زندگی نعمت ہے۔ ہر نعمت قدرت کی
طرف سے مفت ملتی ہے مگر پاکستان جیسے پس ماندہ اور بے حس معاشروں میں اُن
لوگوں کو زندہ رہنے کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے جو زندگی کی دوڑ
میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ کہیں کہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جسم و جاں کا ربط
برقرار رکھنا ہی زندگی کا سب سے بڑا ”مشن“ ہے! رنچھوڑ لائن میں فاطمہ بی بی
پاکستان کے قیام سے بھی پہلے سے کلیجی روٹی فروخت کرکے اپنا اور اہل خانہ
کا پیٹ بھرتی آئی ہیں۔ 75 سالہ فاطمہ بی بی جہاں تھیں وہیں ہیں، اُن کی
زندگی میں ایسی کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی جسے دیکھ کر کہا جاسکے کہ
برطانوی راج کے خاتمے اور آزادی کے وارد ہونے سے اُنہیں کوئی فیض پہنچا ہے۔
زندگی اور حالات میں کوئی واضح تبدیلی رونما نہ ہونے کی بنیاد پر کہا
جاسکتا ہے کہ فاطمہ بی بی کا مقدر بھی وہی ہے جو پاکستان کا ہے!
|
|
اہم اہل پاکستان بڑے دل کے ہیں۔ فیاضی کی مثال دینی ہو تو شاید پاکستانیوں
کی کوئی مثال نہ ملے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ فیاضی اور بے حسی ساتھ ساتھ چل
رہی ہیں۔ جس معاشرے میں لوگ اپنی محنت کی آمدنی کشادہ دلی اور خندہ پیشانی
سے دوسروں پر خرچ کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے اُسی معاشرے میں
بہتوں کو زندگی کا سفر جاری رکھنے کے لیے روزانہ جسم کے ساتھ ساتھ دل و جاں
پر بھی بوجھ بننے والی مشقت سے دوچار ہونا پڑتا ہے! کیا یہ ہمارے معاشرے کا
حقیقی المیہ نہیں کہ فاطمہ بی بی جیسے لوگ زندگی بھر محنت کرنے کے بعد بھی
اِس بات کے حقدار قرار نہیں پاتے کہ زندگی کا آخری دور راحت اور سُکون سے
گزار سکیں۔ نوعمری میں شادی کے بعد فاطمہ بی بی نے شوہر کی بے روزگاری
دیکھتے ہوئے گھر چلانے کی خاطر کلیجی روٹی بیچنا شروع کیا۔ جوانی اور ادھیڑ
عمر تو اِس کام میں گئی ہی تھی، بڑھاپا بھی اِس یومیہ مشقت کی نذر ہوگیا!
جس کلیجی روٹی نے اب تک فاطمہ بی بی کے ہاتھوں فروخت ہوکر ان گنت لوگوں کے
پیٹ کی آگ بجھائی ہے وہی کلیجی روٹی خود فاطمہ بی بی کی زندگی کو کھا گئی
ہے! ایسے لوگوں کے حالات ہمیں اور کچھ دیں نہ دیں، یہ سوچنے کی تحریک ضرور
دیتے ہیں کہ کیا زندگی صرف اِس قدر مشقت کا نام ہے کہ آتی جاتی سانس میں
ربط برقرار رہے؟ کیا فاطمہ بی بی نے نوعمری میں ایک خوش حال اور پُرسُکون
زندگی کا خواب نہیں دیکھا ہوگا؟ کیا اُن کی خواہش نہ رہی ہوگی کہ عمر کی
شام ڈھلے تو ایک طرف بیٹھ کر وجود کو سمیٹیں، اپنی حسین یادوں ترتیب دیں
اور زندگی کے آخری دس بارہ سال پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کے ساتھ ہنستے
گاتے بسر کریں؟ یقیناً یہی سب کچھ اُن کی خواہشات کا حصہ رہا ہوگا مگر ہوا
کیا؟ اور فاطمہ بی بی کو ملا کیا؟ صبح کو شام کرنے فکر اور گھر کا چولھا
جلتا رکھنے کی کوشش؟ فاطمہ بی بی کا بیٹا شادی کے بعد الگ ہوچکا ہے۔ بڑے
شہر میں جینا بڑی بات ہے مگر اب ایسی بڑی بات بھی نہیں کہ اِتنی بھاری قیمت
چکائی جائے! زندگی بہت بڑی ۔۔۔ یا کتنی ہی بڑی نعمت سہی، اُس کے برقرار
رکھنے پر خود زندگی ہی کو داؤ پر لگاتے رہنے پر مجبور ہونا کوئی فخر کی بات
نہیں!
ہمیں اپنے معاشرے میں قدم قدم پر ایسی بہت سی خواتین ملیں گی جو فاطمہ بی
بی کی طرح زندگی بھر زندگی کا قرض چکاتی رہتی ہیں اور اللہ کے کرم کا معجزہ
یہ ہے کہ مرتے دم تک صبر کے ساتھ شکر کی دولت سے بھی ہمکنار رہتی ہیں! اُن
کی زندگی میں بہت کچھ نہیں ہوتا مگر پھر محنت، صبر اور شکر کی بدولت اور
بہت کچھ مل کر رہتا ہے! یہ بھی اللہ کا کرم ہے کہ جنہیں زندگی کی بنیادی
اور اُس سے کہیں بلند درجے کی بہت سی سہولتیں میسر نہیں ہوتیں وہ صبر اور
شکر کا دامن نہیں چھوڑتے اور جنہیں قدم قدم پر آسائشیں گلے لگاتی ہیں وہ
صرف رونے پیٹنے اور شکوہ کرتے رہنے کو اپنی نفسیاتی ساخت کے گلے میں تختی
کی طرح ٹانگے رہتے ہیں! فاطمہ بی بی اور اُن جیسے دوسرے بہت سے پاکستانی
ہمارے لیے روشن مثال ہیں کہ زندگی بھر دکھ جھیل کر بھی محنت سے جی نہیں
چراتے اور کسی کے آگے حالات کا رونا روتے رہنے پر کام کرکے حلال کی کمائی
سے پیٹ بھرنے کو ترجیح دیتے ہیں! |