مردان حق پر تہمت از علامہ محب
النبی قادری اکبری کوہاٹ
قارئین محترم آج کی اس مجلس علمی میں آپ کو چند ایک ایسے واقعات پیش کروں
گا کہ حق پرستوں پر کس طرح الزام تراشی وتہمتیں لگتی رہیں ہیں۔کیوں نہ آپ
کو ایک سبق آموز واقعہ بیان کیا جائے ایک مشہور واقعہ ہے کہ حضرت بایذید
بسطامی کی ملاقات کے لئے ایک درویش نے دور دراز سے سفر کیا۔ راستے میں جس
شخص سے با یذید بسطامی کے متعلق پوچھتا وہ تعریف کرتا،سوچنے لگا کہ سفر بے
کار گیا جب علاقہ کے قریب پہنچے تو کوئی کہتا وہ دجال ِ زمانہ ہے(العیاذ
باللہ)کوئی کہتا مکا رآدمی ہے (نعوذ باللہ) تب اس بزرگ نے کہا اللہ کا
شکرہے کہ سفر بے کار نہیں گیابلکہ کارآمد اور فائدہ مند رہا ہے کہ حق گو
آدمی کے بدگو زیادہ ہوتے ہیں چونکہ پہلے ہر کوئی تعریف کر رہا تھا اس لئے
میں نے اندازہ لگایا کہ یہ حق گو نہیں ہوسکتالیکن جن تنقیص و توہین سنی تو
مطمئن ہوا کہ جیسا مقبول اپنے شہر میںسناتھا اتنے ہی مقبول بارگاہ ہیں۔اس
واقعہ کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کچھ لوگ ہوس وزر پرستی کی وجہ سے اپنے
سینے میں بغض وحسد کی آگ جلا لیتے ہیںاور حق کی راہ چلنے والوں کو
تنقیدوتنقیص کا نشانہ بنانا ان کا مشغلہ بن جاتا ہے۔ جس سے اپنے ایمان سے
ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں(العیاذ باللہ)ایک حدیث مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم عن ومن بلا تبصرہ پیش خدمت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں:پنگھوڑے میں صرف تین بچوں
نے کلام کیا۔ایک حضرت عیسیٰ بن مریم رضی اللہ عنہ نے،دوسرا جریج(نامی عبادت
گزارکے معاملے)سے متعلق بچے نے،جریج ایک عبادت گزار شخص تھا۔ اس نے ایک
عبادت گاہ بنائی ہوئی تھی جس میں وہ رہتا تھا۔ایک دن اس کی والدہ اس کے پاس
آئی ۔وہ اس وقت نماز پڑھ رہا تھا،والدہ بولی ،اے جریج!اس نے سوچا،اے میرے
پروردگار!ایک طرف میری ماں ہے اور دوسری طرف نماز۔(میں کیا کروں؟)پھراس نے
نماز جاری رکھی۔اس کی والدہ چلی گئی۔اگلے دن والدہ پھر اس کے پاس آئی۔وہ اس
وقت بھی نماز پڑھ رہا تھا ۔والدہ نے آواز دی ،اے جریج !اس نے سوچااے اے
میرے پروردگار!ایک طرف میری ماںہے اور دوسری طرف میری نماز( میںکیا
کروں؟)لیکن اس نے نماز جاری رکھی۔اس کی والدہ نے دعا کی ،اے اللہ !تواسے اس
وقت تک موت نہ دینا جب تک یہ فاحشہ عورتوں کا سامنا نہ کرلے۔بنی اسرائیل
آپس میں جریج اور اس کی عبادت کا ذکرکرتے رہتے تھے۔ایک بدکردار حسین وجمیل
عورت نے(بنی اسرائیل سے) کہا،اگر تم چاہو تو میں تھمارے لئے اسے فتنے کا
شکار کرسکتی ہوں۔پھر وہ عورت جریج کے پاس آئی لیکن جریج نے اس کی طرف توجہ
نہ کی۔پھر وہ عورت اس چرواہے کے پاس آئی جوجریج کی عبادت گاہ میں قیام پذیر
تھا۔اس عورت نے چرواہے کو موقع دیا۔اس نے اس عورت کے ساتھ ناجائز تعلق قائم
کیا۔وہ عورت حاملہ ہوگئی۔جب اس نے بچے کو جنم دیا تویہ الزام لگایا کہ یہ
جریج کا بچہ ہے لوگ جریج کے پاس آئے اسے اس کی عبادت گاہ سے نکالا اور اس
