ایڈیشنل چیف سیکرٹری اعزاز نسیم ،سپیشلسٹ ڈاکٹرز اور ہوم منسٹری

حضر ت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہؒ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت عمیر بن الملک ؒ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر ؓ نے حضرت عتبہ بن غزوان ؒ کو بصرہ بھیجا تو اُن سے فرمایا
”اے عتبہ ؓ میں نے تمہیں ہند کی زمین کا گورنر بنا دیا ہے (چونکہ بصرہ خلیج فارس کے ساحل پر واقع ہے اور خلیج فارس ہند کی زمین تک پہنچ جاتی ہے اس وجہ سے بصرہ کو ہند کی زمین کہہ دیا) اور یہ دشمن کی سخت جگہوں میں سے ایک سخت جگہ ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اردگرد کے علاقہ سے تمہاری کفایت فرمائے گا اور وہاں والوں کے خلاف تمہاری مدد فرمائے گا میں نے حضرت علاءبن حضرمی کو خط لکھا ہے کہ وہ تمہاری مدد کیلئے حضرت عرفجہ بن ہرثمہ کو بھیج دیں یہ دشمن سے سخت جنگ کرنے والے اور اس کے خلاف زبردست تدبیریں کرنے والے ہیں جب وہ تمہارے پاس جائیں تو تم اُن سے مشورہ کرنا اور ان کو اپنے قریب کرنا پھر (بصرہ والوں )کو اللہ کی طرف دعوت دینا جو تمہاری دعوت کو قبول کرلے تم اس سے اس کے اسلام کو قبول کرلینا اور جو (اسلام کی دعوت سے ) انکار کرے تو اسے ذلیل اور چھوٹا بن کر جزیہ اداکرنے کی دعوت دینا اگر وہ اسے بھی نہ مانے تو پھر تلوار لے کر اس سے لڑنا اور اس کے ساتھ نرمی نہ برتنا اور جس کام کی ذمہ داری تمہیں دی گئی اس میں اللہ سے ڈرتے رہنا اور اس بات سے بچتے رہنا کہ کہیں تمہار انفس تمہیں تکبر کی طرف نہ لے جائے کیونکہ تکبر تمہاری آخرت خراب کردے گا تم حضور کی صحبت میں رہے ہو تم ذلیل تھے حضور کی وجہ سے تمہیں عزت ملی ہے تم کمزور تھے حضور کی وجہ سے تمہیں طاقت ملی ہے اور اب تم لوگوں پر امیر اور ان کے بادشاہ بن گئے ہو جو تم کہو گے اسے سنا جائے گا اور جو تم حکم دو گے اسے پورا کیاجائے گا یہ امارت بہت بڑی نعمت ہے بشرطیکہ امارت کی وجہ سے تم اپنے آپ کو اپنے درجہ سے اونچا نہ سمجھنے لگ جاﺅ اور نیچے والوں پر تم اکڑنے نہ لگ جاﺅ اس نعمت سے ایسے بچو جیسے تم گناہوں سے بچتے ہواور مجھے نعمت امارت اور گناہ میں سے نعمت امارت کے نقصان کا تم پر زیادہ خطرہ ہے کہ یہ آہستہ آہستہ تمہیں دھوکہ دے گی (اور تمہیں تکبر اور تحقیر مسلم میں مبتلا کر دے گی )اور پھر تم ایسے کرو گے کہ سیدھے جہنم میں چلے جاﺅ گے میں تمہیں اور اپنے آپ کو امارت کے ان نقصانات سے اللہ کی پناہ میں دیکھتاہوں (یعنی مجھے اور تمہیں اللہ تعالیٰ امارت کے شر سے بچا کررکھے ) لوگ اللہ کی طرف تیزی سے چلے (خوب دین کا کام کیا ) جب دین کا کام کرنے کے نتیجہ میں دنیا ان کے سامنے آئی تو انہوں نے اسے ہی اپنا مقصد بنالیا لہذا تم اللہ کو ہی مقصد بنانا دنیا کو نہ بنانا اور ظالموں کے گرنے کی جگہ یعنی دوزخ سے ڈرتے رہنا “

