صبح گھر سے نکلتے ہوئے ان والدین
کو جن کے بچے پرائیویٹ سکولوں میںپڑھتے ہیں جس ذہنی تنائو اور اذیت سے
گزرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ کرنا بہت ہی مشکل ہے صبح سویرے کبھی بچوں کی
سکول میں پارٹی کیلئے رقم دینی ہوتی ہے اور کبھی کبھارپیپر منی کے نام پر
والدین کے نام پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے کبھی کسی ٹور کیلئے بچوں پر زور ڈالا
جاتا ہے اور اگر پرائیویٹ سکول دور ہیں تو پھر ان بچوں کو سکول لانے اور لے
جانیوالے گاڑیوں کے مالکان کے نخرے اور ان کے اخراجات برداشت کرنا دل گردے
کا کام ہے ایسے میں اگر پرائیویٹ سکولز کے مالکان احتجاج کرے تو اندازہ کیا
جاسکتا ہے کہ والدین کے دلوں پر کیا گزرتی ہیں خصوصا ان بچوں کے جن کے آج
کل سمسٹرز کے امتحانات چل رہے ہیں -
گذشتہ دنوں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی تنظیم کی کال پر صوبے بھر میں تمام
پرائیویٹ اداروں کے مالکان نے صوبائی حکومت کی طرف سے ریگولیٹری بل کے نام
پر ان کی مانیٹرنگ کیلئے لائے جانیوالے بل کی مخالفت میں احتجاجا ایک روز
کیلئے تعلیمی ادارے بند کردئیے مالکان کا موقف ہے کہ جو نیا بل لایا جارہا
ہے ان میں ان کی مشکیں کسنے کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں اور بیورو کریسی
اپنی بدمعاشی اور ان اداروں میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کیلئے اس طرح کے
اقداما ت کررہی ہیں ان مالکان کا یہ کہنا ہے کہ نئے بل کے بعد اگر کسی
تعلیمی ادارے سے غلطی ہوگئی تو ان کے مالکان کیلئے سزائیں مقرر کی گئی ہیں
جو غلط اقدام ہیں اسی طرح ان رجسٹرڈ اور غیر معیاری اداروں کی روک تھام
کیلئے بھی قانون سازی کی جارہی ہیں جو ان مالکان کو قبول نہیں اور اگر یہ
سلسلہ جاری رہا تو وہ تعلیمی اداروں میں کی گئی اپنی سرمایہ کاری ختم کرلیں
گے- دوسری طرف صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی
ملازمت چھٹی اور انہیں دی جانیوالی مراعات سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں
نہ ہی پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ کیلئے کوئی تعلیمی معیار مقرر ہے صوبائی
محکمہ تعلیم کے مطابق پرائیویٹ سکولوں کی درجہ بندی کی گئی ہیں اور
اگرپرائیویٹ سکولز مالکان کو اس پر اعتراض ہے تو وہ ان کے اعتراضات دور
کرنے کیلئے تیار ہیں صوبائی محکمہ تعلیم نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ نئے بل
کے بعد وجود میں آنیوالے ادارے کیلئے سرکاری عہدے کا شخصیت سربراہی کریگا
اور اس میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت نہیں ہوگی-
اس وقت ہمارے صوبے میں پچیس ہزار سے زائد تعلیمی ادارے کام کررہے ہیں جن
میں لاکھوں بچے زیر تعلیم ہیں حیران کن بات یہ ہے کہ ہر تعلیمی ادارے کا
اپنا نصاب ہے سرکاری سکولوں سے ویسے پہلے کلرک نکلتے تھے اب تو کلرک کے
بجائے وہاں پر مزدور بنانے کا سلسلے جاری ہے جبکہ کلرک بنانے کا یہ ٹھیکہ
