قبر فروش- حصہ اول

پینسٹھ سال گزرنے کے بعد حکومت پاکستان نے اہل کشمیر پر احسان کرتے ہوئے شہید کشمیر نائیک سیف علی جنجوعہ (ہلال کشمیر) کے جنگی اعزاز کو نشان حیدر کے مساوی تسلیم تو کر لیا ہے مگر جو پذیرائی پاکستانی میڈیا کے پروگراموں اور عسکری تقریبات میں نشان حیدر پانے والوں اور ان کے خاندانوں کی ہوتی ہے اس میں شہید سیف علی ہلال کشمیر یا ان کے خاندان کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ حکومت آزاد کشمیر بھی شہیدوں اور غازیوں کے نام پر شرمندہ ہوتی ہے اور کسی شہید کا نام لینا باعث ندامت سمجھتی ہے۔ شہید کشمیر نائیک سیف علی جنجوعہ کا المیہ یہ ہے کہ ان کے نام کے ساتھ ملک، چوہدری یا سردار نہیں لگتا ورنہ ان کی شہادت کا دن پورے آزاد کشمیر میں سرکاری سطح پر منایا جاتا اور آزاد کشمیر کے تعلیمی سلیبس میں بھی ان کا ذکر ہوتا۔ آزاد کشمیر میں جشن بھٹو اور بینظیر ڈے تو منایا جاتا ہے مگر شہدائے کشمیر کے نام کا کوئی دن منانے کی کسی میں جرأت نہیں۔

آزاد کشمیر کی کرپٹ اور ٹن قیادت جوبرادری ازم اور پاؤنڈ مافیا کی پیداوار ہے یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ ان کی زرخرید جمہوریت اور حکومت میں کسی دوسری برادری کے شہید کا نام لیا جائے۔ آزاد کشمیر کے علاقہ کالا ڈب میں ۱۹۷۱ ؁ء کے شہید صوبیدار راجہ بہادر خان تمغہ جرأت کی قبر کے اردگرد قبضہ گروپ نے اس قدر تعمیرات کیں کہ شہید کا مزار نہ بن سکے۔ اسی علاقہ میں کارگل میں شہید ہونے والے کیپٹن راجہ جاوید اقبال شہید تمغہ بسالت کی تدفین کے موقع پر ایک جیالے وزیر نے رکاوٹیں کھڑی کیں اور کئی سال تک شہید کا مزار مسمار کرنے اور قبرستان پر قبضہ کرنے کی کوشش میں رہا۔ شہید کے نام پر آزاد کشمیر کونسل کے فنڈ سے ایک کلومیٹر سڑک بنانے اور شہید کی برسی کی دعا میں شامل ہونے پر کشمیر کونسل کے ایک ممبر کی سرکاری سطح پر سرزنش کی گئی اور آزاد کشمیر کے صدر جنرل انور نے انکوائری آرڈر کردی کہ اس سڑک کو شہید کے نام سے کیوں منسوب کیا گیا ہے۔

جیالے ممبرکو شہید کی برسی کے موقع پر دعا مانگنے کے جرم میں اسلام آباد بھی طلب کیا گیا اور پیپلز پارٹی ہائی کمان نے تنبع کی کہ آئندہ کسی ایسے شہید کی قبر پر دعا نہ مانگی جائے جس کی برادری یا خاندان کا تعلق پیپلز پارٹی سے نہ ہو۔ چار سال تک شہید کی برسی پر ضلعی پولیس سے مدد کی درخواست کی جاتی رہی چونکہ جیالے وزیر کی برادری اس برسی کو برداشت نہ کرسکتی تھی۔ آخر تنگ آکر ضلعی انتظامیہ نے شہید کے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ شہید کی برسی کا اہتمام نہ کریں چونکہ ہم جیالے لیڈر سے آپ کو نہیں بچاپائیں گے۔ شہید کی برسی کی تقریب پر پابندی لگی تو جیالے وزیر کے والد نے تقریب کے لئے بنائے گئے پختہ سٹیج پر دیواریں چنوادیں جوآج بھی اس قبرستان میں موجود جنرل انور کی عیاری اور جیالے وزیر کی شہدائے وطن کے خون سے غداری کا ثبوت پیش کررہی ہیں۔

