آہ !! ایک اورموتی ضائع
ہوگیا۔ایک اور ہیرا زمین میں دفن کردیا گیا۔۔کاش !اس ظلم سے پہلے زمین پھٹ
جاتی آسمان گر جاتا۔ اللہ رب العزت کا ارشاد گرامی ہے۔من عاد لی ولیاََ فقد
اٰذنتہ بالحرب۔جس نے میرے ولی سے دشمنی کی میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔
اللہ کے ولی علماءہیں،اللہ کے ولی طلباءہیں،اللہ ولی یہ اہلِ مدارس
ہیں،اللہ کے ولی یہ متہجد لوگ ہیں جو رات کے اندھیروں میں امت کے لئے معافی
طلب کرتے ہیں۔جن کی ہچکیاں رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئی رب العزت کے دربار
میں پہنچتی ہیں۔اللہ کے ولی مولانا حبیب اللہ مختار تھے،اللہ کے ولی مولانا
یوسف لدھیانوی تھے،اللہ کے ولی مولانا شامزئی تھے،اللہ کے ولی مفتی جمیل
تھے،اللہ کے ولی مولانا عنایت اللہ تھے،اللہ کے ولی مولانا اعظم طارق
تھے،اللہ کے ولی مفتی عتیق الرحمٰن تھے،اللہ کے ولی مولانا اسلم شیخوپوری
تھے۔اور اللہ کے ولی آج کے شہید مولانا محمد اسمٰعیل صاحب ؒتھے۔
قاتلوں! نہ مدرسے والے نہ طالبان اور نہ ہی مسلمان ،تم سے تو ڈائریکٹ اللہ
تعالٰی اعلان جنگ کر رہا ہے۔تیار رہو ظالمو! تم دنیا میں ہمارے دلوں پر
پہاڑ توڑو ہمارے صبر کو آزماﺅ تم سے اللہ خود اعلانِ جنگ کر رہا ہے اب
تمہیں کون بچا سکتا ہے اللہ کی پکڑ سے۔لاعاصم الیوم من امر اللہ الا من رحم۔
ہم کتنا صبر اور کریں ؟اے نام نہاد سیکیورٹی اداروں!اے مسلمانوں کے ظالم
نگہبانوں!! دیکھو ہم سے ہمارے نبی کا ورثہ چھینا جا رہا ہے۔ہمارے حوصلے مت
آزماﺅ۔ہمارے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہونے لگا ہے خدارا جاگ جاﺅ اپنے آقاﺅں
کی غلامی اب چھوڑ دو مسلمانوں کی قیمتی جانوں کو تحفظ فراہم کردو۔ہمارے دل
چھلنی ہو گئے ہیں کبھی علماءتو کبھی طلبائ۔کبھی مدرسہ تو کبھی مسجد۔جب
چاہتے ہیں اور جس پر چاہتے ہیں ٹوٹ پڑتے ہیں۔ان مدارس و اہل مدارس کی کسی
سے کیا دشمنی؟ یہ اولیاءاللہ تو گالی سن کر بھی دعا دیتے ہیں،پتھر کھا کر
بھی دعا دیتے ہیں۔یہ اصل میں کسی ایک انسان کو شہید نہیں کیا جاتا بلکہ علم
کا ایک خزانہ دفن کردیا جاتا ہے۔تعلیم و تعلم کی ایک پوری مشین کو ضائع
کردیا جاتا ہے۔قرآن وحدیث کے ایک مکمل
سب جانتے ہیں یہ کون کر رہا ہے اور اس دہشت گردی کہ پیچھے کس کا ہاتھ
ہے۔حیرت کی بات ہے یہ بات کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ ۹ اور 10محرم کو پورے
کراچی میں ایک بھی ٹارگٹ کلنگ نہیں ہوئی۔کیونکہ ٹارگٹ کلر کسی اور اہم کام
میں مصروف تھے۔
ہم مزید صبر نہیں کر سکتے،مزید قربانی نہیں دے سکتے،اب حکومت کو علماءکے
ساتھ مشاورت کر کے کوئی لائحہ عمل طے کرنا پڑےگا ورنہ اگر ایک بار یہ
علماءیہ طلباءاٹھ گئے تو تم سب کی چھٹی ہو جائے گی۔
ان علماءکو مت مجبور کرو کہ یہ اپنے ان طلباءکو آزاد چھوڑ دیں جو اپنے
ہاتھوں سے اپنے پیاروں کو دفنا کر آئے ہیں جن کے دل اس وقت غم و غصہ سے
لبریز ہیں۔جن کو صرف ان کے مشائخ نے کنٹرول کر رکھا ہے اور مسلسل صبر و