قارئین یہ دنیا کا دستو ر ہے اور بالخصوص کم ظرفوں کی دنیاکا رواج ہے کہ جس کسی کے ہاتھ میں طاقت اور اختیار کی تلوار آتی ہے وہ اپنی زد میں آنے والے ہر انسان کو ضرو رتنگ کرتے ہیں اپنی طاقت کا خمار ظاہر کرنے کیلئے یا دوسرے کی کمزوری کو اجاگر کرنے کیلئے کی جانے والی یہ گھٹیا حرکتیں ایک دن منطقی انجام تک پہنچتی ہیں کہ یاتو ظلم سہنے والا تنگ آکر جوابی کارروائی پر مجبور ہوجاتاہے اور یا پھر خالق کائنات کی طرف سے آخری بلاوا آجاتاہے اور انسان سب طاقتیں اور سب اختیار چھوڑ چھاڑ کر آخری منزل یعنی قبر کے گڑھے میں جاکر لیٹ جاتاہے فرعون ،ہامان ،شداد ،نمرود سے لیکر اللہ کے بڑے بڑے نافرمان جو اپنے اپنے زمانوں میں اپنی تعیں خدا بنے بیٹھے تھے آج غور کو کیجئے وہ سب کہاں ہیں اوران کا وہ سب کر وفر اور جاہ وجلال مٹی میں مل کر اب کس حالت میں ہے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر دور میں اور ہر معاشرے میں ہر کسی کا کسی نہ کسی حیثیت میں رب زولجلال امتحان لے رہے ہیں طاقت اوراختیار والوں کو یہ پرکھا جارہاہے کہ وہ اپنی طاقت کس طریقے سے اور کس پر استعمال کررہے ہیں دولت والوں کو آزمایا جارہاہے کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ مال کو وہ اللہ تعالیٰ کے کنبے یعنی اللہ کی پیدا کردہ مخلوق پر خر چ کررہے ہیں یانہیں اور اسی طرح کمزور طبقات کا امتحان اس بات میں ہے کہ وہ مشکلات پر صبر کرتے ہوئے کلمہ شکر ادا کرتے ہیں یانہیں اور اگر کوئی ظالم ان پر ظلم کرنے کی کوشش کرتاہے تو اس کا ہاتھ پکڑنے جیسے مشکل جہاد پر عمل کرتے ہیں یا نہیں غرض دیکھنے والی آنکھ چاہیے ہر گھڑی اور ہر لمحہ آزمائش اور امتحان بن کر گزر رہاہے ۔

قارئین اتنی لمبی تمہید کا مقصد اسی ایک ”چھوٹے سے مسئلے “کے سلسلہ میں ایک ماحول اور سماں باندھنا تھا ہم گزشتہ دس کالمز کی ”سپشلسٹ ڈاکٹرز سیریز “آپ کے سامنے پیش کی تھی جس کا آزادکشمیر سے بالخصوص اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں جہاں اُردوزبان پڑھی جاتی ہے وہاں سے زبردست قسم کا ردعمل اور پزیرائی دیکھنے میں آئی پاکستان سے باہر رہنے والے تارکین وطن کا یہ کہنا تھا کہ انہیں یقین نہیں آرہا کہ ڈاکٹرز جیسے لائق اور پڑھے لکھے طبقے کے ساتھ آزادکشمیر میں اس نوعیت کی حق تلفی کی جارہی ہے کہ سب سے لائق سپشلسٹ ڈاکٹرز کو ترقی دیتے وقت آخری قطارمیں کھڑ اکردیاجاتاہے اور وہ ڈاکٹرز کہ جنہوں نے اس زمانے میں جب ڈاکٹرز ایک نایاب مخلوق ہوا کرتے تھے انہوںنے آزادکشمیر کے دشوار گزار ترین علاقوں میں جاکر عوام کی خدمت کی بیماروں کو صحت یاب کرنے کیلئے سفر اور موسم کی صعوبتیں برداشت کیں جب انہوںنے سپشلسٹ بننے کیلئے فیلو شپ کرنے کی درخواست دی تو ان کی یہ جائز درخواست صرف اس لیے ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی کہ چونکہ آزادکشمیر میں سپشلسٹ ڈاکٹرز چھوڑیں ڈاکٹرز ہی کی قلت ہے اس لیے آپ صرف دوسالہ گریڈنگ کورس کرلیں ان گریڈڈ سپشلسٹ ڈاکٹرز نے جب آرمی سے سپشلائز کرنے کے بعد محکمہ میں 25،30سال گزار لیے اور جب 19گریڈ سے 20گریڈ میں ترقی کا موقع آیا تو ان ڈاکٹرز کے اعصاب پر یہ بجلی گرادی گئی کہ جناب سروس رولز کے مطابق گریڈنگ کوئی ڈگری نہیں ہے اور جو رولز ہیں ان کے تحت سپشلائز یشن کی تعلیم ،مدت ملازمت اور ان سب سے بڑھ کر آپ کی اے سی آر جو آپ سے کئی گنا کم پڑھے لکھے ایک سالہ ڈپلومہ ہولڈر ایڈمنسٹریٹر لکھیں گے وہ یہ فیصلہ کرے گی کہ آپ گریڈ 20میں جاسکتے ہیں یا نہیں ۔

