سچ کا آتش فشاں

پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے سے پہلے برصغیر میں ایک گروپ جو اسلام کو ہمیشہ اپنا جاگیر سمجھتا ہے اور اپنے نظریات بزور طاقت دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش بھی کرتا رہا ہے نے پاکستان کے قیام کی شدید مخلفت کی۔ چونکہ پاکستان نے بننا ہی تھا سو بن کر ہی رہ گیا۔ اس کے بعد اس گروپ نے جو ابتداءمیں انتہائی خلاف تھے جب یہ دیکھا کہ ہماری دال تو نہیں گلی اب یہ ملک وجود میں آچکا ہے یہ سوچ کر اِنہوں نے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کر کے خود کو اس ملک کے وفاداروں کی صف میں شامل ہونے کی کوشش کی اور ان کی یہ نئی حکمت عملی بہت تیزی کے ساتھ کارگر ثابت ہوئی۔ان کی پاکستان محبت بنلد بالا جلسوں،ریلیوں،تقاریروں اورجذباتی اداکاری کے سامنے ہر کوئی رام ہوگیا کہ واقعی یہ لوگ وطن عزیز کے لیے مخلص ہیں پھر سیلاب کی پانی کی طرح پورے ملک میں یہ لوگ پھیل گئے اور ملک کے ہر ادارے میں ان کے نظریات کے حامل لوگ کچھا کھچ بھر گئے۔اس کے ساتھ مذہبی انتہا پسندی اور جنونیت کو کھلی چھوٹ دی گئی ۔اس گروپ نے پہلے پہل قائد آعظم کو کافر آعظم کا خطاب دیا پھر بھی دال نہ گلی تو انہوں نے منافقت سے کام لیتے ہوئے یہ کہا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہٰ الااللہ کہتے ہوئے یہ فارمولہ استعمال کیا کہ قائد آعظم نے یہ ملک اسلام کے نام پر بنایا ہے اور یہاں پر اسلام کی بالادستی قائم ہونی چاہئے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی طاقت بڑھتی گئی اور ملک میں فرقہ وارانہ رنگ بھی خوب چڑھ گیا ساتھ لسانی اور تعصب کی ڈینگی وائرس کا ملک شکار ہونے لگا۔اہل درد جو ملک و ملت سے ہمدردی رکھتے تھے اُن کی ایک نہ سنی گئی ایسے میں ضیاءالحق کا دور شروع ہوا یوں بندوق کی نال میں یہ گروپ جنت کی تلاش کرنے میں مصروف ہوا۔ ضیا ءالحق کے دور اقتدار میں یہ گروپ برہمن کی شکل اختیار کرنے لگا ،کلاشنکوف کلچر عروج پر پہنچا اور لاکھوں افغانی پاکستان میں وارد ہوئے اور نسل در نسل پوست کے کاشت کی عادی افغانیوں نے نہ صرف پاکستان میں منشیات کی لعنت کو عام کیا بلکہ قلم اور کتاب کلچر کو ملامیٹ کرکے کلاشنکوف کلچر کو متعارف کرایااورہ سارا زہر جو ان کی جہالت کی سرش میں شامل تھا کا انجکشن ملک میںمفت میں باٹنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان میں لاکھوں معصوم انسانوں کو ہیروئن و دیگر منشیات کا عادی بنادیا اور جب یہ عادی ہوئے تو ان تباہ حال افراد کو اپنے عزائم کے لیے خوب استعمال بھی کیا۔اس گھناونے دھندے نے معاشرے کو اس حد تک متاثر کرکے رکھ دیا کہ کلاشنکوف کا استعمال اتنا عام ہوا کہ جیسے بچے کھیلنے کے لیے غلیل استعمال کرتے ہیں۔ملک کے کونے کونے میں ان پناہ گزینوں نے وہ اثر دکھایا جس کا خمیازہ ابھی پوری قوم بھگت رہی ہے۔