چراغ حیات (حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ)

زندگی کی کلی ہر لمہ خورشید محشر تلے سلگتی ہیے اس کے قباںے تبسم کو صرف آنسووں کا ابر گہر بار بچا سکتا ہے یا پھر خون کا ابر نسیاں.زندگی کی امنگیں کبھی آتش نمرود میں آتش زیر پا ھوتی ہیں تو کبھی باغ ارم میں گمراہ ہوتی ہیں.زندگی کا خیابان کبھی طُوبٰی کی مہکتی ہوںی کلیاں تو کبھی طعام زقوم کی شکم پروری,زندگی کے دشت میں کبھی طوفان نوح تو کبھی طوفان عاد,اسکےچمن میں کبھی نخل طور تو کبھی نغمہ داؤد,اسکے آنگن میں کبھی عصائے کلیمی تو کبھی دم عِیسٰی,اس کی آغوش میں کبھی تخت سلیمان تو کبھی سد سکندری,اس کے تلاطم میں کبھی چاہ بابل تو کبھی چشمہ خضر,اس کی لوح الفت پر کبھی صبر ایوب تو کبھی خوان خلیل,یہ کبھی عطیہ ایزدی تو کبھی نواںے غم آلود,اس کے دامن میں کبھی تبسم ہائے پہنائی تو کبھی ذوق عریانی,اس کے وجود بے ثبات پہ کبھی غازہ بندی تو کبھی کفن پوشی,ہہ کبھی دود چراغ محفل تو کبھی بزم لطافت کی پرورہ بشاشت,اس کا عنقا کبھی آگہی دام شنیدن سے دور تو کبھی صید تہ دامن,ہہ کبھی پردہ سخن تو کبھی شورش محشر.انسان کی ضعفت کبھی طلسم مجاز کو نہیں توڑ سکتی تو کبھی ہہی خاک زادہ سینہ کائنات کے راز فاش فاش کر دیتا ہے.زندگی کی کتاب کا دیباچہ کبھی انسان اپنے خون سے لکھتا ہے اور کبھی دوسروں کے آنسووں سے.انسان اس آماج گاہ میں کبھی آںینوں سے جذبہ صداقت سیکھتا ,کبھی دشت سے درس غیرت سیکھتا ہے,کبھی فلک سے خوداری سیکھتا ہے,کبھی گھاس سے جوش نمو سیکھتا ہے,کبھی صحراؤں سے وسعت سیکھتا ہے,کبھی آسمان در آسمان اصرار کی گرھیں کھولتا ہے,وہ کبھی شبنم کا قطرہ بن کر پھولوں کو وضو کراتا ہے اور کبھی چراغ طور بن کر شبستان کو روشن کرتا ہے.کبھی وہ سورج کی کرن بن کر سیپ کے دل میں اترتا ہےاور کبھی خوشبو بن کر ہوا کو زندگی بخشتا ہے.کبھی چشم تر بن کر کشت ویراں کا بانجھ پن دور کرتا ہے اورکبھی جنبش لب بن کر طاق نسیاں میں پڑی امنگوں کو زبان دیتا ہے-

انسانی سطوت کے مقفل دریچے تب کھلتے ہیں حب حسین (رضی اللہ تعالٰی عنہ)کا لمس ان کےرخسار پر دستک دیتا ہے.انسان تیرگی سے تجلی میں تب غوطہ زن ہوتا ہے جب حسینیت کے چشمہ آفتاب سے اپنے آپ کو منور کرتا ہے.انسانی گلشن پہ نگہت تب آتی ہے جب جمال حسین (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کا عکس اسکی ہر کلی میں نظر آتا ہے.انسانی شبستان ظلمت کی صبح تب ہوتی ہے جب انوار حسین (رضی اللہ تعالٰی عنہ) سے درخشاں ہوتی ہے.انسان بینائے کواکب تب بنتا ہے جب سرمہ حسینی سے اپنی آنکھوں کے چراغ روشن کرتا ہے.غلامی کے سلاسل تب ٹوٹتے ہیں جب جذبہ حسین (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کا طوق زیب تن کیا جائے.تقدیر کےآسمان پہ تارےتب جگمگاتے ہیں جب مہتاب حسین ان کے پہلو میں ہو.زندگی کے غنچے تب کھلتے ھیں جب ابر حسین سےاپنے دامن کو بھگوتے ہیں.خواہشات کی دلہن سنہری قبا تب پہنتی جب آیینہ حسین میں اپنا عکس دیکھتی ہے.رفعت انسان تب قد افلاک کو چھوتی ہے جب پیمانہ حسین سے اپنے آپ کو ناپتی ہے.شجر انسانی پر مسرت پیہم کی کوئل تب نغمہ سنج ہوتی ہے جب بہار حسین کی فضائیں اس کے آنگن کو معطر کرتی ہیں-

