شاید مئی 1212 عیسوی کا کوئی دن
تھا جب فرانس کا بادشاہ فلپ سینٹ ڈینس (فرانس کا ایک مقام) میں اپنے دربار
میں لوگوں سے مل رہا تھاکہ اچانک اسٹیفن نام کا بارہ سالہ بچہ آیا۔ (تاریخ
کو اُس کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہیں ۔ تاریخ کبھی کبھی مجرمانہ حد تک
انجان ہو جاتی ہے!)۔ بس اتنا پتا ہے کہ وہ پتلا دبلا تھا۔ اس نے بہت پھٹے
پرانے کپڑے پہن رکھے تھے اور اس کے پیروں میں پرانی سی چپل تھی۔ وہ ایک
یتیم تھا جس کے والدین ایک وبا ءمیں مارے گئے تھے جب وہ صرف پانچ سال کا
تھا۔ (ابتدائی 1200عیسوی کی وباءمیں بے تحاشہ لوگ مارے گئے تھے اور یتیموں
کی بڑی تعداد بے گھر بھٹک رہی تھی ۔کچھ بچے کھیتوں میں مددگار کے طور پر
کام کرتے تھے اور انہیں اُس کے عوض کھانا اور سونے کی جگہ مل جایا کرتی تھی۔
بہت سارے بچے بھوکے پیاسے یا تو بھیک مانگ رہے ہوتے تھے یا پھر چوریاں کرتے۔
کھیتوں میں سوتے۔ سردی اور بھوک کے ہاتھوں مرتے رہتے تھے)۔وہ بچہ اسٹیفن
اپنے ہمراہ ایک مکتوب لایا تھا جو اُس نے بادشاہ فلپ کو پیش کیا۔ جو بقول
اُس کے خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس کو دیا تھا۔ جو اُس کو رات کو
سوتے ہوئے ملے تھے اور انہوں نے اسٹیفن کو گہری نیند سے جگا کر وہ مکتوب
دیا تھا اور صلیبی جنگ کے لئے ترغیب دینے کو کہا تھا۔ (اخیر 1100عیسوی میں
مسلمانوں نے یروشلم فتح کرلیا تھا اور عیسائی فوجوں کو فلسطین کی سرحدوں سے
باہر نکال دیاتھا۔ عیسائی اُس وقت ایک شکست خوردہ ذہنی کیفیت کا شکار تھے۔
چرچ کے بہت اُکسانے کے باوجود یروشلم کی واپسی کے لئے جنگ کرنے پر آمادہ نہ
تھے)۔ بادشاہ فلپ نے اسٹیفن کو کوئی اہمیت نہیں دی اور اُسے گھر جانے کا
کہہ دیا۔
بادشاہ فلپ کے دربار میں پیش آنے والے اِس واقعے کے کچھ عرصے کے بعدفرانس
کے شمالی علاقوں سے بچوں کے جلوس گروہ در گروہ وادیوں میں پھیلنے لگے۔ وہ
اپنے معصوم ہاتھوں میں صلیبیں اُٹھائے، اونچی آواز میں حمد کے گیت گاتے گاﺅں
دیہاتوں اور قصبوں سے گزرنے لگے۔ جو کوئی اُن سے پوچھتا کہ وہ کہاں جارہے
ہیں۔ جواب ملتا”خدا کے پاس“ اُن بچوں کا سربراہ بارہ سالہ ”اسٹیفن“ تھا جس
کا دعویٰ تھا کہ اُس کو یسوع مسیح نے خود ایک مکتوب دیا تھا جس میں کہا گیا
تھا کہ وہ صلیبی جنگوں کا راستہ پھر سے ہموار کرے تاکہ فلسطین کو مسلمانوں
سے آزاد کرایا جاسکے۔ وہ اور اُس کے تمام ساتھی بچے ساحل سمندر کی طرف
گامزن تھے جہاں سے وہ یروشلم جانا چاہتے تھے۔یہ سارا انتظام پوپ انوسنٹ
تھری کے ایماءپر کیا گیاتھا جس کا مقصد عیسائیوں میںصلیبی جنگ کے لئے بے
داری پیدا کرنا تھا۔ پوپ انوسنٹ نے اُن بچوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ جب وہ
سمندر پر پہنچیں گے تو سمندر سمٹ کر اُن کے لئے راستہ دے گا اور وہ یروشلم
پہنچ جائیں گے۔ بچوں کا یہ جلوس عیسائیت کے لئے معجزہ ثابت ہوا۔ عیسائی اِس
جلوس کو دیکھنے جانے لگے اور اسے خدا کا معجزہ سمجھنے لگے ۔ وہ سمجھنے لگے
کہ اِن معصوم بچوں میں یسوع مسیح بھی شامل ہیں اور شاید اِن معصوموں کے
ذریعے کوئی معجزہ رونما ہونے والا ہے۔ اور جلد ہی بیت المقدس اُن کے قبضے
میں ہوگا۔اپنے وقت کے مشہور ترین اور چرچ کی تاریخ کے طاقتور ترین پوپ
انوسنٹ تھری نے کہا کہ یہ ہمارے لئے باعث شرم ہے کہ بچے تو سرزمین مقدس کی
آزادی کے لئے نکل کھڑے ہوں اور ہم اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں!