موجودہ حکومت آزادکشمیر نے صدر زرداری کی خوشیوں کیلئے بھٹو پارک، بینظیر کالج اور کاغذی یونیورسٹیاں بنانے کی بھرمارکر رکھی ہے چونکہ بھٹو صاحب کی وزارت خارجہ کے دور میں آزاد کشمیر کے صدر جناب کے ایچ خورشید کی تذلیل کی گئی اور انہیں عہدہ صدارت سے ہٹا کر دلائی کیمپ میں قید کردیا گیا۔ سردار عبدالقیوم خان نے آزاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے پر اعتراض کیا تو انہیں جیکب آباد جیل میں بند کردیا۔ شمالی علاقوں کی ہیت بدلنے پر کرنل حسن مرزا نے آواز اٹھائی تو وہ بھی بھٹو صاحب کے عتاب کا نشانہ بنے۔مقبول بٹ شہید اور محاذرائے شماری کے قائدین کو ٹانڈہ ڈیم ریسٹ ہاؤس کوہاٹ لے جایا گیا اور طویل مذاکرات، دھمکیوں اور تاحیات آزاد کشمیر کی گورنری کا لالچ دیکر تحریک آزادی سے دستبرداری پر مجبور کیا گیا مگر شہید نے بھٹو صاحب کی تمام پیش کشوں کو مسترد کرتے ہوئے شہادت کا راستہ اپنایا۔ 1965 ؁ء کی جنگ کی ناقص منصوبہ بندی جس کا مقصد فوج کی تذلیل اور کشمیر کا قصہ تمام کرنا تھا بھی بھٹو صاحب ہی کا کارنامہ تھا۔ 1965 ؁ء کی جنگی منصوبہ بندی، وزارت خارجہ کے کردار اور پھر تاشقند میں جنرل ایوب کی تذلیل اور جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پیش بندی پر کرنل سکندر خان بلوچ نے نوائے وقت کے صفحات پر طویل مضامین لکھے مگر کسی جیالے نے اس کا جواب نہ دیا۔ آزاد کشمیر کے ٹن قائدین اپنی تقریروں میں اکثر کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کا خمیر مسئلہ کشمیر کے وجود سے پیدا ہوا۔ عقل کے ان اندھوں سے کوئی پوچھے کہ ایوب خان کی کابینہ سے برطرفی کے بعد جناب بھٹو تو عوامی نیشنل پارٹی میں شامل ہونا چاہتے تھے مگر باچا خان اور ولی خان نے انہیں قبول نہ کیا۔ پیپلز پارٹی تو تحیٰی خان کے مشورے پر بنائی گئی تھی چونکہ یحٰییٰ خان نہیں چاہتے تھے کہ کونسل مسلم لیگ کا وجود برقرار رہے اور گوہر ایوب نے جو ظلم اہل کراچی اور محترمہ فاطمہ جناح کے حامیوں پر ڈھائے اس کا سلسلہ جاری رہے۔ جہاں تک جناب بھٹو کی جوشیلی اور جذباتی تقریروں کا تعلق ہے تو ان تقریروں سے مسئلہ کشمیر کمزور ہوا اور اندھیروں میں دھکیل دیا گیا۔ شملہ معاہدہ اور لائن آف کنٹرول بھی بھٹو صاحب ہی کی تخلیق ہے جس نے مسئلہ کشمیر کی اصل روح کو پامال کیا اور جو مقدمہ خود پنڈت نہرو مجاہدین کشمیر کی قربانیوں اور دلیرانہ کاروائیوں کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ میں لے گئے ،جناب بھٹو اسے واپس نئی دہلی لے آئے تاکہ بھارت اپنی مرضی و منشأ کے مطابق اسے حل کرے۔

2004 ؁ء میں میری کتاب "لینٹھا" ( عقاب کشمیر) شائع ہوئی تو ایک بزرگ کشمیری شاعر نے مجھے طویل خط لکھا۔ یہ خط انتہائی نازیبا الفاظ اور گالم گلوچ سے بھرپور تھا جس میں اس بزرگ شاعر نے کرنل عبدالحق مرزاشہید, محمد حسین لینٹھااور دیگر مجاہدوں اور شہیدوں کی جی بھر کر تذلیل کی۔ اور تو اور آپ نے بیچارے لینٹھا (کشمیری عقاب) کو بھی نہ بخشا اور اسے چوہے اور مرے ہوئے سانپ کھانے والا بزدل پرندہ کہا۔ آپ کے غصے اور نفرت کی انتہا تھی کہ خط کے آخرمیں فرمایا کہ پتہ نہیں آج کل راجپوت ہی کیوں شہید ہو رہے ہیں۔ احتراماً میں نے محترم شاعر کو دس صفحات پر مشتمل جواب دیا اور تاریخی حوالوں سے انہیں ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی کہ نہ تو کشمیری عقاب (لینٹھا) بزدل اور چوہے خور پرندہ ہے اور نہ ہی شہید محمد حسین لینٹھا بزدل اور غدار تھا۔ بزدل وہ لوگ ہیں جو پرمٹوں، پلاٹوں، نوکریوں اور مادی آسائیشوں کے چکر میں شہیدوں کے خون سے غداری کرتے ہیں اور نفرتوں کے بیچ بوکر قوم کو تقسیم کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ جہاں تک راجپوت شہیدوں کا تعلق ہے تو یہ لوگ کسی ٹن سیاستدان کے قبضہ گروپ کے رکن نہیں بلکہ وطن کے رکھوالے ہیں۔ یہ لوگ اس سرزمین کی حفاظت اور عظمت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں جہاں ہمارے محترم شاعر اور ان کی برادری سمیت دیگر برادریاں اور قبیلے چین کی نیند سوتے ہیں۔

