قسطوں سے زندگی عذاب بنائیے

پوری دنیا میں نہ کہیں ایسے صارف مو جود ہیں نا ایسے مصرف،ایسے تاجر ہیں نہ ہی ایسے آجر،نہ ایسے بے مثال و لاجواب خریدار کہیں مو جود ہیں نہ بیو پاری،نا ایسی پراڈکٹ کہیں دستیاب ہیں نہ ، ایسی پراڈکٹ بنانے والی فیکٹریاں،نہ دھڑا دھڑ بے مصرف اور غیر ضروری اشیاءخریدتے اس ڈر سے خریدنے والے ہیں کہ پتہ نہیں کل ملے نہ ملے،نہ ہی اتنا کہیں کسی کاروبار میں منافع جتنا اپنے ہاں،کوئی سی بھی چیز مارکیٹ میں لے آئیں میڈیا کے ذریعے تھوڑی سی تشہیر کرا دیں پھر دیکھیں کہ آپ کا مال کیسے ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے کوالٹی کی فکر ہے نہ مال کے معیاری و غیر معیاری ہونے سے اس قوم کو کوئی فرق ہی پڑتا ہے،کوئی سی بھی چیز کہیں سے بھی مارکیٹ میں آجائے ہاتھوں ہتھ بکتی ہے اور عموماً لینے کے بعد اس کی کوالٹی چیک کی جاتی ہے گھر لے جانے کے بعد اور اپنے ہاں کا وطیرہ ہے کہ یار لوگوں نے دکان کے اندر اور کچھ نمایاں کیا ہو نہ ہو خریدی ہوئی چیز واپس یا تبدیل نہیں ہو گی یہ تختی نمایاں جگہ پر لگا رکھی ہو تی ہے ادھر آپ کوئی چیز خرید کر دکان سے باہر نکلے ادھر تو کون میں کون،اور چند لمحے قبل کی وہ مروت بھی بھول جاتے ہیں جو گندی سی پیالی میں گاہک کو پیسے لینے سے قبل دو گھونٹ چائے پلا چکے ہوتے ہیں ،پیسے دینے کے بعد آپ لاکھ کہیں کہ جناب میں نے پے منٹ کی ہے پوری تو مال بھی ایک نمبر چاہیے جواب ملتا ہے جناب ہم نے گھر تو بنایا نہیں اب جیسا ہے اور جیسابھی ہے مجبوری ہے،حالانکہ اللہ کے آخری رسولﷺ نے فرمایا کہ کوئی بھی چیز بیچنے سے پہلے اس کے نقائص خریدار کو بتا دو اور اگر خریدنے کے بعد اس کو پسند نہ آئے تو نہ صرف واپس لے لو بلکہ جو بھی تاجر ایسا کرے گا اس کے لیے اللہ کے ہاں اجر وثواب ہے،مگر اپنے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے مگر کافروں کے ہاں ایسا نہیں وہ ہیں کافر، مگر خریدو فروخت کے تمام معاملات اسلام کے مطابق ہیں،میرے ایک کزن نے چند سال قبل کنیڈا سے ایک اچھے معیار کی جیکٹ لی،،وہاں چونکہ سردی تھی اور انہوں نے جرسی کے اوپر ہی پہن کے چیک کی اور پے منٹ کر دی اور پاکستان آگئے یہاں آکر جب غور سے چیک کیا تو پتہ چلا کہ جیکٹ تو کھلی ہے،انھوں نے بل نکال کے کنیڈا اس سٹور پہ فون کیا کہ جیکٹ تبدیل کرنی ہے کوئی حل بتایئے کہ آپ کو بھیجیں یا ایک اچھی خاصی رقم ضائع سمجھیں تو اس انٹر نیشنل چین رکھنے والے اسٹور کے منیجر نے پو چھا کہ آپ پاکستان کے کس علاقے میں ہیں اور آپ کو نزدیک شہر کون سا پڑتا ہے لاہور کراچی میں سے جواب دیا کہ لاہور ،تو جواب ملا کہ جناب پھر کوئی مسئلہ نہیں آپ لاہور ہماری برانچ پہ جائیں اور بل دکھا کے ان سے اپنا کوٹ تبدیل کر لیں جو آپ کو پسند آئے اور جب یہ صاحب وہاں پہنچے تو بلا حیل وحجت صرف دو منٹ کے اندر اندر اپنی پسند کی جیکٹ سلیکٹ کر لی گئی ،کیا ایسا ممکن ہے اگر یہی چیز ہم نے اپنے ملک سے لی ہوتی اور کچھ عرصے بعد پتہ چلتا کہ یہ تو گڑ بڑ ہے تو کیا دوکاندار واقف بنتا،اور اب اپنے ہاں ایک اور نہایت برا اور گندا رجحان زور پکڑتا جا رہا ہے کہ دوسروں کو دیکھ دیکھ کے نجانے کیوں لوگ عجیب سے کمپلیکس کا شکار ہو کر ایک نئے مافیا کا شکار ہو رہے ہیں،جی اس مافیا کا نام سود یا قسط ما فیا ہے،اس مافیا کے لو گ سادہ لوہ لو گوں کو لبھا کے اور قرض کی نہایت آسان اور خوشنما شکل دکھاکے اپنی پراڈکٹ خریدنے پر آمادہ کرتے ہیں اور غربت اور تنگ دستی سے ستائے لوگ جو تعیش کی اشیاءعام طور پر خریدنے کی سکت نہیں رکھتے مگر دوسروں کو دیکھ دیکھ کے اندر ہی اندر کڑھتے رہتے ہیں بڑی آسانی سے اس مافیا کا شکار ہو جاتے ہیں،اور