گہرا گلابی رنگ کی ساڑھیاں پہنے
بہت ساری عورتیں مجمعے کی صورت میں سروں پہ پلو ٹکائے کوئی خاص تربیت حاصل
کرنے کے مشن پر ہیں۔ نہ کسی عورت کے ہاتھ میں دیا سلائی، نہ کپڑا، نہ برتن
نہ جھاڑو، اور کتاب اُس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بل کہ ان سب کے
ہاتھوں میں بڑے بڑے بانس نما ڈنڈے ہیں۔ گھیرے کے بیچو بیچ دو عورتیں ڈنڈا
چلانے کی تربیت دینے میں مصروف ہے۔ ان میں سے ایک، جو اُن عورتوں کی سربراہ
معلوم ہوتی تھی، نہایت برق رفتاری سے اور مہارت کے ساتھ ڈنڈے کے داﺅ پیج
یوں دوسری عورت کو سکھارہی ہے جیسے اس چین سے کنگ فو کی خاص مہارت حاصل کی
ہو۔یہ بھارت کی ریاست اُترپردیش کا ایک گاؤں ہے، جہاں یہ ”سربراہ عورت“ جسے
سب سمیت دیوی کے نام سے جانتے ہیں، مظلوم عورتوں کو اپنے تحفظ کے لیے تربیت
دے رہی ہے، تاکہ یہ عورتیں اپنے اوپر ڈھائے جانے مظالم سے چھٹکارے کے لیے
اب کسی کی محتاج نہ رہیں۔کتنی مُنَظّم ہیں یہ خواتین۔ کیا ان کو دیکھ کہ
کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ پڑھی لکھی نہیں، حالاں کہ عورت کی پڑھائی کا تصور
اب بھی ان کے گاﺅں میں معیوب ہے ۔ وقت اور حالات کی سختی نے ان عورتوں کے
چہرے سے صنف نازک کی نازکی ختم کر دی ہے۔ کیا روپ دار چہرہ ہے اُس سربراہ
عورت کا۔رفتہ رفتہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ خواتین دور دراز سے سمیت
پال کے ساتھ آکر ملنا شروع ہوجاتی ہیں۔ مختلف این جی اوز ان سے رابطہ کرتی
ہیں اور ایک گاﺅں میں بنیاد پانے والا یہ گروپ دو سال بعد اپنی پہچان بناتے
ہوئے گلابی گینگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔بھارت میں مظلوم عورتوں کے تحفظ کے
لیے سرگرم ڈنڈا بردار خواتین کا گلابی گینگ 2006 میں سمیت پال دیوی نے
تشکیل دیا، جس کی وجہ بڑے پیمانے پر خواتین پر کیا جانے والا گھریلو تشدد
تھا۔ گروپ کی خواتین گلابی ساڑھی پہنے ہاتھ میں ڈنڈا اُٹھائے اپنی ریاست کی
خواتین کے لیے سرگرم رہتی ہیں۔ یہ عورتوں پر ہونے والے ظلم اور دیگر مسائل
پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ گلابی گینگ میں 22سے 50 سال تک کی خواتین شامل ہیں،
جو مظلوم عورت کی آواز پر ذات پات کی تفریق کے بغیر لبیک کہتی ہیں اور ظلم
کو مٹانے کے لیے حرکت میں آجاتی ہیں، جس کے لیے انہیں خصوصی تربیت دی جاتی
ہے۔ گلابی گینگ کی خواتین نے گذشتہ کئی سالوں سے انصاف کی جنگ لڑتے ہوئے
بھارت میں اور ملک سے باہر بھی نام روشن کیا ہے۔جب ریاست اپنے عوام کو تحفظ
دینے میں ناکام ہو جائے، تو گلابی گینگ جیسے گروپ منظر عام پر آتے ہیں۔
لیکن گلابی گینگ کی یہ خصوصیت ہے کہ اسے در پردہ حکومتی حمایت حاصل ہے۔ یہ
گروہ نہایت منظم طریقے سے کام کر رہا ہے اور اب تک دس ہزار خواتین اس کا
حصہ بن چکی ہیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود چند سوالات ہیں جو ذہن میں پیوست
ہوئے جاتے ہیں۔ عورت معاشرے میں تہذیبی اقتدار کی امین ہے۔ پھر ایسا کیا
ہوتا ہے کہ معاشرے کی تہذیب کو بالائے طاق رکھے یہ عورتیں تشدد پر آمادہ
ہیں؟ ہم پاکستانی معاشرے کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو اس حوالے سے صورت
حال نہایت ابتر نظر آتی ہے۔ آج بھی کاروکاری غیرت کے نام پر قتل ، حق
بخشوانے، ونی اور وٹہ سٹہ جیسی رسومات جاری ہیں۔ بہت سے علاقوں میں لڑکیوں
