تعلیم نسواں

دین اسلام اور آئین کی تمام ضمانتوں اور ہدایتوں کے باوجود بعض علاقوں میں رسم و رواج کی کڑی پابندیوں اور علاقائی اور قبائلی روایات کے باعث تعلیمی ترقی کے عمل میں خواتین کی شرکت کہیں کہیں ناممکن ہو جاتی ہے۔ تعلیمی ترقی کے عمل میں خواتین کی شرکت کی کیفیت درج ذیل پہلوﺅں کے تجزیے سے واضح ہو جاتی ہے۔ دس ایشیائی ملکوں میں پاکستان کی شرح خواندگی دسویں نمبر پر ہے(یعنی سب سے کم)، ملک بھرمیں سکول جانے کی عمر کے 25.2فیصد بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ ان میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے۔اس صدی کے آخر تک پاکستان میں 10سے 18 سال عمر کے ناخواندہ بچوں کی تعداد دو کروڑ تک پہنچ جائے گی ان میں کثرت لڑکیوں کی ہوگی۔1997ءمیں عورتوں کی شرح خواندگی صر ف 27فیصد تھی۔تعلیم کے شعبے میں صنفی مساوات نہ ہونے کی وجہ سے عورتوں اور مردوں کی شرح خواندگی میں فرق بڑھ رہا ہے لڑکیوں کے تعلیمی ادارے ملکی اداروں کی کل تعداد کے مقابلے میں 30فیصد سے بھی کم ہیں۔پاکستان میں تعلیمی اداروں کا صنفی لحاظ سے موزانہ (1997ئ) یہ ہے کہ پرائمری سکول لڑکوں کےلئے 04272 1اور لڑکیوں کے لئے صرف 46691 سکول ہیں۔ان اعدادو شمار سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں حصول تعلیم کے عمل میں عورتوں کی شمولیت بہت کم ہے۔ ان کے لئے سائنسی اور اعلیٰ پیشہ ورانہ تعلیم کے ادارے بہت ہی کم ہیں۔کسی بھی معاشرے میں فرد کی صلاحیت جانچنے کا معیار تعلیم ہوتی ہے۔ تعلیم رسمی ہو یا غیر رسمی، فرد کو ترقی کے عمل میں شریک کرنے کے لئے تیار کرتی ہے۔ عورت سے پورے معاشرے کی تقدیر بدلنے کی توقع کی جاتی ہے اس لیے اس کی اپنی ذات کا ایک انسان کی حیثیت سے پنپنا اور پھلنا پھولنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔پاکستان میں عوتوں کی تعلیمی شعبے میں کم حاضری کی وجہ سکولوں کے بہت دور فاصلے پر ہونے کی وجہ سے خواتین کا وہاں سے اخراج، سکولوں میں فزیکل سہولتوں کے فقدان، پڑھائی کا کم معیار، اساتذہ کی کمی اور اساتذہ کی طویل عرصے تک غیر حاضری ہے۔ جس کی وجہ سے سکولوں میں لڑکیوں کی دلچسپی کم ہو جاتی ہے۔ایک اور وجہ یہ ہے کہ ثانوی سطح کے سکولوں کے مقابلے میں پرائمری سطح کے سکولوں کی طرف کم توجہ دی جاتی ہے جس نے نسوانی خواندگی پر منفی اثرات مرتب کیے جاتے ہیں جیسا کہ ثانوی سطح کے سکولوں میں دیہی لڑکیوں کی حاضری صرف تین فی صد ہوتی ہے اور اعلیٰ ثانوی سطح کی تعلیم تک صرف ایک فیصد ہوتی ہے۔خواتین کی اس تاریک حالت کے باوجود گزشتہ دو عشروں کے تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں نے قابل قدر ترقی کی ہے اور اس خلا کو پر کر رہی ہیں جو خالی رہ گیا تھا۔ اب خواتین مختلف شعبوں میں خاطر خواہ ترقی کر رہی ہیں اور انہوں نے مختلف شعبوں میں بہترکارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔تعلیمی میدان میں مردوں کی تعداد کے مقابلے میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔پرائمری سکولوں میں مردوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔مزید یہ کہ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں آج صورت حال یہ ہے کہ کالجوں و یونی ورسٹیوں کی سطح تک لڑکیوں کی تعداد میں روزبروز اضاضہ ہو رہا ہے اور گزشتہ بیس سالوں میں بچوں کی اموات میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے یہ صورت حال حوصلہ افزا ہے کہ معاشرے میں اب خواتین کی تعلیم اور ان کی ملازمت کو تحسین کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور خواندگی نسواں سے چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 56 Articles with 89902 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.