چونکہ ہم اسلام کے پکے ٹھیکے دار ہیں اور اسلام کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں، اس غیر سنجیدہ جزباتی حرکتوں کی وجہ سے ہم پوری دنیا میں بدنام ہورہے ہیں بلکہ بد نام ہوچکے ہیں۔بات در اصل یہ ہے کہ جب ہمیں ملکی سلامتی کے لیے جب کبھی اٹل فیصلے کی ضرورت در پیش آئی تو ہم روابط کا اورذہنی ہم آہنگی کا شکار ہوتے ہوئے وہ فیصلے نہیں کر پائے جو ہمیں ملکی سلامتی کے لیے کرنا چاہئے تھا۔آج جس چوراہے پر ہم کھڑے ہیں اس کی تفصیل میں جائیں تو ایک زخیم کتاب کی ضرورت ہوگی۔ہماری بڑوں کی چھچھورہ پن دیکھیں ایٹم بم بنانے کے بعد اس کا نام ہم نے رکھا”اسلامی ایٹم بم“ رکھااور یہ نام دیکھتے ہی دیکھتے اہل دنیا کے لیے خطرہ کی گھنٹی ثابت ہوا۔ حالانکہ امریکہ 1930ءمیں ہی ایٹمی صلاحیت حاصل کرکے ایٹم بم تیار کیا تھا لیکن اُس نے پوری دنیا کو اس حوالے سے بے خبر رکھا جب تک اُس نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر1945ءمیں ایٹم بم نہ گرایا تھا تب تک دنیا کو یہ معلوم،بھی نہیں تھا کہ امریکہ کے پاس ایسا خوفناک ہتھیار بھی موجود ہے اگر ایسا ہوتا تو دوسری جنگ عظیم میں ہیٹلر اور بالخصوص محوری کیمپ کی حکمت عملی کچھ اور ہوتی۔ تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ دوسری عالمی جنگ کا فیصلہ ناگا ساکی اور ہیروشیما پر پر ایٹم بم گرانے کے بعد ہی ہوا۔ اب تک ایک ہزار سے زائد امریکہ ایٹمی دھماکے کرچکا ہے لیکن اُس نے کبھی دنیا کو یہ نہیں کہا کہ میرے پاس اس قسم کی صلاحیت ہے حالانکہ جب ضرور پیش ہوجائے تو وہ اپنی صلاحیت کو خوب استعمال بھی کرتا ہے مگر تشہیر کرنے سے گریز بھی کرتا ہے۔جب ہم نے بھی ایٹمی دھماکے کئے تو پھولے نہیں سمائے اور ہم یہ سمجھنے لگے کہ ہم ناقابل تسخیر ہوچکے ہیں اگر ہمارا یہ دعویٰ درست ہے تو پھر امریکہ نے ہمارے ریاست کے اندر ایک اور ریاست کیسے بنایا ہے۔ پاکستان اعلیٰ سول اور عسکری اداروں پر دہشت گردوں کا حملہ ایک اور ریاست کی نشاندہی نہی کرہی ہے ؟؟؟اگر حکمت عملی کے علاوہ محض ایٹم سے ہیرو بننا ہوتا تو روس بچارہ کیوں ٹوٹتا جس نے پونے سات سو ایٹمی دھماکے کئے تھے اور امریکہ کے مقابلے میں اب بھی روس کے پاس تین چوتھائی ہتھیار زیادہ ہیں، کاش ہم ماضی کی برطانوی دور اقتدار جو اتنا وسیع تھا کہ جہاں سورج غروب نہیں ہوتا تھا ۔ حالانکہ برطانیہ کی آبادی بھیاتنی زیادہ نہیں جو دنیا پر حکومت کرسکے در حقیقت میں کامیابی کا دارو مدار مثبت حکمت عملی اور دور رس بنیادون پر مبنی اقدامات سے ہوتی ہے۔ جب کہ ہماری سوچ بہت محدود ہوا کرتی ہے وہ اس لیے کہ ہم خود اپنے لیے مخلص نہیں ہماری بے ایمانی کی وجہ سے ہی ہمارا ذہن کند ہوجاتا ہے۔ ہم آپس میں ہی ایک دوسرے کو یعنی اپنے ہی کلمہ گو مسلمانوں کو کفر کا فتویٰ دیتے ہیں بلکہ انہیں قتل کرنا اپنے مروج شدہ اسلامی اصول کے مطابق اجر قرار دیا جارہا ہے ۔کیا دنیا ہماری ان حرکتوں پر نظر نہیں رکھتی ہوگی ؟