کی عبادت گاہ کو منہدم کرنے کے بعداسے مارنا پیٹنا شروع کردیا۔جریج نے
پوچھا تمھارا مسئلہ کیا ہے؟انہوں نے جواب دیا :تم نے اس بدکردار عورت کے
ساتھ زناکیا تھا اور اس نے تمہارے بچے کو جنم دیا ہے جریج نے دریافت کیا
بچہ کہاں ہے؟وہ لوگ بچے کو لیکر آگئے جریج نے کہا ذرا ٹھہرو!مجھے نماز
پڑھنے دو۔اس نے نماز اداکی اور نماز سے فارغ ہونے کے بعدبچے کے پاس آیا
اوراس کے پیٹ میں انگلی چبھوکردریافت کیا، اے لڑکے تمہارا باپ کون ہے؟ بچے
نے جواب دیا ،فلاں چرواہا،لوگوں نے آگے بڑھ کرجریج کو بوسہ دینا اور
چھوناشروع کردیا۔وہ بولے۔ہم آپ کے لئے ایک سونے سے بنی ہوئی عبادت گاہ
تعمیر کرتے ہیں۔جریج نے جواب دیا :نہیں تم مٹی سے دوبارہ عمارت بنا دو جیسے
وہ پہلے تھی تو لوگوںنے ایسا ہی کیا۔(تیسرے بچے کا واقعہ یہ ہے)ایک دن وہ
بچہ اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا ۔اس عورت کے پاس سے ایک شخص عمدہ لباس میں
عمدہ سواری پر سوار گزرا۔اس بچے کی ماںن دعا کی،اے اللہ!میرے اس بیٹے کو اس
شخص کی مانند کردے۔ اس بچے نے پستان کو چھوڑااور اس شخص کی طرف دیکھا،کچھ
دیر دیکھتا رہااور پھر بولا،اے اللہ !مجھے اس کی مانند نہ کرنا۔پھر اس بچے
نے پستان کی طرف منہ کیااور دودھ پینا شروع کردیا۔ راوی کہتے ہیں مجے اچھی
طرح یاد ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی شہادت کیانگلی کو
منہ میں ڈال کراسے چوستے ہوئیبچے کے دودھ پینے کا واقعہ بیان کیا تھا۔پھر
ان کے پاس سے کچھ لوگ لڑکی کو مارتے ہوئے گزرے وہ یہ کہہ رہے تھے کہ تم نے
زنا کیا ہے،تم نے چوری کی ہے اور وہ لڑکی یہ کہہ رہی تھی حسبی اللہ ونعم
الوکیل ( میرے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے)اس بچے کی ماں
نے دعا کی،اے اللہ !میرے بیٹے کو اس لڑکی کی مانند نہ بنانا۔اس بچے نے دودھ
پینا چھوڑ کراس لڑکی کی طرف دیکھا اور دعا کی ،اے اللہ مجھے اس کی مانند
بنا۔یہاںان دونوںکی بحث شروع ہوگئی ماں بولی پہلے ایک خوشحال شخص گزراتو
میںنے یہ دعا کی، اے اللہ! میرے بیٹے کو اس جیسا بنا اور تم نے یہ دعا کی
اے اللہ ! مجھے اس جیسا نہ بنانا۔پھر یہ لوگ اس لڑکی کے ساتھ گزرے ہیں۔یہ
اسے مارپیٹ رہے ہیںاور یہ کہہ رہے ہیں کہ تم نے زنا کیا ہے اور چوری کی ہے
تو میں نے یہ دعا کی،اے اللہ!میرے بیٹے کو اس لڑکی جیسا نہ بنانا تو تم نے
یہ دعا کی،اے اللہ! مجھے اس لڑکی جیسا بنا دے تو اس بچے نے جواب دیا وہ شخص
ایک ظالم آدمی تھا اس لیے میں نے یہ عدا کی تھی کہ اے اللہ! مجھے اس جیسا
نہ بنانا اور وہ لڑکی جسے یہ لوگ یہ کہہ رہے ہیںکہ تم نے زنا کیا ہے اس نے
زنا نہیںکیا ہے لوگ کہہ رہے ہیں ،تم نے چوری کی ہے اس نے چوری نہیں کی ہے
اس لیے دعا کی اے اللہ! مجھے اس جیسا بنادے( مسلم شریف حدیث نمبر6384جلد
سوئم مترجم ناشر شبیر برادرز لاہور)
حضرت امام ابوحنیفہ کا ایک واقعہ جب ایک عورت نے آپ پر زناکی تہمت لگائی ۔
الصواعق المحرقہ میں شیخ الاسلام احمد بن حجر مکی تحریر کرتے ہیں کہ بعض
علمائے حنفیہ نے مجھے بیان فرمایاکہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا امام اعظم
ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کے حاسدین نے منصوبہ مرتب کیا کہ آپ کی عزت وعظمت
اور شہرت کو داغدار کریں!چنانچہ ان لوگوں نے منصوبہ بندی کے تحت ایک عورت
کو آمادہ کیا !وہ آپ کو رات کے وقت اپنے گھر بلائے اور پھر شور مچادے کہ
انہوں نے میری عزت سے کھیلنے کا ارادہ کیا ہے۔چنانچہ جب آپ تہجد کے وقت
جامع مسجد تشریف لے جارہے تھے وہ عورت سامنے آ موجود ہوئی اور کہنے لگی
میرا خاوند بیمار ہے !اور وہ چاہتا ہے کہ آپ انہیں کوئی وصیت فرمائیے ،مجھے
خطرہ ہے کہ وہ وصیت سے قبل مرہی نہ جائے !براہ کرم میرے ساتھ چلیں چنانچہ
میں اس کے ساتھ ہولیا ،جب مکان میں داخل ہوا تو اس نے دروازہ بند کرلیا اور
چلانے لگی!حاسدین جو اسی انتظار میں تھے پہنچ گئے حضرت امام ابو حنیفہ اور
اس عورت کو گرفتار کرکے خلیفہ کے پاس لے گئے خلیفہ نے حکم دیا کہ صبح تک
دونوں کو قید خانہ میں رکھا جائے ۔حضرت امام اعظم نے ساری رات نوافل پڑھنے
میں گزار دی،اسی بنا پر عورت ندامت محسوس کرنے لگی حاسدین نے جو باتیں اسے
سکھائی تھیں تمام حضرت امام ابو حنیفہ سے صاف صاف کہہ دیں ۔آپ نے کہا توجیل
کے محافظ سے کہ مجھے حاجت درپیش ہے ۔اجازت دو،ابھی لوٹ کر واپس آجاؤںگی!اور
تم میری زوجہ ام حماد کے ہاں جاؤ اور انہیں حقیقت حال سے آگاہ کرو!وہ اِسی
وقت میرے پاس چلی آئے اور تو وہیںسے اپنے گھر کا راستہ لے!اس نے حسب الحکم
عمل کیا اور آپ کی زوجہ محترمہ ،آپ کے ہاں جیل آگئیں جب سورج طلوع ہوا تو
خلیفہ نے امام صاحب اور عورت کو طلب کیا!پھر آپ سے مخاطب ہوا ، کیا اجنبیہ
کے ساتھ خلوت جائز ہے؟آپ نے فرمایا فلاں شخص کو بلائیے۔وہ شخص آپکے خسر تھے
ضب آئے تو انہوں نے اپنی زوجہ کا چہرہ کھول دیا اور دریافت کیا بتائیے یہ
عورت کون ہے؟انہوں نے اپنی بیٹی کو پہچان لیا کہنے لگے یہ میری بیٹی ہے!میں
نے اس کا امام صاحب سے نکاح کردیا تھا پس اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کی عزت
محفوظ فرمائی اور عظمت ورفعت کوبڑھایا!حاسدین خائب وخاسر ہوئے۔(دعا ہے اللہ
تعالیٰ حاسدین ومنافقین کو جو مشائخ عظام وعلمائے حق کو رسوا کرنے کرانے کی
خاطر اس طرح کی ابلیسی حرکتیں کرتے ہیں اور عورتوں کو بھاری دولت اس کے
بدلے دیتے ہیں اور دینے کا وعدہ کرتے ہیں ان ناپاک لوگوںکو ذلیل ورسوا کرے
آمین بجاہ نبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)حضرت ابو زرعہ رضی اللہ عنہ
بیان کرتے ہیں کہ ایک دن راستے میں مجھے ایک عورت ملی جو کہنے لگی کیا
تمہیں اجر وثواب کے حصول کی رغبت ہے ؟ تو ایک بیمار کی عیادت کرتے جاؤ میں
نے کہا ہاں بولی میرے گھر چلیں جب اندر داخل ہوا تو اس نے دروازہ بند
کردیا،تب مجھے اس کی مکاری سمجھ آئی ۔میںنے کہا اللہ تعالیٰ اس کا منہ
کالاکرے چنانچہ وہ فوراً سیاہ ہوگیا وہ حیران رہ گئی اور مارے خوف کے
دروازے کھول دیئے جب میں بحفاظت نکل آیا تو میں نے دعا کی الٰہی !اس کا
چہرہ جیسے تھا ویسے ہی کردے ۔اسی لمحہ وہ پہلی شکل میں منتقل ہوگئی- |