آج کل درجہ سوم کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے پاس ہے جو بین الاقوامی معیار
کے پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں ان میںعام لوگوں کے بچے تو پڑھنے سے رہیں ایک
مخصوص طبقہ ان اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلواسکتا ہے ان کے اخراجات
اتنے ہیں کہ عام لوگوں کے گھروںکے ماہوار اخراجات بطریق احسن پورے ہوسکتے
ہیں ایلیٹ کلاس کے بچوں کیلئے بننے والے ان تعلیمی اداروں میں خان خوانین
کے بچے پڑھتے ہیںاور ان سب تعلیمی اداروں کا نصاب " پاکستان کا مطلب کیا
کھا پی اور مزے اڑا" والا ہے انہی تعلیمی اداروں سے پڑھ کر آنیوالے قانون
سازی اورحکمرانی کیلئے آتے ہیں اور یہی اسلامی فلاحی عوامی اور جمہوری ملک
پاکستان میں بسنے والے بے وقوفوں کے سروں کاسودا کرتے ہیں درجہ اول کے ان
پرائیویٹ سکولوں کے مالکان بھی ایلیٹ کلاس سے ہیں درجہ دوم کے پرائیویٹ
سکولوں کا نصاب بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے اور اس سے فارغ التحصیل ہونیوالے
گریڈ 15 تک کے لوگ ہوتے ہیں ان پرائیویٹ سکولوں کے مالکان زیادہ تاجر ہیں
جو مکھی سے بھی جوس نکالنے کے ماہر ہیں رہے اسی باعث ان اداروں میں پڑھنے
والے طلباء کو نصاب کتب سے لیکر یونیفارم تک انہی تاجروںکے قائم کردہ مخصوص
دکانوں سے لینی پڑتی ہے جس میں ان۔ مالکان کا اپنا ایزی لوڈ اور کمیشن ہوتا
ہے تین ماہ کی چھٹیوں کا خرچہ بھی انہیں تاجر نما لوگوں نے شروع کیا ہے اور
بچوں کی تین ماہ کی چھٹیوں کے دوران بھتہ بھی والدین کو انہی سکولوں کے
مالکان کو ادا کرنا پڑتا ہے درجہ سوم کے پرائیویٹ تعلیمی ادارے کلرک پیدا
کرنے کی فیکٹریاں ہیں آدھے انگریز اور آدھے پاکستانیوں کے یہ تعلیمی ادارے
اور تو کچھ نہیں کررہے یہا ں پڑھنے والے بچوں کو اے آلو بی بھالو اور سی
سموسہ سکھا رہے ہیں-
صوبہ خیبر پختون خوار میں سرکاری سکولوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے جو
سرکاری تعلیمی ادارے ہیں ان میں ایک کلاس روم میں سینکڑوں بچے زیر تعلیم
ہیں نصاب تو سب کا ایک جیسا ہے لیکن یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طالب
علم نہ تین میں ہوتے ہیں اور نہ تیرہ میں اوراس میں ان کی اپنی غلطی بھی
نہیں ہوتی ہمارے ہاں تعلیم کا شعبہ ایسا شعبہ ہے جس کی طرف کوئی توجہ نہیں
دیتا ایسے ایسے لوگ اس شعبے کے وزیر بنائے گئے جن کی تعلیمی قابلیت انگوٹھا
چھاپ ہی ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے جس وزیر کو کوئی تجربہ نہیں ہوتا
اسے تعلیم اور صحت کا شعبہ دیا جاتا ہے کہ چلو بسم اللہ اس قوم کے مستقبل
پر تجربے کرو ویسے بھی یہ بڑی ہمت والی قوم ہیں یہ ہر قسم کے تجربے کیلئے
ہر وقت تیار رہتی ہیں اسی باعث تعلیمی شعبے کے وزراء تجربوں کیساتھ ساتھ اس
شعبے میں بین الاقوامی امداد دینے والے اداروں سے ایزی لوڈ اور کمیشن کھاتے
رہتے ہیں اس دوران تعلیم کا شعبہ ترقی کرے نہ کرے یہ وزراء ترقی کرتے رہتے