ضرور رکھتی ہے اور عدم برداشت اور آپس کی دہشت گردی کو مد نظر رکھتے ہوئے دنیایہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر ایسے لوگوں کے ہاتھ میں چھری دیا جائے تو یہ لوگ جو خود کو تباہ کرنے سے بھی نہیں کتراتے ہیں دنیا کو بھی تباہ کر ڈالیں گے۔1979ءمیں جب سابق سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو وہ گروپ جس نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی اور پاکستان بننے کے بعد پاکستان کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے اور خود کو اسلام پسند اور پاسبان پاکستان قرار دینے کے لیے جہاد کا خول اپنے اوپر چڑھایا تھا اسی امریکہ کے حق میں فتویٰ دیا کہ امریکن اہل کتاب ہیں اور سویت یونین لادینیت،دہریت پسند اور مرتد یعنی پکے کافروں کی سلطنت ہے ۔اس لیے امریکہ کے کہنے پر اپنا تن،من،دھن روس کو بھگانے پر قربان کیا۔عقل کی کمی،ویجن کی کمی اور قیادت کی فقدان کی وجہ سے یہ گروپ اس سازش کو نہ سمجھ سکی کہ روس کے جانے کے بعد امریکہ ان کے لیے تفتیشی آفیسر بن کر سامنے آئے گا۔اپنے آپ کو اسلامی نظریاتی اصولوں کے علمبردار قرار دینے والے اس گروپ نے امریکہ کی ”پراکسی “ لڑ کر امریکہ کو پوری دنیا کا واحد اور اکلوتا تھانیدار بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔اس شعر کے مصداق کی (لمحوں نے خطا کی،صدیوں نے سزا پائی) اسی گروپ کے ان فسطائیت نما کردار کی وجہ سے آج امریکہ پوری دنیا کے مظلوم انسانوں کی عرصہ حیات تنگ کررہا ہے۔المیہ کی بات تو یہ ہے کہ اسلام کو اپنی جاگیر سمجھ کر پوری دنیا میں فتویٰ سازی کی فیکٹریاں قائم کرنے والے اس گروپ نے یہ فتویٰ دے رکھا ہے کہ اخبار میں تصویر لگانا بھی گناہ ہے لیکن روس افغان جنگ کے دوران اسی گروپ کے کرتے دھرتے جارچ واشنگٹن کی تصویر والی ڈالر کے نوٹ کو اپنے سینوں سے لگانا باعث فخر سمجھتے رہے۔جبکہ مسلمان اس وقت نوحہ کناں ہے کہ امریکہ پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور دنیا خاموش ہے۔حالانکہ دنیا نے ابھی مسلمانوں سے یہ سوال پوچھا نہیں ہے کہ تم نے مالی،جانی اور ہر قسم کی قربانی دے کر امریکہ کو سپر پاور کیوں بنایا اورتمہاری وجہ سے ہی امریکہ نے دنیا کا سکون تباہ کر رکھا ہے۔جب تک ہم اپنے گریبان میں نہیںدیکھیں گے ،جبکہ ہماری تاریخ خون آلود ہے اور المیوں سے بھری پڑی ہے گزشتہ پانچ سو سال کے دوران ہم نے دنیا کو کیا دیا دیا سوائے تعصف، نفرت،بغض اور دہشت گردی کے علاوہ کیا دیا ہے، ہم نے فرقہ پرستی دی ہم نے کونسی ایجادات کی بھر مار کی ہے ہم تو نفرت کی پہچان بن چکے ہیں۔ ہماری بقاءہی اپنے احتسابی عمل میں ہے جب تک ہم کڑوی گولی نہیں نگل لیں گے تب تک ہمارا مستقبل بھی ماضی کی طرح بھیانک ہوتا رہے گا۔ یقینا دنیا کو بھی تباہ کر ڈالیں گے۔ہماری نفسیات کو سمجھتے ہوئے روس میں مزدوری کی جنگ میں ہمیں مشغول رکھا جب یہ کھاتہ بند ہوا اور وہی لوگ جن کے ہاتھ اسلحہ چلانے کے عادی تھے ان پر توجہ نہیں دی گئی پھر یہ لوگ پلٹ کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے دشمن بن گئے،مزے کی بات دیکھیں ماضی کے یہ نامور مجاہدین جو اب دشمن بن چکے ہیں ان کی قلع قمع کا ٹھیکہ بھی پاکستان نے اُٹھایا جب اس ٹھیکے کا کام شروع ہوا تو یہ ماضی کے مجاہد مُڑکر پاکستان پر حملہ آور ہوئے اور تا حال ہورہے ہیں۔