ایک اندوناک واقعہ۔۔۔

لکھاری کا قلم کسی کی ذات کی پستی کو ثابت کرنا یا کسی کی ذات کی بڑائی کو بتانا نہیں بلکہ معاشرے میں اچھے افکار ،احساسات و جذبات اور تعمیری واخلاقی سوچ کوپروان چڑھانا ہے۔آج ایک واقعہ میں قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں جسکا مقصد معاشرتی بُرائیوں کو عوامی نظر میں قابل نفرت ثابت کروا کے اِن کا خاتمہ کروانا ہے۔یہ واقعہ بہت دلخراش ہے جس سے صرف درد ہی چھلکتا ہے۔اِس واقعے کا بوجھ میں کافی عرصے سے اپنے تن بدن پر اٹھائے پھرتا ہوں مگر اِس کی روز با روز کی مشقت اب مجھے سے اٹھائی نہیں جاتی ۔واقعہ کچھ اِس طرح ہے کہ جناب طاہر صاحب شوز سٹور والے ظفروال سے پکوانوں اور زندہ دللان کے شہر میں کاروباری غرض سے گئے اِن کا بیٹا بھی اِن کے ساتھ ہم سفر تھا۔بس با خیریت لاہور پہنچ گئی۔اول مسافروں میں طاہر صاحب بس سے نیچے اترے۔ابھی وُہ اتر کر کچھ قدم بڑھے ہی تھے کہ ایک تیز رفتار موٹر سائیکل جس پر تین نوجوان سوار تھے نے طاہر صاحب کو بُری طرح ہِٹ کر دیا۔کیونکہ ایک تو موٹر سائیکل کی رفتارکافی تیز تھی اور اُس پر بیٹھے سواروں کا وزن بھی خاصا تھا جسکا اثر طاہر صاحب پہ ایسے ہوا کہ ہٹ کرتے ہی وُہ گرے اور بے ہوش ہو گئے۔طاہر صاحب کا وزن بھی اپنی مثال آپ تھا مگر توند میں تو موصوف پہلوان طبعیت رکھتے ہیں تو موٹر بائیک اِن کے ساتھ ٹکراتے ہی ایک دھچکے سے رک گئی ۔طاہر صاحب کی بے جان حالت دیکھ کر وُہ لڑکے منظر سے جن کی طرح غائب ہو گے۔اتنے میں لوگ اکٹھے ہو گئے اور اُسی ریِت کے تحت طاہر صاحب ہسپتال پہنچا دیئے گئے جس ریِت کے تحت زخمیوں کو ہسپتال میں پہنچایا جاتا ہے۔میاں نواز شریف ہسپتال والوں نے طاہر صاحب کی حالت دیکھ کر ایک انجکشن پر اکتفاءکرتے ہوئے میو ہسپتال کی راہ دکھا دی۔جو اُس وقت موصوف کے بیٹے کے لیے انتہائی پریشان کن لمحات تھے۔خیر بیٹے نے پروفیسر عامر منہاس سول لائینز والے اور مس لبنی شمیم شاد باغ کالج کو اطلاع کی جو کچھ ہی دیرمیں مریض کے پاس آن پہنچے ۔میو ہسپتال والوں نے پہلے تو مریض کو داخل کرنے سے انکار کر دیا پھر موٹی سفارش کے بعد ڈاکٹر صاحب کے رو با رو پیش کیا گیا۔ڈاکٹر صاحب نے چیک کیا اور فوری سی ٹی سکین کا کہا۔اِس کے بعد مریض چوبیس گھنٹے مکمل بے ہوش رہا۔جب ہوش آیا تو سر کے درد کی شدت نے مریض کو آن گھیرا۔درد بھی ایسی کہ کوئی دیکھے تو اللہ توبہ کہہ اُٹھے۔یہ صورتحال مریض کے رشتہ داروں کے لیے پریشان کن تھی۔بحر حال اِن کے بھائیوں نے نیوروسرجن سے رابطہ کیا جس نے اِن کا مکمل معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ اِن کے سر کا ایک حصہ مکمل ڈیمج ہو چکا ہے۔کئی ایام تک ہسپتال رہنے اور قرب و عذیت سہنے اوردرد کے گہرے گرداب سے نکلنے کے بعد انہیں گھر لایا گیا۔جہاں انہیں دو ماہ مکمل ریسٹ کروایا گیا۔