ہیں -
خیبر پختون خوار میں دہشت گردی اور اس کی آڑ میں کی جانیوالی سرگرمیوں میں
سب سے زیادہ تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچا صوبے کے مختلف علاقوں میں واقع
سکولوں کو دھماکوں سے اڑایا جارہا ہے ان میں بعض علاقوں میں بہت سارے لوگ
اپنا کام بھی نکال جاتے ہیں حالانکہ ان سرکاری اداروں کیلئے دو اور بعض
مقامات پر چار چوکیدار ڈیوٹی تعینات کئے جاتے ہیں لیکن کچھ کاغذوں میں
ڈیوٹی دیتے ہیں اور کچھ مخصوص وجوہات کی بناء پر صرف تنخواہیں وصول کرتے
ہیں اور سکولوں کی حفاظت نہیں ہوتی اسی باعث ان تعلیمی اداروں کو بموں سے
اڑانے کے بعد انہیں دوبارہ تعمیر کرنے کیلئے پروپوزل پی سی ون بنتے ہیں اور
ان تعلیمی اداروں کے نام پر آنیوالے کروڑوں بلکہ اربوں کے فنڈز آتے ہیں
اوران میں بھی "ایزی لوڈ" ہو جاتا ہے اسی باعث بہت سارے تعلیمی ادارے تباہ
ہونے کے بعد بھی سالوں میں تعمیر نہیں ہوتے- دوسری طرف پرائیویٹ تعلیمی
اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ کا کوئی تعلیمی معیار مقرر نہیں جو سرمایہ
کار ہے اس کا نالائق بھائی بہن بیوی جو کہ اگر میٹرک پاس بھی ہے تو اس
ادارے کا پرنسپل بنا ہوا ہے جو اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ ہیں انہیں پانچ
ہزار سے دس ہزار تک تنخواہیں دی جاتی ہیں ان کے روزگار کی کوئی سیکورٹی
نہیں نہ ہی ان کی تربیت کا کوئی پروگرام ہیں - بعض پرائیویٹ سکولوں کے
اساتذہ تو خوش ہوتے ہیں کہ بچے غیر حاضری کریں کیونکہ دوسرے دن جرمانے کے
نام پر طلباء و طالبات سے سبزیاں بھی منگوائی جاتی ہیں-
راقم نے ایسے پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی اسی شہر میں دیکھے ہیں جن میں سکول
کے پرنسپل اپنے بچوں کیساتھ رہائش پذیر ہیں ان میں رات کو گھر کے افراد
رہائش اختیار کرتے ہیں اور دن کو بچوں کو مرغیوں کے ڈربے نما کمروں میں
بچوں کو پڑھایا جاتا ہے ان تعلیمی اداروں کی مانیٹرنگ کیلئے کوئی انتظام
نہیں یہی ادارے رجسٹرڈ بھی ہیں ان کا سب سے بڑاتعلق محکمہ تعلیم سے وابستگی
ہونا ہے کچھ ایسے باریش مالکان بھی ہیں جنہوں نے اپنے عہدوں سے ناجائز
فائدے اٹھائے اور رشتہ داروں کے سکولوں کو رجسٹرڈ کیا اور اب بچوں کے
مستقبل کیساتھ کھیل رہے ہیں- جن حالات میں درجہ سوم کے پرائیویٹ تعلیمی
ادارے ملک کیلئے کلرک پیدا کررہے ہیں ان میں انہیں مسائل سے دوچار کرنا تو
ظلم ہے ویسے بھی ہماری سرکار نے سرکار کے ذریعے چلنے والے تعلیمی اداروں
میں کونسا تیر مار لیا ہے جو اب پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے پیچھے لٹھ مار
کر پڑے ہوئے ہیںابھی تو والدین اور اساتذہ تو اس بات پر خوش ہیں کہ
پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی مانیٹرنگ بھی ہو اور ان سے بھی کوئی پوچھ گچھ
کرنے والا ہو لیکن اس کی آڑ میں "خرچہ پانی"کا سلسلہ اگر شروع ہوگیا تو اس
کا بوجھ بھی والدین کو برداشت کرنا پڑے گا- |