ایک دفعہ جو ان کے چنگل میں پھنس جاتا ہے عموماً مرحوم ہونے کے بعد ہی نکل پاتا ہے یہ جو چیز عام مارکیٹ میں پچاس ہزار کی ملتی ہے فقط پہلی قسط بغیر ایڈوانس مہیا کرنے کا جھانسا دے کر اسی ہزار میں ڈیل کر کے ایگریمنٹ پر سائن کروا لیتے ہیں اس ڈیل کی شرائط اتنی سخت اور گھناﺅنی ہو تی ہیں کہ اگر ساری تفصیلات ایک ایک کر کے گاہک کو سمجھائی جائیں تو شائد کوئی ایک بھی بندہ ان سے ڈیل نہ کرے مگر یہ تمام تفصیلات سودا طے ہو جانے کے بعد سامنے آتی ہیںاور جب تک سمجھ آتی ہے اس وقت تک چڑیاں کھیت کو چگ کے اڑ چکی ہوتی ہیں نتیجاًپھندا صارف کے گلے میں فٹ ہو چکا ہوتا ہے اور اسے چالیس ہزار کا فریج ستر ہزار میں گھر لے جانا پڑتا ہے،یہ مافیا اتنا سنگدل اور ظالم ہے کہ پچیس فیصد رقم ایڈوانس وصول کر لیتا ہے مگر سود بقایا رقم کی بجائے پراڈکٹ کی پوری قیمت کا لیتا ہے حالانکہ ہونا تو چاہیے کہ جتنی رقم ادا کر دی گئی اس کی بجائے بقایا رقم پر سود وصول کیا جائے اگر کرنا ہی ہے تو ،مگر انتہائی د ھڑلے اور دیدہ دلیری سے پورے ملک میں ظلم و جبر کا سودی کھیل دن کی روشنی میں جاری و ساری ہے مگر مجال ہے کوئی اس کی طرف دیکھنے کی بھی جراءت کرے،کوئی انتظامیہ کوئی عدلیہ کوئی ریاست کوئی صحافت ان کو نہیں پوچھتی او ر پھر قسطوں کی وصولی ایک الگ ظلم کی پوری داستان ہوتی ہے ان لوگوں نے اول تو کنٹریکٹ ہی اتنا سخت اور شکنجہ اتنا کڑا کسا ہوتا ہے کہ صارف کی گردن کے گرد کہ وہ کھانا کھائے یا نہ کھائے بچوں کو سکول بھیجے نہ بھیجے والدین دوائی کے بغیر مرتے ہیں تو مر جائیں اسے ہر حالت میں یکم سے پانچ تک قسط پہنچانی ہے ورنہ ایک فون کال کے بعد وہ دو دکاندار جو گارنٹی دیتے ہیں قسط سنٹر کا ہر کارہ ان کے پاس پنچ جاتا ہے جب وہاں سے کام نہ چلے تو لیئے گئے چیک پر جو اکثر خریدار سے بلینک لیے جاتے ہیں پر مرضی کی رقم بھر کے سیدھا بنک اور غریب آدمی جو اکاﺅنٹ کھلواتا ہی ان کے کہنے پہ ہے فقط چیک بک کے لیے تا کہ چیک قسظ سنٹر والوں کو دے سکے اس کے اکاوئنٹ میں خاک کچھ ہونا ہے بنک ڈس آنر کی مہر لگا دیتا ہے اور پھر سیدھا تھانے ،اور 489 F تو بنی ہی اسی نیک مقصد کے لیے ہے اس کے علاوہ ان لوگوں نے جن میں اب بنک بھی شامل ہو چکے ہیں باقاعدہ غنڈوں اور بدمعاشوں کو معاوضہ دے کر معاملات طے کر رکھے ہوتے ہیں اور کچھ نے تو اپنے بھی پال رکھے ہو تے ہیں جن کا واحد مقصد ان غریبوں کو ڈرانا دھمکانا اور بے عزت کرنا ہے وہ کسی بھی غریب شخص کے گھر دنددناتے ہوئے چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے گھس جاتے ہیں اور بیوی بچوں کے سامنے گھر کے سربراہ کی تذلیل بہو بیٹیوں پر غلیظ نظریں اور گالم گلوچ کے ذریعے اپنے صارف کی خدمت جاری رکھتے ہیں اور بعض اوقات آدھی سے زیادہ پیڈ شد ہ پراڈکٹ اٹھا کے اپنی کھلے ڈالے والی بھدی سی سوزوکی وین میں بھی ڈال لیتے ہیں،نہ کوئی پوچھنے والا ہے ان کو نہ کوئی قانون ہی ان کے خلاف حرکت میں آتا ہے،یہ ایسا روگ ہے جس سے مرنے کے بعد بھی جان نہیں چھوٹتی لینے والا اگر اس دنیا میں نہ رہے تو وہ دو دکاندار جو گارنٹر ہوتے ہیں بال بچوں کی جان کو آ جاتے ہیںاور ہر صورت میں قرض بمعہ سود وصول کر تے ہیں،لیکن اس سب ظلم و بر بریت میں سارا قصور ان کا بھی نہیں ،اس میں کچھ قصور ان کا بھی ہے جو اپنی چادر دیکھے بنا پاﺅں پھیلا لیتے ہیں اور اسلام کے قناعت پسندی کے سنہرے اصول کو بھول جاتے ہیں ،کوئی لاکھ روشن خیال ہو جائے اور کتنا ہی ماڈرن کیو ں نہ ہو جائے نجات صرف اور صرف اسلامی اصولوں،طریقوں اور تعلیمات پہ عمل پیرا ہو کے ہی ممکن ہے،اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو،،،،،،،،