ڈالروں کی بارش نے ہمیں اندھا بنا کر رکھ دیا ہے اور ہم نے آہستہ آہستہ اپنے ملک میں زرعی،و دیگر شعبوں میں محنت کرنا بھی گوارا نہیں کیا اور مفت خوری میں اس قدر عادی ہوئے کہ بنی اسرائیل کے دور کا من و سلویٰ یاد آنے لگا اور ہم مکمل طور پر پٹری سے اُتر گئے۔اسی دوران جنونی تنظیموں کو بھی اچھا خاسا دودھ ملا اور ان کی نشوونما بھی بہت خوب ہوئی۔ہمارے حکمرانوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ کل کلاں یہ من و سلویٰ بند بھی ہوسکتا ہے لہٰذا ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہئے مگر اپنے پیروں کو زحمت نہیں دی اوروں کے سہارے جینے کی خواہش، عادت نے آج ہمیں کہاں لا کھڑا کیا ہے؟ان چونسٹھ سالوں میں کونسا ایسا فیصلہ ہم نے کر دکھایا ہے ہے جس پر ہم فخر کر سکیں۔ہماری مثال فرعون کی مانند ہے جب ملک الموت سر پہ کھڑا ہو تو توپھر توبہ کی ضرورت محسوس کرتے ہیں جب کہ وہ وقت توبے کی قبولیت کا نہیں بلکہ انجام کا ہوتا ہے۔جب کہ امریکہ کی جانب سے حقانی نیٹ ورک میں آئی ایس آئی کو ملوث کردیا ہے اور ہما رے حکمران،اپوزیشن و دیگر سیاسی مذہبی جماعتوں کے بلند بانگ امریکن مخالف بیانات پر ہم خوش نظر آتے ہیں در اصل یہ بیانات جواب میں شامل نہیں اگر واقعی امریکہ سے جان چھڑانا ہی ہے تو سب سے پہلے ہمارے حکمران موجودہ۔ ماضی کے سب کو دولت کی حوس اور ڈالر کی پرجا کرنے سے بعض رہنا چاہئے اور جن جن لوگوں کے اربوں،کروروں روپے یا سرمایہ باہر کے ممالک میں میں موجود ہیں وہ سب فروخت کر کیاامریکہ کا قرضہ اُن کے منہ پر ماریں اور مقروض کی زنجیر سے خود کو نجات دلائیں پھر امریکہ کے خلاف کوئی بیان یا ACPکا اہتمام کیا جائے تو اس میںضرور دم خم نظر آئے گا۔جبکہ ایک طرف ہم بھیک مانگ رہے ہیں تو دوسری طرف جوابات دینے کی کوشش کریں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔اب ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے بیدار ہوکر فیصلے کرنے ہونگئے کیونکہ آج کے یہ فیصلے ہی ہماری بقاءکی ضمن ہیں، ہمیں نیک نیتی سے، اسلامی جذبے سے، حب الوطنی سے سر شار ہوکر اپنے رُخ کو تبدیل کرنا پڑے گا ورنہ خدا نخواست2011اور2012ہمارے لیے کتنا بھاری ہوگا اور ہم اپنی کمزور ٹانگوں پر کھڑے بھی رہ سکیں گے یا نہیں ۔خدا را اب بھی وقت ہے سورج سِوا نیزے پہ آنے سے قبل خود کو سنھبالنے کی اشد ضرورت ہے خدا نہ کرے کہیں ہم قصہ پارینہ نہ بن جائیں۔
YOUSUF ALI NASHAD
About the Author: YOUSUF ALI NASHAD Read More Articles by YOUSUF ALI NASHAD: 28 Articles with 23629 views i am belong to gilgit working a local news paper as a asstand editor and some local newspapers for writting editorial pag... View More