شہر قائد میں تین دن

یہاں عجیب صورتحال ہے ڈر،خوف کی فضا اور لوگ سہمے ہوئے ہیں ہر بندہ بے یقینی کا شکار دکھائی دیتا ہے روشنیوں کے شہر کی روشنیاں مدھم پڑ چکی ہیں ،سٹریٹ کرائم بڑھتے جا رہے ہیں،انسان جسے اشرف المخلوقات کے اعلٰی عہدے پر فائز کیا گیا تھا آج حیوانوں سے بھی بدتر نظر آ رہا ہے اور انسانوں پر ہی ظلم و ستم ڈھاتا نظر آتا ہے،انسانی جانوں کا زیاں معمول بن چکا ہے،انسانوں کا خون سر بازار بہتا دکھائی دے رہا ہے،اک سراسیمگی سی پھیلی ہوئی ہے انسانیت دم توڑتی جا رہی ہے،تڑپتے لاشے بکھرے پڑے ہیں،ظلم کی داستانیں جابجا بکھری ہوئی ہیں،انتظامیہ مکمل طور پر بے بس نظر آتی ہے،زخمیوں کی کراہیں،آہ و بکا اور مظلوموں کی یہ صدا سنائی دے رہی ہے
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
سارے شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

میرے لئے عروس البلاد کراچی کی مشہور سوغات ضرور لانا ،یہ بات میرے دوست نے مجھے سی۔آف کرتے وقت کہی تھی،میرے دوست شہر قائد بدل چکا ہے،وہاں ظلم کا راج ہوتا ہے،مظلوموں کی کراہیں ہوتی ہیں،سسکیاں اور آہ و بکا ہوتی ہیں،وہ قہقہے اور رونقیں ختم ہو چکی ہیں،وہ دوستوں کی محفلیں اجڑ چکی ہیں،وہاں کے باسیوں کے لبوں پر رقص کرنے والی مسکراہٹ دم توڑ چکی ہے وہاں کی سوغاتیں بھی تبدیل ہو چکی ہیں،میرے دوست !میں روشنیوں کے شہر سے تمہارے لئے کچھ نہیں لا سکوں گا کیونکہ وہاں کی مشہور دو چیزیں ہیں،ایک بندوق کی گولی اور دوسری وہ بوری جس میں انسان کو مار کر بند کر کے کسی ویرانے میں پھینک دیا جاتا ہے ۔

قائد کے شہر میں پولیس سر عام بکتی دکھائی دیتی ہے،قانون کی دھجیاں دن دیہاڑے اڑتی نظر آتی ہیں ،بھتہ خور سر بازار بھتہ لیتے ہیںاور کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا،وحشت اور دہشت کا سماں ہے،ٹارگٹ کلر شہر میں دندناتے پھرتے ہیں ،مختلف اقوام کی مختلف علاقوں میں اجارہ داری قائم ہے جہاں ان کے دفاتر نفرتوں کے شمشان گھاٹ کا کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں،مختلف ایریاز میں مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی طرف سے کی جانے وال چاکنگ مزید انتشار کا باعث بنتی ہے،دشمن مختلف جماعتوں کی صفوں میں گھس چکا ہے جو ان جماعتوں کی آڑ میں کبھی لسانی فسادات کرواتا ہے تو کبھی فرقہ بازی کے ذریعے لوگوں میں نفرت بانٹی جاتی ہے۔

شہر قائد کومیرے پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے ،ملک دشمن عناصر یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو ،اس لئے وہ پاکستان کی معاشی شہ رگ پر آئے روزفسادات کرواتا رہتا ہے اور معصوموں کے خون سے ہولی کھیلتا رہتا ہے وہ پاکستان کے معاشی حب کو کمزور کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے انشاءاللہ دشمن کا یہ خواب کبھی شرمندہ ءتعبیر نہیں ہوگا۔
اب تو یہ خیال ایک خواب سا لگتا ہے کہ کیاعروس البلاد کراچی کی روشنیاں دوبارہ جل سکیں گی؟کیایہاں پھر سے امن و امان کی فضا قائم ہو سکے گی؟کیا یہاں کی رونقیں بحال ہو پائیں گی اور قہقہوں کی گونج پھر سے سنائی دے پائے گی؟کیا یہاں سے دہشت کی فضا اور وحشت کے سماں کو ختم کیا جا سکے گا؟ان سب سوالات کا جواب ہاں میں ہو سکتا ہے اگر ایم کیو ایم کے اس بل کو مکمل طور پر لاگو کر دیا جائے جس میں ان کا مطالبہ تھا کہ ملک کو اسلحہ سے پاک کر دیا جائے،میری بھی ناقص رائے یہی ہے کہ شہر قائد سے ممنوعہ و غیر ممنوعہ اسلحہ ختم کر دیا جائے ،اس کے لئے سبھی سیاسی جماعتوں کو پہل کرنی ہو گی ایک مناسب حکمت عملی اپنا کر عروس البلاد کو اسلحے سے پاک کرنا ہوگااگر اس پر عمل در آمد نہ کیا گیا،اگر شہر میں ظلم و ستم کو بند نہیںکیا گیا تو میں دیکھ رہا ہوں سمندر کی ان لہروں کو ،جو مسلسل وارننگ کے طور پر ہمیں بتا رہی ہیں کہ سنبھل جاﺅ،سنبھل جاﺅ،اگر ہم نہیں سنبھلے تو کوئی بعید نہیںکہ بپھرتے سمندر کی لہریں ہوں گی جو شہر کے ظالموں کو بہا کے لے جائیں گی اور ساتھ مظلوم بھی ان لہروں کی زد میں آ جائیں گے اس لئے اب بھی وقت ہے
کہیں ایسا نہ ہو کہ درد بنے دردِ لا دوا
کہیں ایسا نہ ہو تم بھی مداوا نہ کر سکو۔۔۔
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 187312 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.