ان بچوں کا انجام بہت ہی درد ناک ہوا جب وہ سمندر کے ساحل پر پہنچے تو چرچ
کی بشارت کے مطابق سمندر شق نہ ہوا۔ بہت سوں کی ہمت وہیں جواب دے گئی اور
وہ واپس پلٹ گئے۔ جو بچے واپس گئے سفر کی ہزاروں صعوبتوں نے اُن کے حوصلے
اور اُمیدیں توڑ دی تھیں اُن کے ہاتھ سے صلبیں گرچکی تھیں۔ وہ دُکھ اور درد
سے لاچار ہوئے۔ جو بچ گئے اُن کے اندر کچھ اور گروہ مل گئے۔ انہوں نے اُن
کویروشلم جانے کے لئے جہازوں کی پیشکش کی۔ اسٹیفن اور دیگر بچوں نے سات
کشتیوں میں سوار ہو کر یروشلم کی طرف سفر شروع کیا مگر وہ لوگ بردہ فروش
تھے انہوں نے بچوں کو یروشلم لے جانے کے بجائے اسکندریہ اور تیونس کے
بازاروں میں لے جاکر بیچ دیا۔(اس زمانے میں افریقی منڈیوں میں سفیدچمڑی
والے بچوں کے دام بہت زیادہ ہوتے تھے !!) ۔ مدتوں بعد سنا گیا کہ بچوں کو
لے جانے وا لی دو کشتیاں راستے ہی میں غرق ہوگئے تھے۔
اِس لشکر کا انجام جو بھی ہوا ہو مگرچرچ کو صلیبی جنگوں کو زندہ کرنے کے
لئے نئی تحریک میسر آگئی۔ نومبر1215عیسوی میں لاٹرن محل میں ایک اعلیٰ
کونسل کا اجلاس ہوا جس میں دنیائے انسانیت کے گوشے گوشے سے بشپ اور پادری
شریک ہوئے۔ پوپ انوسنٹ نے بڑا پُراثر خطاب کیا جس میں صلیبی جنگ کی اہمیت
پر زور دیا گیا۔ اُس نے کہا”اب سفر کا وقت اَن پہنچا ہے۔ اِس مقدس سفر کے
لئے تیار ہو جایئے میری دعائیں آپ کے ساتھ شامل ہوگئی ہیں اور میری روح آپ
کی رفیق ہے۔“
پوپ انوسنٹ جنگ شروع ہونے سے پہلے مرگیا اور یہ لشکر کبھی روانہ نہ ہوسکا۔
800سوسال کے بعد سوات کی جنت نظیر وادی سے ایک بچی اُٹھتی ہے جو نجانے کس
کے لگائے ہوئے زخموں سے چورچور ہے (ہے بھی کہ نہیں؟) اُس کو دیکھنے کے لئے
لوگوں کے ٹھٹھہ کے ٹھٹھہ جمع ہوجاتے ہیں۔ اُس کو خدا کا معجزہ سمجھنے لگتے
ہیں۔ اور خدا کی اِس قدرت پر تعجب کرنے لگتے ہیں کہ وہ جنگ جو وہ کردار،
اخلاقیات، مذہب اور انسانیت کے ہر میدان میں ہارچکے ہیں۔ ایک چھوٹی سی لڑکی
نے ازسر نوزندہ کردی ہے۔ دنیا بھر میں مجلسیں منعقد کی جارہی ہیں جس میں
عزم و ہمت کی اِس عظیم مثال کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے اور اُس کو خدا
کی طرف سے بھیجا ہوا تحفہ قرار دیا جاتا ہے۔ سنگیت بجانے والے محبت کے
اظہار کے لئے اپنے جسموں پر اُس کا نام کندہ کرا کے خدا کی اِس معصوم روح
کے لئے تقدیس اور محبت کے گیت گنگنارہے ہیں۔اُس کے لئے پیرس جیسے مہنگے شہر
میں Standup for Malalaکا دن منایا جارہا ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ اُس کے
ہاتھ میں یسوع مسیح کے مکتوب کے بجائے ڈائری تھمادی گئی ہے۔اللہ کرے اِس کا
انجام آٹھ سو سال پہلے والے انجام سے مختلف ہو ۔ ہمار ے ہاتھ اسٹیفن اور
ملالہ سمیت ان تمام بچوں کے لئے اٹھے رہیں گے جو گمنام اندھیروں میں انجان
مقاصد کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔!! |