قارئین ہمیں بیرون ممالک لوگوں کے ساتھ ساتھ پاکستان اور آزادکشمیر کے مختلف وزراء،اراکین قومی اسمبلی وقانون ساز اسمبلی ،حکومتی اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے والے معزز لوگوں کے علاوہ آزادکشمیر کی اعلیٰ بیوروکریسی ،سیکرٹریز اور مقتدر شخصیات نے بہت بڑی تعداد میں فون کیے اور ہماری اس کاوش کو ایک جہاد سے تعبیر کیا انہی کالز میں سے ایک فون کال ایڈیشنل چیف سیکرٹری آزادکشمیر اعزاز نسیم کی بھی تھی موصوف نے انتہائی محبت اور شفقت سے ہمیں بتایا کہ وہ ہماری تحریریں انتہائی شوق سے پڑھتے ہیں اور چونکہ اُن کی اپنی ابتدائی زندگی کا کچھ حصہ صحافت کے میدان میں گزرا ہے اور وہ ضیاءشاہد کے ساتھ بیٹھ کر ایک ہی ڈیسک پر 150روپے ماہوار پر 1974میں لاہور میں صحافت کیا کرتے تھے اعزاز نسیم نے بتایا کہ نئے سروس رولز جن پر ایک طوفان کھڑا ہوگیا ہے انہیں مرتب کرنے کا گناہ ان سے سرزد ہواہے اعزازنسیم نے واضح طور پر غلطیوں کی تمام تر ذمہ داری پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن آزادکشمیر کے صدر سردار محمود اور ان کے دیگر چندساتھیوں پر ڈالتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹرز کی نمائندگی کرنے والے یہ لوگ ڈاکٹرز کے طبقے کے ساتھ مخلص نہیں ہیں انہوںنے کہا کہ ان کی اپنی بیگم ڈاکٹر ہیں اورنئے سروس رولز جن میں اعلیٰ تعلیم کے زیادہ نمبر رکھے گئے ہیں ان کی زد میں آکر ان کی اپنی بیگم کی ترقی میں رکاوٹ پیداہوئی لیکن خوشگوار نتیجہ یہ نکلا کہ آج کل ان کی بیگم پی ایچ ڈی کررہی ہیں اعزاز نسیم نے کہا کہ ڈاکٹرز کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی دنیا کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور صرف ترقی اور گریڈ 20حاصل کرنے کیلئے سروس رولز کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہ کریں انہوںنے ہمیں سروس رولز اور عدالتی فیصلوں کا ایک پلندہ بھیجا جس میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ بی 20میں ترقی کیلئے کم سے کم تعلیم کتنی ہے تو اس میں لکھا گیا ہے کہ ایم بی بی ایس یا ایم ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایم فل ،ڈاکٹریٹ ،ایف سی پی ایس ،ایم ایس ،ایم آر سی پی یا ایم آر سی او جی یا اس کے برابر پوسٹ گریجویٹ تعلیم ہونا ضروری ہے ا سکے بعد لرننگ لیول اور ان کی مدت لکھی ہوئی ہے لیول ون پانچ سے چھ سال لیول ٹو اے چھ سے سات سال لیول ٹو بی سات سے آٹھ سال لیول تھری اے آٹھ سے نوسال لیول تھری بی نوسے دس سال اور لیول فور دس سے گیارہ سال بعدازاں ایم بی بی ایس لکھاگیا ہے یہ تمام باتیں اپنی جگہ پر اور آپ کے سروس رولز بھی اپنی جگہ پر ہم نے اعزاز نسیم سے مودبانہ انداز میں ایک معصومانہ سوال کیا کہ ڈاکٹر جو اس قوم کا لائق ترین اور ذہین ترین دماغ ہوتاہے اس کے فیصلے کرتے ہوئے باس کا فریضہ انجام دینے والا بھی کیا ان سے زیادہ پڑھا لکھا انسان ہونا چاہیے یانہیں اور دوسری بات کہ دیگر تمام حکومتی سرکاری شعبہ جات میں ایسا کیوں ہے کہ ایک عام گریجویٹ سیکرٹری بن کر اپنے ماتحت پی ایچ ڈی لوگوں کو کنٹرول کررہاہے اور ان پر حکمرانی کررہاہے کیا سروس رولز صرف قوم کے ذہین ترین دماغوں کی ہتک اور بے عزتی کے لیے بنائے گئے ہیں یا ان کا کوئی اورمقصد بھی ہے آخر کیوں محکمہ صحت میں ایک سالہ ڈپلومہ ہولڈرز محکمہ کے ڈی جی بن جاتے ہیں اور گریڈنگ کرکے زندگی کے 25سال لاکھوں انسانوں کی خدمت کرنے والا گریڈ 20سے محروم کرنے کی منصوبہ بندی جسے سروس رولز کا نام دیاجاتاہے کہ نذر ہوجاتاہے ایڈیشنل چیف سیکرٹری اعزازنسیم نے ہماری اس بات سے کمال مہربانی فرماتے ہوئے اتفاق کیا کہ تمام محکموں میں ایک جیسے رولز ہونے چاہیں اور ہم نے اس کیلئے مسودہ تیار کرنا شروع کردیاہے ۔

