اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے

سخت سردیوں میں گرم بستروں میں دبکے چلغوزے اور مونگ پھلی کھاتے لوگوں کو رومان اور اس سے جڑی یادیں بلاشبہ بہت تنگ کرتی ہیں تبھی تو ہر دوسرا شاعر دسمبر میں ہی کسی سے ملنے یا بچھڑنے کی بات کرتا ہے۔ہمیں بھی جوانی کے زمانے کی ایک نظم دسمبر میں بہت یاد آیا کرتی تھی بلکہ اب جب کہ یادیں بھی یاد بنتی جا رہی ہیں یہ نظم گویا ذہن سے چپک کے رہ گئی ہے اور جب بھی دسمبر کا مہینہ شروع ہوتا ہے کسی ورد کی طرح یہ مصرعہ ہونٹوں سے خود بخود ہی اد ہونے لگتا ہے کہ اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے۔نظم کچھ یوں تھی کہ
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
دسمبر کے گذرتے ہی برس اک اور
ماضی کی گھاٹ میں ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبرلوٹ آئے گا
مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا
اسے کہنا ہوائیں سرد ہیں اور
زندگی کے کہرے دیواروں پہ لرزاں ہیں
اسے کہنا شگوفے ٹہنیوں پہ سو رہے ہیں
اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے
اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا
تو کیسے برف پگھلے گی
اسے کہنا کہ لوٹ آئے

شاعر نے شاید اس نظم میں اپنے دل کے درد کو سمو کو اپنے محبوب کو آواز دی ہو ۔اسے شاید امید بھی ہو کہ اس کی یہ درد اور التجا بھری پکار سن کے شاید اس کا محبوب کبھی لوٹنے کا فیصلہ کر ہی لے۔شاعر کو یقین ہے کہ محبوب کی محبت کی گرمی اس منجمد زندگی کو دوبارہ نئی حیات بخش دے گی لیکن ہر کوئی ہمارے شاعر کی طرح خوش قسمت تو نہیں ہوتا ۔کچھ حرماں نصیب ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے محبوب دور بہت دور کہیں ہوتے ہیں۔میں انہی کم نصیبوں میں سے ایک ہوں۔

حالانکہ جب وہ بچھڑا تو میں صرف دس برس کا تھا۔اسے اپنوں کی بے اعتنائی نے مارا تھا۔میں اس چھوٹی عمر میں بھی اس کے ساتھ گھر والوں کے سلوک کو دیکھ کے کڑھا کرتا تھا۔ہمہ وقت سوچتا تھا کہ جب میں بڑا ہو جاﺅنگا تو اسے اپنی جان نذر کروں گا۔اسے سینے سے لگاﺅں گا اس کے سارے غم اپنے نام کروں گا اور اسے اتنا پیار دوں گا کہ وہ ماضی کے سارے غم بھول جائے گا۔لیکن کچھ تو شہر کے لوگ بھی ظالم تھے اور کچھ بقول منیر نیازی اسے بھی مرنے کا بڑا شوق تھا۔وہ خود بھی بڑا باشعور تھا۔اسے ان زیادتیوں کی سمجھ آتی تھی۔وہ ہمیشہ اپنا حصہ پورا لینے پہ اصرار کیا کرتا تھا۔بس وہ رنگ اور جان جثے میں مجھ سے مار کھاتا تھا۔گھر کے بڑے بھی میرا زیادہ خیال رکھتے تھے۔پھر یوں ہوا کہ ایک دن اس نے گھر چھوڑ کے جانے کی بات کہہ دی۔پڑوسیوں نے بھی ابھارا کہ تمہارے مؤقف میں جان ہے۔ہم گھر والے سبھی جانتے تھے کہ کہہ وہ سچ ہی رہا ہے لیکن جیسا کہ ہمارے ہاں کا دستور ہے ۔بجائے اس کے کہ ہم اس کے شکوﺅں شکایتوں اور دکھوں کا مداوا کرتے ہم سبھی گھر والے راشن پانی لے اس پہ چڑھ دوڑے۔لڑائی میں پھر وہی ہوا جو ہوا کرتا ہے۔کس نے کس کے ساتھ کیا کیا یہ ایک طویل داستان ہے۔کون ظالم تھا اور کون مظلوم اسے بھی رہنے دہتے ہیں۔وہ کالی آنکھوں اور لمبی زلفوں والابالآخر ہمارے ستم اور اغیار کی سازش کا نشانہ بنا اور16دسمبر1971 ءکو ہم سے علیحدہ ہو گیا۔

اپنا اپنا ہی ہوتا ہے۔اپنوں کی جدائی مار دیا کرتی ہے۔گھر میں کوئی بھی اسے نہیں بھولا لیکن اس کی اس گھر سے جڑی یادیں اتنی تلخ ہیں کہ وہ ہماری ساری نظموں غزلوں اور نوحوں کے جواب میں بس ایک ہی نگاہِ بے اعتنائی عنائت کرتا ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔پڑوسیوں کی لگائی بجھائی کو شاید اب وہ بھی سمجھنے لگا ہے۔اب اس کی اولاد جوان ہے۔تلخیاں شاید اتنی نہیں رہیں جتنی علیحدگی کے وقت تھیں لیکن پھر بھی زخموں کے نشاں باقی ہیں ۔اپنوں کے لگائے زخم کہیں صدیوں میں جا کے مندمل ہوتے ہیں۔اس کی واپسی کا لیکن اب کوئی امکان بھی نہیں کہ اب ہمارا گھر ہمارے اپنے لئے تنگ ہوتا جا رہا ہے۔بھائی پھر بھائی سے لڑ رہا ہے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے پہ تیارنہیں ۔ایسے میں لگتا ہے کہ جسموں میں سو جانےو الا خون اب کبھی شاید ہی جاگ پائے۔بے حسی اور سرکشی کی برف تلے محبت اور بھائی چارے کے شگوفے شاید ہی کبھی دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ سکیں۔اب شاید ہی کبھی محبت کا سورج طلوع ہو اور زندگی وہی نغمے دوبارہ گنگنانا شروع کرے جو کبھی میں نے اس کی بانہوں میں بانہیں ڈال کے گائے تھے۔اب تو حبیب جالب ہی کا یہ شعر گایا جا سکتا ہے کہ
حسین ا ٓ نکھوں ،مدھر گیتوں کے سندر دیس کو کھو کر
میں حیران ہوں وہ ذکر وادیِ کشمیر کرتے ہیں

ہاں میں اسی حسین آنکھوں اور مدھر گیتوں والے اسی سندر دیس مشرقی پاکستان کا نوحہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں جسے آج کی نوجوان نسل ایک پڑوسی ملک بنگلہ دیش کی حیثیت سے جانتی ہے لیکن جو کبھی میرے جسم کا حصہ ہوا کرتا تھا۔آہ !میرا پیارا مشرقی پاکستان!
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291809 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More