی سی پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر ہو بلکہ رولز میں
یہاں تک تحریر ہے کہ یونیورسٹی کا پہلا وائس چانسلر اس وقت کا صدر یعنی
چانسلر اپنی صوابدید پر منتخب کرسکتاہے یہاں پر ہم Parityکومد نظر رکھتے
ہوئے پاکستان کی چار یونیورسٹیوں کا ذکر کرتے چلیں NEDیونیورسٹی کراچی کے
وائس چانسلر پروفیسر ابولکلام آزاد ،خضدار یونیورسٹی کے وائس چانسلر
بریگیڈئیر مختار احمد ،پشاور انجینئرنگ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سید
امتیاز حسین گیلانی اور انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر جنرل
اکرم پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈرز نہیں ہیں ۔
قارئین جب انجینئر نائب حسین کو صدر راجہ زوالقرنین خان نے وائس چانسلر
تعینات کیا تو یہ ان کا وہ آئینی قانونی ،صوابدیدی اختیار تھا جو قانون ساز
اسمبلی سے منظور کردہ یونیورسٹی ایکٹ نے انہیں دیاتھا اور اس میں پی ایچ ڈی
کی شرط شامل نہیں ہے میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہی کے ایک
پروفیسر ریاض مغل اس موقع پر ہائی کورٹ میں چلے گئے اورانہوںنے رٹ دائر کی
کہ اشتہار کے مطابق وائس چانسلر کا پی ایچ ڈی ہونا ضروری ہے اس پر گزشتہ
روز ہائی کورٹ کے بنچ جو چیف جسٹس مصطفےٰ مغل اور جسٹس آفتاب علوی نے فیصلہ
دیا کہ نائب حسین چوہدری کی تقرری غیر قانونی ہے ۔
قارئین یہ وہ چند حقائق ہیں جو ہم نے بغیر کسی نمک مرچ کے سادہ اور سلیس
انداز میں آپ کے سامنے رکھ دیئے ہیں یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ انجینئر
نائب حسین کو وائس چانسلر کی حیثیت سے موجودہ صدر اور وزیر اعظم کے علاوہ
سیاسی جماعتیں بھی ناپسند کرتی تھیں کیونکہ یونیورسٹی میں ملازمین کی بھرتی
کے موقع پر انہوں نے کسی کی ایک بھی نہ سنی اور میرٹ کے مطابق بھرتیاں کیں
جس کی وجہ سے متعدد طاقتور طبقے اُن سے شدید ناراض تھے ۔میرپور یونیورسٹی
آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا بجٹ 702ملین روپے سالانہ ہے اور اس ادارے میں
ساڑھے تین ہزار طلبہ وطالبات تقریباً 21شعبہ جات میں تعلیم حاصل کررہے ہیں
اور بیچلرز سے لیکر پی ایچ ڈی تک کی تعلیم کا اجراءکیاگیاہے ہم ہائی کورٹ
کے فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی ایڈوائس دیتے ہیں بغیر
کسی لگی لپٹی کے ہم نے تمام معاملہ غیر جانبدارانہ انداز میں آپ کے سامنے
رکھاہے ہمیں امید ہے کہ قانون ہر گز موم کی ناک بھی نہیں ہے اور معزز
عدالتیں اور عدالتوں میں انصاف کی کرسی پر تشریف رکھنے والے جج صاحبان
انسان ہونے کی حیثیت سے غلطی تو کرسکتے ہیں لیکن جان بوجھ کر ہرگز انصاف کا
خون نہیں کرسکتے سپریم کورٹ کا دروازہ انجینئر نائب حسین کھٹکھٹانے کا حق
رکھتے ہیں اور آنے والا وقت بتائے گا کہ کیا وہ وی سی رہنے کا حق رکھتے ہیں
یا نہیں ہم صرف یہ کہیں گے کہ تعلیم کے معاملے میں ہمیں بہت محتاط ہونے کی
ضرورت ہے تاکہ قوم کا مستقبل محفوظ رہ سکے ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
سردار جی کا دوست جیل میں انہیں ملنے آیا اور پوچھنے لگا یار تم سے ایسی
کیا غلطی ہوگئی کہ آج تم جیل میں ہو ۔
سردار نے سرکھجاتے ہوئے جواب دیا
”او بس یار میں نے بنک تو لوٹ لیاتھا غلطی سے پیسے گننے وہیں بیٹھ گیا “
قارئین ہمیں امید ہے کہ وقت سے بڑا منصف کوئی نہیں اگر ذوالفقار علی بھٹو
شہید کے تختہ دار پر لے جائے جانے کا فیصلہ بعد میں غلط ثابت ہوتاہے تو
دیگر کئی چیزوں کی تصحیح بھی وقت کی آواز ہوسکتی ہے ۔ |