زندگی کچرے کے ڈھیر پر۔۔۔ مگر کب تک؟

ہم بھی کیا قوم (!) ہیں۔ اگر نعرے لگانے پر آئیں تو دنیا کو ہلادیں۔ کسی معاملے میں اگر کہنے کی ٹھان لیں تو زبانی جمع خرچ کے قطب مینار کھڑے کردیں۔ مگر جب بات عمل کی ہو تو کچھ ایسا ”نہ کر دکھائیں“ کہ دنیا واقعی حیران رہ جائے! کراچی کا شمار اب چند بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ دو کروڑ سے زائد آبادی کا شہر بنیادی سہولتوں سے اسی طرح محروم ہے جس طرح ہماری حکومت کے بیشتر اقدامات کِسی منطق اور منصوبہ بندی سے محروم ہیں! جو شہر ہمیں اپنے آغوش میں سموئے ہوئے ہے وہ ہم سے بہت کچھ چاہتا اور مانگتا بھی ہے۔ ہمیں زندہ رہنے کے لیے روز کھانا پڑتا ہے اور کھائے ہوئے کو ہضم بھی کرنا پڑتا ہے۔ اور اس کے بعد جسم کے ہر اہم نظام کو درست رکھنے کے لیے آرام کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسا نہ ہو تو ہم، ظاہر ہے، نہ رہیں۔ مگر پتہ نہیں کیوں شہر کے بارے میں یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ اِسے بظاہر کِسی چیز کی ضرورت نہیں۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں تو مرمت ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ ترقیاتی کاموں کے بعد گڑھے بھرنا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ اور بعض مقامات پر گڑھے اِس طور بھرے جاتے ہیں کہ ذرا سا پانی پڑنے پر زمین پلپلی ہو جاتی ہے اور کوئی بڑی گاڑی اس پر سے گزرے تو دھنسے بغیر آگے بڑھنے سے صاف انکار کردیتی ہے! جن راستوں یا راہداریوں کو گندے پانی کی نکاسی کے لیے بنایا جاتا ہے ان میں روانی برقرار رکھنے کو بھی شاید غیر ضروری سمجھ لیا گیا ہے۔ شہر کی بیشتر غریب بستیوں میں چھوٹی ندیاں اور نالے اب کچرے سے اَٹ چکے ہیں۔ اِن میں کچرے کی مقدار اِس قدر ہوچکی ہے کہ گندے پانی کی نکاسی چھوٹی سی نالی کی صورت میں ہو رہی ہوتی ہے۔ اور کچرا پڑے پڑے ٹھوس ہوتا جاتا ہے اور آلودگی کے مستقل مآخذ کی شکل اختیار کرلیتا ہے!
 

image

کراچی کے کئی پس ماندہ علاقوں میں آبادی کے بیچ سے گزرنے والے نالے عملاً بند ہوچکے ہیں۔ اِن کی صفائی کا اہتمام کرنے کا کسی کو خیال نہیں آتا۔ سرکاری ادارے ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال کر سکون کا سانس لیتے ہیں۔ کئی علاقوں میں خاصے چوڑے نالوں پر بنائے جانے والے پل انتہائی خستہ حالت میں ہیں اور کسی بھی وقت ٹوٹ سکتے ہیں۔ علاقے کے مکین آمد و رفت کے لیے یہ پل استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ بعض مقامات پر نالے سے ملحق مکانات میں سکونت پذیر بچے بھی دن رات ٹوٹے پھوٹے اور خستہ حال پلوں پر کھیلتے رہتے ہیں۔ گھر کے باہر کچرے کے ڈھیر اور ”کیچڑ نالے“ ان بچوں کے پلے گراؤنڈ ہیں! بچے تو کیا کھیلیں گے، یہ کچرے کے ڈھیر اور گندے نالے ہی اِن معصوموں کی زندگی سے کھیلتے رہتے ہیں! آئے دِن اِن نالوں میں گر کر بچے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں مگر اس کے باوجود متعلقہ ذمہ داران کے دل میں کوئی کسک نہیں اٹھتی، ضمیر جاگتا نہیں اور احساس کی بیداری کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔

کراچی مختلف ٹاؤنز کا مجموعہ ہے۔ ہر بڑے شہر میں چند ایسے علاقے بھی ہوتے ہیں جو زندگی کی دوڑ میں دوسروں سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اِنہیں عرفِ عام میں چائنا ٹاؤن کہا جاتا ہے۔ چین سے لازوال دوستی کا شاید ایک یہ نتیجہ بھی برآمد ہوا ہے کہ ہمیں چائنا ٹاؤن کی اصطلاح سے لگاؤ ہوگیا ہے اور ہم اپنے شہروں میں چائنا ٹاؤنز کی تعداد بڑھانے پر تل گئے ہیں!

ہر (چھوٹا یا بڑا) شہر مختلف طبقات اور اُن کے تحت زندگی بسر کرنے والے لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ امیر اور غریب کا فرق بھی کوئی حیرت انگیز اور قابل نفرت بات نہیں کہ فطری امر ہے۔ مگر کیا یہ ضروری ہے کہ بعض علاقوں کو زندگی کی دوڑ میں جان بوجھ کر اِس قدر پیچھے رکھا جائے کہ انہیں دیکھتے ہی زندگی کی کم مائیگی کا احساس ہو؟ جس طرح غریب بستیوں کے نالوں کی صفائی ناگزیر ہے بالکل اسی طرح شہر کے لیے غریب علاقوں کی صفائی بھی ناگزیر ہے کیونکہ یہ علاقے بھی شہر کے لیے نالوں کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔غریب بستیوں کے کچرے سے اَٹے نالوں پر پل تعمیر کرنے کے ساتھ شہر کے مختلف علاقوں کے درمیان بھی پل تعمیر کرنا لازم ہے تاکہ بہت سی زندگیاں محرومیوں اور ناکامیوں کے گندے نالوں میں نہ گرتی رہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 487700 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More