جس قوم کے شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی یہ حالت ہو وہ قوم عزت و آزادی کی حقدار کیسے ہوسکتی ہے۔ آزادکشمیر کے شاعر اور ادیب ہی نہیں بلکہ آستانوں پر بیٹھے پیر، مخدوم، ولّی اور علمائے دین بھی سیاسی جماعتوں سے وابستہ سرکاری خزانے اور سیاستدانوں کی کرپشن کی کمائی سے حصہ لیتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت میں ایک علمأ و مشائخ کا ونگ ہے جو ان کرپٹ، بدعنوان اور وطن فروش ڈیلروں کے قصیدے پڑھتے ہیں اور عوام کو دینی اور روحانی سطح پر بلیک میل کرتے ہیں۔ پچھلے عام انتخابات میں ایک گدی نشین پیر اور خود ساختہ عالم دین نے اپنے مریدوں کو قرآن و حدیث کے حوالے دیکر ڈرایا اور ایک شرابی وزیر کو ووٹ دلوانے اور ان کے صلے میں آزادکشمیر اسمبلی میں علمأ و مشایخ کیلئے مخصوص ایک سیٹ پر قابض ہونے میں کامیاب ہوگیا۔

آزاد کشمیر کی سیاسی جنتا کی ذہنی پستی ، اخلاقی گراوٹ اور بزدلی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صدر زرداری نے گلگت بلتستان کو الگ صوبہ بنایا اور اب آزادکشمیر کو پاکستان کاصوبہ بناکر بھٹو صاحب کی کشمیر پالیسی کو دوام بخشنے کی تیاری ہورہی ہیں۔ حکومت پاکستان اپنے داخلی مسائل کو یکسر بھول کر دن رات بھارت نوازی میں لگی ہے۔ پرائیویٹ میڈیا کا ایک سیکشن اور کچھ عقل کے اندھے سیاستدان، دولت اور جھوٹی شہرت کے پجاری صحافی اور خود ساختہ دانشور دن رات امن کی آشا کے گیت گارہے ہیں۔ زرداری حکومت بھارت کو براستہ واھگہ افغانستان تک رسائی کا سرٹیفکیٹ جاری کر چکی ہے جس کی تقریب ہیلری کلنٹن نے اپنی موجودگی میں منعقد کروائی۔ زرداری ٹولے کو پتہ ہے کہ افغانستان میں کوئی ایسی چیز پیدا نہیں ہوتی جس کے بغیر بھارتی عوام مرے جا رہے ہوں جبکہ افغان عوام کی خوراک، رہائش اور صحت کی تمامتر ضروریات پاکستان پوری کرتا ہے۔ گندم، چاول، پھل، سبزیاں، چینی اور خوردنی تیل کے علاوہ مال مویشی تک سمگل ہوکر افغانستان جاتے ہیں اور جو مال پرمٹ کے ذریعے جاتا ہے اس کے علاوہ ہے۔ چونکہ پچاس فیصد سے زیادہ افغان پاکستان ہی میں رہتے ہیں اس لئے سمگل شدہ پاکستانی اشیاء افغان تاجر اور سمگلر جنہیں پاکستانی حکمران طبقے کی آشیرباد حاصل ہے، یہ سامان سنٹرل ایشیأ اور روس تک بجھواتے اور کروڑوں ڈالر کماتے ہیں۔ زرداری ٹولے کو پتہ ہے کہ افغانستان اور بھارت کے درمیان براستہ واھگہ تجارت ملکی سالمیت کے خلاف ہے مگر اس کے باوجود یہ ٹولہ اغیار کی پذیرائی کیلئے ملکی سالمیت اور قومی غیرت کو داؤ پر لگاتے ہوئے ہے۔

سبھی جانتے ہیں کہ امریکہ اپنا ملٹری ہارڈوئیر افغانستان سے بھارت منتقل کر رہا ہے اور وہ جنگی سازوسامان جو روائتی طریقے سے بھارت نہیں بھجوایا جاسکتا وہ پہلے افغانستان بھجوا کر پاکستان کے راستے بھارت بھیجا جاتا ہے۔ اسی طرح بھارت افغانستان میں تعینات اپنی دو ڈویژن فوج جو پاکستان کے خلاف برسرپیکار ہے اسے پاکستان ہی کے راستے سپلائی بھجواتا ہے۔ افغانستان میں موجود پچیس سے زائد کونسل خانے جو سب کے سب پاکستانی سرحد پر قائم کیے گئے ہیں در حقیقت وہ ٹرینگ کیمپ ہیں جہاں پاکستانی طالبان، بلوچ نیشنل آرمی اور دیگر گروپوں کو تربیت دی جاتی ہے جو کراچی سمیت پاکستان کے دوسرے شہروں میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرتے ہیں۔ جس ملک کی حکومت ہی عوام دشمنی اور ملک کی بربادی پر عمل پیرا ہو اور میڈیا کا ایک بڑا حصہ اور دانشوری کے دعویدار مادہ پرست صحافی اس کی پالیسیوں پر ڈھول بجانے کی تنخواہ لیتے ہوں اسے بیرونی دشمنوں کی کیا ضرورت ہے۔------ جاری ہے
Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 76433 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More