روشنی کے شہر میں ظلمت مقدر ہوگئی

نئی نسل نے اپنی آنکھوں سے تو نہیں دیکھا مگر ہاں بزرگوں کی زبانی سنا ہے کہ کِسی زمانے میں کراچی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا! آج کے بچوں نے کبھی زیادہ روشنی دیکھی نہیں۔ اگر کبھی کراچی نے اپنی تاریخ دہرائی تو اِ ن بے چاروں کی آنکھیں چُندھیا جائیں گی! 1960 کی دہائی میں بننے والی فلم ”چنگاری“ میں مہدی حسن کا گایا ہوا گیت اعجاز پر فلمایا گیا تھا جس کا مُکھڑا تھا ”اے روشنیوں کے شہر بتا!“ اِس گانے سے اِس اَمر کا ثبوت ملتا ہے کہ کراچی واقعی کبھی روشنیوں کا شہر تھا۔ جب کراچی روشنیوں کا شہر تھا تب بھی اِس سے سوال کیا جاتا تھا اور اب تو خیر، گوناگوں سوالات کا ایک ڈھیر ہے جو جواب کا منتظر ہے!

زمانے کے رجحانات اور ہمارے مزاج میں کس قدر فرق ہے۔ دنیا بھر میں سمندر کے کنارے آباد بڑے شہروں کو ترقی دینے اور خوش حالی کی علامت بنانے کا رواج عام ہے۔ حکومتیں ساحلی شہروں کی بین الاقوامی نوعیت اور اہمیت کے پیش نظر ان کی ترقی کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ سڑکیں ویران ہوں نہ بے چراغ۔ ہم اِس معاملے میں بھی وکھری ٹائپ کے ہیں! اگر ملک کے چند بڑے یا ایک آدھ بڑا شہر ہی اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہو تو ملک کے بارے میں دنیا کیا اندازہ لگائے گی؟ اِس سوال پر دنیا بھر میں غور کیا جاتا ہو تو شاید کیا جاتا ہو، ہمارے ہاں فی الحال حکمرانوں کے پاس ایسی باتوں پر غور کرنے کے لیے وقت نہیں۔
 

image

ملک کا واحد بین الاقوامی شہر ہونے کے باوجود کراچی اب تک اہل اقتدار و اختیار کی نگاہِ کرم کا منتظر ہے۔ شہر کی بڑی شاہراہوں کو بھی روشن رکھنے کا اہتمام نہ کرنا ان اندھیروں کی نشاندہی کرتا ہے جو اہل اختیار کے ذہنوں میں پائے جاتے ہیں! کراچی کی بڑی سڑکوں پر ٹریفک جام معمول بن کر رہ گیا ہے۔ جس طور ہم پاکستانی آپس میں دست و گریباں ہوتے رہتے ہیں بالکل اسی طرح گاڑیاں بھی ایک دوسرے میں اُلجھ کر رہ جاتی ہیں اور ان میں پھنسے ہوئے لوگوں کو گھنٹوں شدید کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی رات کو بھی ٹریفک جام کی کیفیت شہریوں کی مشکلات میں اِضافہ کرتی ہے۔ اگر ٹریفک جام نہ بھی ہو تو کِسی نہ کِسی وجہ سے شہریوں کو گاڑیاں سست رفتاری سے چلانا پڑتی ہیں۔ رات کے وقت کِسی شاہراہ پر پھنسی ہوئی گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس اندھیرے میں ایسے چمکتی ہیں جیسے جنگل میں رات کے وقت درندوں کی آنکھیں! ٹریفک جام میں پھنسی ہوئی گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس شہریوں کو درندوں کی آنکھوں جیسی کیوں محسوس نہ ہوں کہ یہ اِن کے قیمتی وقت کو چیر پھاڑ کر ہڑپ کر رہی ہیں! روشنی کے اہتمام سے محروم شاہراہوں کو شہری اپنی گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس کے ذریعے روشن رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں! جگمگاتی سڑکوں پر بے چراغ گاڑیاں بہت بری لگتی ہیں، بالخصوص قانون نافذ کرنے والوں کو! مگر بے چراغ سڑکوں پر روشن آنکھوں والی گاڑیاں شہر کی رونق کِسی حد تک برقرار رکھنے میں ضرور کامیاب رہتی ہیں! کیا سِتم ہے کہ شہر کی رونقیں بحال رکھنے کے لیے ہمیشہ شہریوں ہی کو کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے!

شہرکی خاصی چوڑی سڑکوں پر بھی گاڑیوں کی رفتار کا سُست پڑ جانا شاید اِس امر کی علامت ہے کہ ہماری اپنی کوتاہی ہمیں قطار بند رہنے کے آداب سِکھا رہی ہے یا پھر یہ بات ہے کہ شہریوں کے پاس وقت بہت ہے اور ا ±سے ٹھکانے لگانا ہے! وقت کو قتل کرنے کے اور بھی کئی طریقے ہیں مگر اِس حوالے سے جو مزا ٹریفک جام میں ہے وہ کِسی اور چیز میں کہاں؟ بحیثیت قوم ہمارے مزاج میں شِکوے اور شکایات رچ بس گئے ہیں۔ اِنسان کی سوچ مثبت ہو تو کِسی بھی صورتِ حال سے کچھ بھی کشید کیا جاسکتا ہے۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ ٹریفک جام سے ہم ایک طرف تحمل سیکھتے ہیں اور قطار بند ہوکر چلنے کا سلیقہ پیدا ہوتا ہے۔ اور دوسری طرف یہی ٹریفک جام ہم میں سے بہتوں کو تیزی سے آگے بڑھنے کا ہنر بھی سِکھاتا ہے! بہت سے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹریفک جام کے دوران ذرا سی گنجائش پیدا ہونے پر کِس طرح ”کھانچا“ فٹ کرکے آگے بڑھنا ہے! اگر ٹریفک جام کی روایت نے کمزور پڑنے سے انکار کردیا تو ہمارے ہاں بہت جلد ایسے باصلاحیت نوجوانوں کی کھیپ سامنے آئے گی جو کِسی بھی طرح کی صورتِ حال کا سامنا کرنے اور ہر بُری صورتِ حال کے بطن سے کام کی کوئی نہ کوئی چیز برآمد کرنے کی ماہر ہوگی!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524526 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More