انسانی قد افلاک کی رفعتوں کی انتہا حسین پر ہے .حسین عظمت کے دریچوں کی پروردہ کرن ہے.حسین کی ہر ادا خیابان آدم میں نگہتیں بانٹتی ہے.حسین پیاسا ہے تو ایسا پیاسا ہےکہ خود تو پیاسا مگر اس کی پیاس کے صدقے کروڑں لوگوں کی پیاس بجھتی ہے اس کے لب تو خشک ہیں مگر انسانیت کے خشک کدوں کو بحر حیات سے ہمکنارکرتے ہیں .حسین کی زبان تو خشک ہے مگر ساقی کوثر کے لعاب دہن سے تروتازہ ہے.حسین کا سر تو نیزے پہ ہے مگر راکب دوش تاجدار عالم ہے.ظلمت کربلا میں وہ ظُلْمَت سَرا میں ہے مگر انوار عالم کا مخیر بھی وہی ہے.کربلا کی پر خار زمین میں حسین خیمہ زن ہے مگر جنت کا پھول بھی حسین ہے.کربلا کی خون آلود فضا میں حسین کو نماز کا وقت دینے کیلے بھی ملعون عالم زدہ تیار نہیں تھے لیکن یہ بس حسین کی عظمت ہے جس کیلے میرے آقا نے سجدے طویل کر دیے تھے.حسین کربلا کی آغوش میں ویسے تو تنہا ہے لیکن کائنات کے ماتھے کا جھومر حسین ہے.حسین کی زندگی کی ہر ادا نرالی اور دلفریب ہے وہ جام شہادت نوش کر کے انسانسیت کو بام زندگی کا درس دے گیا .حسین کی شہادت بھی حسین کی طرح حسین تر ہے اس کی شہادت کے قصے بچپن سے ہی مشہور تھے لیکن حسین کی عظمت پہ سب کچھ نثار کہ اس نے سب سچ کر دکھایا اگر کسی کو کوئی پامسٹ کہہ دے کہ تمہاری موت پانی میں ڈوب کر مرنے سے ہو گی تو وہ انسان پوری زندگی پانی کے قریب بھی نہیں گزرے گا حالانکہ پامسٹ کی بات جھوٹی بھی ہو سکتی ہے لیکن حسین کو تو میرے آقا نے فرمایا تھا جس کی صداقت میں ذرا بھی شک نہیں ہو سکتا لیکن قربان جالیں حسین کے جذبے پر جب کربلا کا میدان آیا تو فرمایا بس یہیں خیمے لگا دو یہی وہ جگہ ہے.حسین کی زندگی سے لے گر شہادت تک کا سفر انسانیت کیلیے منزل ہے-

کربلا کی فضائے حیات صحیفہ انسانی کے ان اوراق کی ورق گردانی کرتی ہے جن میں زنگی کے وہ آداب درج ہیں جو انسان کو کائنات کا روح رواں بناتے ہیں.کربلا کی اڑتی ہوئی گرد انسان کو ایسے گنجینہ حیات سے روشناس کرواتی ہے جو متاع دو عالم ہے.کربلا کی آغوش میں رفعت حیات کا طفل پروان چڑتا ہے.کربلا کےافق پر مہتاب نور کی کرنیں سینہ افلاک کو روشن کرتی ہیں .حسین کی موت زندگی کا پیرہن ہے وہ ایسی ہستی ہے جس نے موت کے نور سے زندگی کی شمعیں روشن کی ہیں . گلشن حسین کی ہر کلی جمال عالم کیلے زینت ہے.حسین کا پیغام شکیب آج بھی فضاؤں میں گونجتا ہے ,حسین کی ذوق خود افروزی کی شمع آج بھی باطن انسان کو منور کرتی کرتی ہے,حسین کا یہ درس ہے کہ ہمیشہ حق کا ساتھ دو چاھے دارورسن کی کیفت سے گزرنا پڑے, چاھے صلیب وقت پر تختہ مشق بننا پڑے,چاھے سوئے مقتل جانا پڑے.سر کٹا کر باطل کا سر نگوں کرنا حسینت کا درس ہے ,سر بلندی کیلے سر کٹانا راہ حق کے مسافروں کا دستور رہا ہے.راہ حق پر مرنے سے وہ زندگی حاصل ہوتی ہے جسے وقت کے سلاسل جکڑ نہیں سکتے حسین نے گویا یہ بتایا جنت کی سرداری آسان نہیں کوئی کربلا کے میدان سے گزر کر تو دکھائے.غظمتوں کا ہر راستہ کربلا سے گزر کر جاتا ہے.کربلا کی خاک اطہر سے آج بھی یہ صدا آتی ہے کہ موت کا کفن کبھی زندگی کو مقید نہیں کر سکتا.
rabnawaz
About the Author: rabnawaz Read More Articles by rabnawaz: 12 Articles with 12224 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.