قارئین ہم نے اپنے گزشتہ ایک کالم میں زکر کیاتھا کہ وہ ڈاکٹرز جو اس وقت شدید ترین ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں اُن کایہ کہنا ہے کہ ڈاکٹروقار حیدر اور ڈاکٹر شہلاوقار ان میاں بیوی نے مختلف ڈیپارٹمنٹس میں اپنی پی آر اور اچھی سلام دعا کا فائد ہ اُٹھا کر ناجائز ترقی حاصل کی اور ڈاکٹر وقار اس تمام تنازعے کی بنیادی وجہ ہیں ہمیں گزشتہ شب ڈاکٹر وقار کا بھی ایک تفصیلی فون موصول ہوا ان کا یہ کہنا تھا کہ میں قسم اُٹھا کر یہ کہتاہوں کہ میں نے کمال الدین سومرو سابق سیکرٹری ہیلتھ سے کسی قسم کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا اور نہ ہی میری ان سے بہت زیادہ قربت ہے ڈاکٹر وقا رحیدر نے کہا کہ میں آپ کے کالم کی وساطت سے پورے آزادکشمیر کے ڈاکٹرز سے گزارش کرتاہے کہ اگر وہ میرا ساتھ دینے کا عہد کریں تو میں حکومت آزادکشمیرا ورتمام بیوروکریسی سے خود ڈائیلاگ کرکے 40کے 40ڈاکٹرز جو گریڈ 20میں جانے کا استحقاق رکھتے ہیں انہیں ایک ہی حکم نامے کے ذریعے ایک ہی روز میں ترقیا ب کروادوں گا ڈاکٹر وقار کا یہ کہنا تھا کہ میرے بعض دوستوں اور دوست نما دشمنوں نے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی جو کوشش کی اور جس طرح کے گھٹیا اخلاقی نوعیت کے الزامات عائد کیے اس کے باوجود میں ان لوگوں کو نادان سمجھ کر معاف کرتاہوں اور اب بھی ان سے گزارش کرتاہوں کہ اس معاملے کو زاتیات تک مت لے کر جائیں
قارئین یہاں پر ہم بقول غالب ایک بات کہتے جائیں
وہ فراق اوروہ وصال کہاں
وہ شب وروز وماہ سال کہاں
تھی وہ ایک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائی خیال کہاں
ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں طاقت جگر میں حال کہاں
فکر دنیا میں سر کھپاتاہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں
مضمحل ہوگئے قویٰ غالب
وہ عناصر میں اعتدال کہاں

قارئین ایڈیشنل چیف سیکرٹری اعزازنسیم نے جو انتہائی دلچسپ بات ہمیں بتائی ہم آج کے کالم کا اختتام اسی پر کریں گے ان کا کہنا تھا کہ ان کی بیگم ڈاکٹربشریٰ ان سے اس بات پر شدید ترین ناراض رہیں کہ نئے سروس رولز جو ان کے مجازی خدانے اپنے ہاتھوں سے تحریر کیے وہ ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن گئے ہم یہاں پر اعزازنسیم سے گزارش کریں گے کہ اس وقت آزادکشمیر کے سینکڑوں ہزاروں ڈاکٹرز کی بیگمات ہی نہیں بلکہ ان کے بچے اور پورا پورا خاندان تک ان سروس رولز کی وجہ سے پریشان ہیں بے گناہ دلوں کی بدعا مت لیں اور ضد چھوڑ دیں ان تمام ڈاکٹرز کو ایک ہی حکم نامے سے ترقی دے دی جائے اور انہیں گریڈ 20عنایت کردیاجائے اسی میں سب کا بھلا ہے ۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے

مریض نے ڈاکٹر سے کہا ڈاکٹر صاحب میرے دونوں کان بند ہوگئے ہیں کچھ نہیں سن سکتا
ڈاکٹر نے چلا کر کہا آپ کی عمر کتنی ہے
مریض نے جواب دیا کہ نوے سال
ڈاکٹر نے مسکر اکرکہا
”آپ نے اتنا کچھ سن لیاہے کہ اب مزید سننے کیلئے کانوں کی ضرورت نہیں ہے “

قارئین کبھی کبھی ہمیں یوں لگتاہے کہ گریڈنگ کیے ہوئے سپشلسٹ ڈاکٹرز کے ساتھ اختیاررکھنے والے لوگ کچھ ایسا ہی سلوک کررہے ہیں ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374168 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More