کے لیے تعلیمی سہولیات تقریبا ً ناپید ہیں اور بعض علاقوں میں موجود لڑکیوں
کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہی نہیں۔شہری زندگی کی صورت حال بھی اس سے
مختلف نہیں۔ شہروں میں بھی ایک طبقہ یہی زاویہ نگاہ رکھتا ہے۔ تعلیم لڑکی
کو دلوائی جاتی ہے تو صرف اس حد تک کے وہ ”پڑھ لکھ “ سکے، جب کہ اس کے
شعوری طور پر عملی زندگی میں قدم رکنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی، جو
بہرحال ساری زندگی اس کے لیے مسائل پیدا کرتی ہے۔ عورت کے ساتھ ایسا سلوک
کیا جاتا ہے جیسے وہ شوہر یا باپ کی ملکیت ہو۔ بیٹی کے طور پر وہ اپنے باپ
کی ملکیت ہوتی ہے اور وہ جس سے چاہے اپنی بیٹی کی شادی کرسکتا ہے اور شادی
کے بعد اس کی زندگی پر مکمل طور پر شوہر کی اجارہ داری ہوجاتی ہے۔ پاکستان
کے بعض علاقوں میں باپ پیسے کے عوض اپنی بیٹی فروخت کر دیتا ہے اور بعض جگہ
اسے نام نہاد رسومات کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ لڑکی کو خرید کر شادی کرنے
والا شادی کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ وہ جب چاہے اپنی بیوی سے ہر طرح کی کام
مشقت لے سکتا ہے۔یہ تصورات عورت کو ہی نہیں پورے معاشرے کو نقصان پہنچا رہے
ہیں، جس کے رفتہ رفتہ خطرناک نتائج حالیہ چند سالوں میں دیکھنے میں آئے ہیں۔
کہیں لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا گیا۔ کہیں بااثر افراد نے ان کے پیچھے
کتے چھڑوادےے۔ کہیں سرعام کوڑے مارے گئے اور فخر سے سینہ تان کر اسے اپنی
غیرت اور پشتوں سے چلی آنے والی روایت کا نام دیا گیا۔ یہ انتہائی ظلم اور
انصاف کے تقاضوں کے قطعی برعکس ہے۔ ملک بھر میں اس وقت 14000چودہ ہزار این
جی اوز مختلف مقاصد کے لیے کام کر رہی ہیں، لیکن تبدیلی کی کوئی خاطر خواہ
صورت نظر نہیں آتی۔ قوانین بے تحاشہ بنا دےے گئے، لیکن عمل درآمد نہ کروایا
جاسکا۔ قوانین کی کی پاسداری نہ ہونے کی وجہ سے ہی یہ عالم ہے کہ ہمارا
معاشرہ حد درجہ تشدد پسندانہ روش اختیار کر چکا ہے، جس کا مظاہرہ احتجاج کے
موقع پر ہوتا رہتا ہے۔ لوگ مختلف معاملات پر احتجاج کرنے نکلتے ہیں تو غم
وغصے کا اظہار کرتے ہوئے آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ کیا یہ غم و غصہ منظم
طریقے سے معاشرے کی بہتری کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ گلابی گینگ کی
چند سو عورتیں جو رفتہ رفتہ منظم ہوتے ہوئے ایک بڑی طاقت بن کر سامنے آئیں
اور معاشرے میں بہتری پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ کیا ہم بھی اسی منظم
طریقے سے احتجاج نہیں کر سکتے۔ تشدد کی حمایت کسی بھی طور پر نہیں کی
جاسکتی۔ نہ ایسے گروپس کو سراہا جاسکتا ہے جو قانون ہاتھ میں لیں۔ لیکن
حکومت کے ساتھ مل کر قوانین کی پاسداری اور معاشرے میں بڑھے منفی رجحانات
کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح گھریلو تشدد، زبردستی کی شادیوں، جہیز کے
مطالبات اور خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات کی روک تھام کے ساتھ عورتوں
اور مردوں کے لیے یکساں طور پر روزگار اور قرضوں کی فراہمی کو ممکن بنایا
جاسکتا ہے۔ معاشرے میں بہتری کا جذبہ رکھنے والوں کو مُنظم ہو کر ایسے
اقدام کر نے کی ضرورت ہے جس کے دور رس نتائج برآمد ہوں۔ اپنی زندگی کے نصب
العین اور مقاصد کا واضح تصور رکھنا انسانیت کا تقاضہ ہے اور کھوئی ہوئی
انسانیت کی تلاش ہم سب کا فرض۔ |