کیونکہ طاہر صاحب کا کاروبار زیادہ سیع نہیں اور پھر اُسی حساب سے آمدنی ہوتی ہے۔تو اِن کے بیمار پڑتے ہی معاشی مسائل نے اِن کے قریب گھیرا تنگ کر لیا۔مگر اِن کے اچھے بہن بھائیوں نے اِس پریشانی کو اپنا سمجھ کر مریض کی یہ تنگی بھی دور کی اور محسوس تک نہ ہونے دیا۔وگرنہ تندرست اور پیسے والے کے سب یار ہوتے ہیں بیمار اور غریب کو کوئی نہیں پوچھتا۔اب یہ واقعہ جو میں چند پیراگراف میں سمیٹا ہے وُہ حقیقت میں انتہائی دردناک اور قابل رحم تھا۔جو پریشانی مریض کے رشتہ داروں نے سہی کوئی اور شاید ہی اِس کو سمجھ پائے۔مگراِس تحریر میں ایک مقصد پنہاں ہے جوخودچیخ چیخ کرایک چھوٹی سی فیملی کے اکیلے کمانے والے کے ساتھ ہونے اِس اندوناک واقع کو پیش کر رہی ہے۔یہ واقعہ یہ ثابت کرنا چاہ رہا ہے کہ کیا قصور تھا اِس بے ضرر شخص کا جو اپنی اکلوتی بیٹی کی خوشیوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے تگ و دو کر رہا تھا۔کیوں اپنے پاؤں پہ چل کے جانے والے کو ظاہری سہاروں کے پلے ڈال دیا جاتا ہے۔کیا جرم کبیرا کیا تھا اِس شخص نے جو جانوروں کی طرح اِسے بے ہوش سٹرک پر چھوڑ کر بھاگ گئے۔آخر ہم کیوں ایک اورقیامت وقت سے پہلے اِس زمین پر باپا کروانا چاہتے ہیں۔اِس قدرسخت دل و دماغ کے حامل ہم بھی ایسے وقت میں کس سے امید خیر رکھیں۔کیا یہ نوجوانوں کا عمل مسلمانیت کے دائرہ میں آتا ہے۔کیا خدا عظیم نے یہ جوانی کسی غریب کا گھر اُجارنے کے لیے دی ہے۔کیا اسلامی تعلیمات اور اولیا اللہ جن کی پیروی ہم لوگ کرتے ہیں کیا وُہ یہ سبق دیتے ہیں۔نہیں ۔تو پھر ہم کیوں روزانہ اپنے سڑکوں ،گلی ،محلوں میںایسی بے رحمی کا مظاہر ہ کرتے ہیں۔بھائی چارگی سے دوری کا یہ عالم ہے کہ سڑکوں پر پڑے بے ےارومددگار افراد کو روزانہ دیکھا اَن دیکھا کرنا ہمارا معمول عام بن چکا ہے۔آخر یہاں کا قانون تو سو چکا جو اُن نوجوانوں کو نشان عبرت نہ بنا سکا ۔ایسے کئی طاہر روزانہ سڑکوں پر پڑے نظر آتے ہیں جن میں سے کم ہی ایسے ہوتے ہیں جو بچ سکیں یا جنہیں امداد ملی اور وُہ ہسپتال پہنچا دیے گئے۔ہاں مگر اخلاق کے ضابطے روزانہ چاک چاک ہوتے ہیں۔مگر ہر ایک کو اپنی پڑی ہے یہ یاد نہیں کہ ہماری تھوڑی سی ہمدرددی سے کسی معصوم کی جان بچ سکتی ہے۔اور یہ دُنیا جنت کا نمونہ بن سکتی ہے اِس لیے کئی قصے ،کہانیاں ،فلمیں ،ڈرامے اور واقعے ہم دیکھتے سُنتے ہیں مگر فائدہ تب ہوگا جب اخلاقی تسلسل قائم ہو گا جب پُرانی ریِت کو پست کر کے اعلی اخلاق کے وسیع سمندر میں غوطہ زن ہوا جائے گا۔یہ سمجھ عقل و شعور کی بات ہے جو عقل والوں کے لیے بڑا سبق ہے۔
usama khamis minhas
About the Author: usama khamis minhas Read More Articles by usama khamis minhas: 15 Articles with 9609 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.