پاکستان کا تعلیمی نظام

موجودہ دور میں پاکستان کا تعلیمی نظام بد سے بد تر ہوتا چلا جا رہا ہے ، کوئی بھی انسان اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ قوموں کی ترقی کا دارومدار انکی تعلیمی میدان میں ترقی کرنے سے وابستہ ہے ۔

قائد اعظم بھی تعلیم کی اہمیت سے واقف تھے اسی لئے ان کی ہدایت پر پاکستان کے قیام کے بعد ۱۹۴۷ ء میں ایجوکیشن کانفرنس منعقد کی، ۱۹۴۷ء سے اب تک کئی ایجوکیشن کمیشن بنے مگر ملک کہ اچھا نظامِ تعلیم نہ دیا جا سکا ، اب ملک میں کئی تعلیمی نظام رائج ہیں ، لیکن ابھی تک یہ طے نہیں کیا جا سکا کہ قوم کہ کس میڈیم میں تعلیم دینی ہے ؟ یہ بات بڑی اہم ہے کہ ۶۴ برس گزر جانے کے بعد بھی یہ کام کیوں نہیں ہو سکا ؟

سرکاری تعلیمی ادارے جو غریب عوام کے بچوں کی تعلیمی درسگاہ ہے وہ بھی اب تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے کہیں اسکول کی عمارتیں ہیں تو استاد نہیں اور کہیں استاد ہیں تو اسکول کی عمارتوں کا نام و نشان نہیں ، دیہاتوں کے اسکولوں کا تو یہ حال ہے کہ جس جگہ بچے پڑھ رہے ہوتے ہیں اسی جگہ پر جانور تک بندھے ہوتے ہیں ، ان سب حالات کے بعد بھی حکومت کے پاس تعلیم پر خرچ کرنے کے لئے کوئی قابلِ ذکر فنڈ نہیں ! جو لوگ پرائیوٹ اسکولز کی فیس دینے کی اسطاعت رکھتے ہیں وہ تو وہاں چلے جاتے ہیں مگر جو غریب لوگ ہیں ان کے بچے کون سے اسکول میں جائیں ؟ کچھ نجی اسکولوں کی فیس ۵ سے ۱۰ ہزار روپے ماہانہ ہے ، کیا کوئی غریب انسان اپنے بچوں کو وہاں پڑھانے کا سوچ سکتا ہے ؟ غریبو ں کے لئے سرکاری اسکولوں میں پڑھائی نہیں اور پرائیویٹ اسکولوں میں رسائی نہیں؟

آ خر میں گزارش ہے کہ ملک میں یکساں تعلیمی نظام رائج کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں، اس طرح ہر طبقے کے لئے تعلیم حاصل کرنا آ سان ہو سکے گا ۔ کیونکہ جب تک تعلیمی نظام اچھا نہیں ہو گا تب تک ہمارا پیارا وطن ترقی نہیں کر سکتا۔

رابعہ خالد
(جامعہ کراچی)
Saraa Khan
About the Author: Saraa Khan Read More Articles by Saraa Khan: 2 Articles with 1832 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.