مولانہ رومی سے لکھتے ہیں کہ
زمین کے زروں کی مانند جسامت والی چیونٹی قدرت کے دیگر کرشموں کی طرح چلتا
پھرتا کرشمہ ہے مولانہ رومی لکھتے ہیں کہ ایک زندہ انسان کے اندر موجود وہ
تمام چیزیں جن کی بنیاد پر وہ زندہ ہے اور عام زندگی گزار رہا ہے وہ بنیادی
تمام چیزیں اور جسم کے اعضاءقدرت نے ایک چھوٹی سی چیونٹی میں بھی قدرت کے
ہاتھوں محفوظ کیئے ہوئے ہیں چیونٹی انسانوں کی طرح آنکھوں سے دیکھتی بھی ہے
اور کانوں سے سنتی بھی ہے ناک سے سونگھتی بھی ہے ،اور منہ سے کھاتی بھی ہے
،چلنے کیلئے ٹانگیں بھی ہیں اور کھانے کیلئے ہاتھ بھی ہیں، سوچنے کیلئے
دماغ بھی ہے اور دھڑکنے کیلئے دل بھی ہے اور اس چھوٹے سے زرے کے برابر جسم
میں موجود چھوٹے سے پیٹ کے اندر ایک مکمل نظام ہضم بھی موجود ہے، اب اس
چھوٹی سی چیونٹی کی خوبی دیکھئے چلتے چلتے مخالف سمت سے آنی والی ہر چیونٹی
سے مصافحہ ضرورکرے گی سینکڑو ں میل کی مسافت ہو یا چند گز کی لیکن قطار میں
طے کرے گی اور اگر اس دوران کوئی مردہ چیونٹی نظر آگئی تو اس کو دیگر
چیونٹیاں مل کر اٹھا کر اپنے محفوظ بل میں لے جائیں گیں کہ اپنے ساتھی کی
بے حرمتی نہ ہوسکے قطار میں چلنے والی چیونٹی چائے جس مرضی رنگ یا نسل کی
ہو لیکن اس کے مخالف سمت سے آنے والی چیونٹی اس کو اسلام ضرور کرے گی اور
بالکل اسی طرح بغیر کسی نسل کی تمیز کے اگر کوئی چیونٹی راستے میں مر جاتی
ہے تو اس کو محفوظ بل میں پہنچا دیا جاتا ہے ان تمام چیزوں کے علاوہ اور
بہت ساری چیزیں ایسی حیران کن ہیں جو انسانی زندگی کے ساتھ مشترک ہونے کے
وجہ سے باعث حیرانگی ہیں لیکن دیکھنا اس بات کو ہے اس کو اتنا علم آیا کہاں
سے ؟؟؟سکول کی سہولت،کتاب کی سہولت، تربیت کی سہولت، راہنمائی کی سہولت
اوراستادکی سہولت کے علاوہ اس کے پاس وہ تمام چیزیں موجود نہیں جو ایک
انسان کو میسر ہیں تو پھرعقل کہاں سے آگئی ،ہے نہ فطرت کا کمال،دوسری جانب
دیکھئے آج کا انسان ترقی کی تمام منازل طے کر چکا ہے میدان چاہیے تعلیم کا
ہو یا تربیت کا انسان نے تقریبا ً ہر طرح کا رعبور حاصل کر لیا ہوا ہے مگر
جب بات عمل کی طرف آتی ہے تو چیونٹی کی خوبیوں پر رشک آتا ہے اپنے ملک کے
حالت دیکھ لیں۔۔۔۔۔۔۔کراچی تو عملاًمیدان جنگ بنا ہواہے اس خاموش جنگ کے
ہاتھوں ہر روز کئی انسان مررہے ہیں خانہ جنگی کی موجودہ صورتحال نے انسانوں
کو نسلوں ،قبیلوں ،علاقوں،برادریوں اور اب صوبوں میں تقسیم کر دیا ہے قانون
اور آئین کے درمیان فاصلے پیدا کر دیئے گئے ہیں عوام اور حکمرانوںکے درمیان
باہمی رابطے اور اعتماد کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے عوام ہر پانچ سال کے بعد نئی
تبدیلی کی امید رکھے ہوئے ہوتے ہیں لیکن پولنگ کے خود ساختہ نتائج عوام کی
خواہش کو سبوتاژکر دیتے ہیں دوسری طرف چیونٹی نے رابطے اور اعتماد کا لیزان
صدیوں کا عرصہ گزر جانے کے باوجودآپس میں قائم رکھا ہواہے ۔۔۔۔۔ہے نہ کمال۔۔۔۔۔
اللہ تعالٰی ہم کو بھی سمجھنے ،سوچنے اور اچھی بات اپنانے، پھیلانے اور اس
پرعمل کرنے کی توفیق دے(آمین) |