دور جاہلیت

ہفتہ رفتہ کراچی میں بد امنی کی بھینٹ چڑھنے والوں درجنوں بے گناہوں میں مفتی اسماعیل اور ساجد عزیز بھی شامل تھے۔ دونوں کاشمار اپنے شعبہ کے ماہرین میں ہوتاتھا۔مفتی اسماعیل پندرہ سال سے جامعہ احسن العلوم میں درس وتدریس اور تصنیف وتالیف میں مشغول تھے، مدینہ یونیورسٹی سے بھی تعلیم حاصل کرچکے تھے۔ساجد میٹروول سائٹ کے علاقے میں رہائش پذیر تھے۔ ابتدا سے ہی انہیں مسجد ومدرسہ سے قلبی لگاؤتھا۔ اکثر اذان دیتے، مسجد کی صفائی کرتے یامسجد کے دیگر امور نمٹاتے نظر آتے۔ تقریباً بیس سال سے وہ پولیس میں تھے۔پولیس دوستوں کے ساتھ ہم نشینی کے باجود رشوت خوری سے دور تھے۔یہی وجہ تھی کہ مہینہ سے پہلے ہی ان کی جیب خالی ہوچکی ہوتی اور حلال پیشہ سے منسلک دوستوں سے قرض مانگتے جوتنخواہ لیتے ہی لوٹادیتے۔والدین ، بہنوں اور چھوٹے بھائی کی کفالت کی ذمہ داری بھی اپنے کاندھوں پر اٹھائی تھی۔اپنے عہدے کا کبھی ناجائز استعمال نہ کرتے بلکہ رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے حسن سلوک کرتے ہوئے اپنا حق تک چھوڑدیتے۔

ایک مرتبہ ان کے بڑے بھائی کی موٹر سائیکل چوری ہوگئی، بھائی کافی پریشان تھے،ساجد نے جلدہی چور کا پتہ چلا لیا۔ لیکن بڑے بھائی اس وقت حیران رہ گئے جب انہوں نے کہا میں چور کانام نہیں بتاسکتا۔ حیرت سے وجہ پوچھی گئی تو ان کاجواب تھا’’چورکوئی اور نہیں ہمارے پڑوسیوں میں ہی ہے، ایک موٹر سائیکل کے لیے پرانے پڑوسیوں سے تعلقات خراب نہیں کرسکتے، آپ متبادل موٹر سائیکل کابندوبست کرلیں‘‘۔

ساجد بھائی ہمارے علاقے کے رہنے والے تھے ، انہیں جرائم پیشہ افراد ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے،ہمیشہ ان کی گرفت کرتے نظر آتے، منشیات فروشوں نے ان پر لالچ ، دھونس، دھمکی ہر قسم کے ہتھکنڈے آزمالیے تھے لیکن وہ راہ حق سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کوتیار نہیں تھے۔ ان کاکہناتھاموت برحق ہے ، کسی بھی وقت آسکتی ہے توکیوں نہ ایمانداری کو سینہ سے چمٹائے موت کوگلے لگاکر رب کے حضور حاضری یقینی بنائے جائے۔

مفتی اسماعیل اور ساجد عزیز کی شہادت کادرد سینہ میں لیے عشاء کی نماز سے فارغ ہواتو مسجد میں جامعہ بنوریہ سائٹ کراچی کے استاذ الحدیث مولاناعزیزالرحمن صاحب کے بیان کااعلان ہوا۔ مولانا کابیان سننے سے تعلق رکھتاہے۔مولانا کے بیان سے پہلے بھیمستفیدہونے کا موقع ملاتھا۔قرآن وحدیث، صحابہ کرامؓ کے واقعات اور تاریخ ان کے بیان کاجزء لاینفک ہے۔انداز اتنا دلنشین کہ بس وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔۔۔۔۔ انہوں نے فرمایاعہدنبوت سے قبل کے زمانہ کو دورجاہلیت کہاگیاحالانکہ اس دور میں قتل وغارت بھی عروج پر تھی، چھوٹی سی بات پر برسوں ایک دوسرے کاخون بہایاجاتاتھا لیکن اس دور کو قتل وغارت سے موسوم نہیں کیاگیا۔ ڈاکہ زنی عام تھی، قافلہ کاپرامن سفر کرنامحال تھا، لیکن اس دور کی نسبت چوری اور ڈکیتی کی طرف بھی نہیں کی گئی۔ بیٹیوں کو اپنی عزت پر دھبہ سمجھتے تھے، جس گھرانے میں لڑکی کی پیدائش ہوتی اسے منحوس گرداناجاتاتھا، تھوڑی بڑی ہونے پر زندہ درگور کردیتے تھے لیکن اس دور کانام اس برائی سے بھی نتھی نہیں۔ آخر تمام برائیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے دور جاہلیت ہی کیوں کہاجاتاہے؟۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جب علم آتاہے تو تمام برائیوں کو اکھاڑ پھینک دیتاہے۔ نبی آخرالزمان صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے ساتھ قرآنی علوم لاکر ان ساری برائیوں کی بیخ کنی فرماگئے۔مولانا نے مزید فرمایاآج ہم نے منبع علم، قرآن مجید سے کنارہ کشی اختیارکرلی ہے۔اﷲ تعالیٰ کاکلام قصاص میں انسانوں کی زندگی کا فلسفہ بیان کرتاہے۔ آج اس قرآنی علم پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے کراچی میں روز درجن بھر افراد موت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں، مفتی اسماعیل اور ساجد عزیز جیسے انسان دوست لوگ اندھی گولی کانشانہ بن رہے ہیں۔اگر ہم اپنے معاشرہ کو قرآنی علم سے منور کردیں تو یقیناًہم دور جاہلیت کی برائیوں سے محفوظ و مامون ہوجائیں گے۔
Ibrahim Hussain Abidi
About the Author: Ibrahim Hussain Abidi Read More Articles by Ibrahim Hussain Abidi: 60 Articles with 66620 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.