تحمل کا سبق دے رہے ہیں۔جن کے ہاتھوں میں ان کے اساتذہ نے قلم تھمائے ہوئے
ہیں۔
یاد رکھو اگر ان کو مزید آزمایا گیا تو عین ممکن ہے یہ قلم چھوڑ کر اپنے
دفاع کے لئے تلواریں تھام لیں۔پھر کوئی مائی کا لعل بھی اس طوفان کو نہیں
روک سکے گا۔ان کی برداشت ختم ہونے کو ہے اور جس دن ختم ہو گئی اس دن اس ملک
میں اسلامی انقلاب آجائے گا ان شاءاللہ۔
اے مہتممینِ مدارس!ہم طلباءآپ سے بھی گزارش کرتے ہیں کے لِلہ اب متحد ہو
جائیں اور باقاعدہ کوئی پالیسی کوئی پلاننگ اور کوئی لائحہ عمل طے کریں سب
مل کر۔گورنمنٹ سے مزید توقع رکھنا اب اپنے ہاتھوں سے اپنے پاﺅں پر کلہاڑی
مارنے کے مترادف ہے۔اب اپنے اساتذہ،اپنے مدرسے اور اپنے طلباءکا دفاع خود
کرنا ہوگا۔
اس کے لئے ایک چھوٹی سی کوشش یہ بھی کی جا سکتی ہے کہ تمام مدارس متحد
ومتفق ہو کر اپنی ایک فورس بنائیں جو گورنمنٹ سے منظور شدہ ہو۔اسکو تمام
سہولیات دی جائیں اور مدارس کی حفاظت کی ذمہ داری ان کو دی جائے۔اگر انکو
گورنمنٹ سہولیات نہ دے تو تمام مدارس ایک بیت المال بنائیں اور اسمیں کچھ
مخصوص مقرر کردہ رقم ہر مہینے جمع کروائیں اس سے اس فورس کے اخراجات پورے
کئے جائیں۔علمائِ کرام کو مدرسہ کے آس پاس قریب ترین گھر دیئے جائیں۔مدرسے
کے آس پاس کے آنے جانے والے تمام راستوں پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے
جائیں جن سے مسلسل تمام راستوں کی نگرانی رہے۔گورنمنٹ سے باقاعدہ طور پر
مدارس کی حفاظت کے لئے مسلمان پولیس طلب کی جائے۔(قادیانی،×××× وغیرہ کا
تصور بھی نہ ہو)۔
جب کہیں ایسا کوئی واقعہ ہو سب مل کر اور متحد ہو کر مقدمہ لڑیں اور حکومت
اور سیکیورٹی اداروں کو مجبور کریں کہ قاتلوں کو پکڑ کر قرار واقعی سزا دی
جائے۔میڈیا پر سب سے پہلے نشر کریں اور میڈیا پر بیان دینے کے لئے کوئی ایک
ٹیم بنائی جائے۔ان کو مکمل معلومات فراہم کر کے میڈیا پر مکمل اور تفصیلی
بیان دلوایا جائے۔تمام مدارس اور مہتممین اپنا سرپرست مقرر کریں اور ان کی
ہدایات پر سختی سے عمل کریں اور کروائیں۔
للہ آپ لوگ ہی کچھ کریں اور ہمارے زخموں پر مرہم رکھیں۔کیونکہ آپ جانتے ہیں۔
مَوتُ العالِم مَو تُ العالَم
آخر میں بس اتنی گزارش ہے حضرت مولانا اسمٰعیل شہید ؓ کے روحانی بیٹوں سے
کہ ’شہداءکا خون رنگ لائے گا میرے بھائیوں!تمہارے ساتھی تمہارے استاد
تمہارے رب کے پاس سفارش کرنے پہنچے ہیں اس ملک میں اس شہر میں اس مدینة
العلم میں امن و امان کی ہوائیں چلانے کی۔تم نے ان کو کھویا نہیں ہے بلکہ
بویا ہے ان شا ءاللہ امن کا محبت کا اسلام کا سورج لے کر وہ پھول دوبارہ
کھلیں گے اور گلشن میں لہرائیں گے۔ہمیں اور آپ کو نئی راہیں اور نئے راستے
دکھا کر گئے ہیں بس ہمارے سمجھنے کی دیر ہے صبحِ روشن ہماری منتظر ہے۔
زور و زر زیر ہونے کو ہے ایک دن
بام و در ڈھیر ہونے کو ہے ایک دن
مٹنے والے ہیں وہ جو مٹانے پہ ہیں
ہم کو معلوم ہے ہم نشانے پہ ہیں |