مسجد محبت خان پشاور کے مغل
دور کے گورنر محبت خان کے نام پر تعمیر ہوئی۔شہنشاہ شاہجہاں اور شہنشاہ
اورنگزیب کے دور میں تعمیر شدہ یہ مسجد ایک طویل صحن دو بلند میناروں اور
تین گنبدوں پر مشتمل ہے۔ مسجد کے صحن میں ایک حوض بنایا گیا ہے جس کے اطراف
دو بلند قامت مینار اور تین چھوٹے گنبد اس کی خوبصورتی اور پاکیزگی میں
اضافہ کرتے ہیں۔مختلف گہرے رنگوں سے بنے دلکش جیومیٹریکل ڈیزائن اُس دور کے
کاریگروں کی مہارت اور محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
15 دسمبر بروز ہفتہ جب ہم بائی روڈ اسلام آباد سے پشاور پہنچے تو دن کے ایک
بجے تھے۔ یونیورسٹی روڈ پر قائم ایک ہوٹل میں اپنا سامان رکھنے کے بعد ہم
سب سے پہلے مسجد محبت خان پہنچے ۔اور پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ کی
مشہور مسجد کے جاہ وجلال کا نظارہ کرنے کے بعد پشاور کی پُر پیچ ا ور
نسبتاً تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے قصہ خوانی بازار کی یادگا ر پر پہنچے۔ یہاں
12 اپریل 1930 کو برٹش دور کے فوجیوں کے حکم سے پر امن جدو جہد کرنے والوں
کو گولیوں سے بھون دینے والے انحراف کرنے والوں کی یادگار بنی ہے۔
قصہ خوانی بازار پشاور کا مشہور اور تاریخی بازار ہے۔ یہ بازار پہلے پہل
دور دراز کے علاقوں سے آئے تاجروں کی جائے طعام و قیام بھی رہا ہے ۔ اس
بازار کی شہرت کی وجہ یہاں کے روایتی قہوہ خانوں میں پیالوں میں پیش کی
جانے والی عمدہ سبز اور سیاہ چائے ، بڑی بڑی کڑھائیوں میں تلے جانے والے
چپلی کبابوں کی اشتہا انگیز خوشبو ، سالم بھنی مرغیوں کا لذیذ چرغہ اور خشک
میوہ جات کی اعلیٰ کوالٹی ہے۔ جب اس بازار میں مختلف علاقوں ، ثقافتوں ا ور
مزاجوں کے تاجران یہاں کے مہمان خانوں میں قیام کرتے تو اپنے اپنے علاقوں
اور ملکوں کی لوک داستانوں ، اور حالات و واقعات، قصے اور کہانیوں کی شکل
میں بیان کرتے۔ اور یہیں سے اس بازار کا نام قصہ خوانی بازار پڑا۔ دوسرے
علاقوں سے آئے ہوئے تاجروں کی محضوض کرنے کے لئے یہاں پیشہ ور قصہ خوان بھی
موجود رہا کرتے تھے۔ اس بازار کے پیشہ ور قصہ گو داستان گوئی میں مہارت
رکھتے تھے۔ یوں قصہ خوانی بازار کو غیر تحریر شدہ تاریخ کا مرکز بھی مانا
جاتا ہے۔ کئی انگریز مصنفوں نے اپنی تحریروں میں اس بازار کو ایشیا کا
پکاڈلی بھی قرار دیا ہے۔ گو کہ اب اس بازار کا قصہ گوئی کا زمانہ ماضی ہو
چکا ہے مگر اس کا ماحول اب بھی روائتی ہے ۔ یہاں مختلف قبیلوں اور علاقوں
سے تعلق رکھنے والے اب بھی سبز قہوئے کا مزہ لیتے ہوئے اور مقامی تاجروں سے
گھنٹوں گفتگو کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ مقامی خواتین اپنے روائتی
لباسوں میں ملبوس دکھائی دیں۔ اندر شہر کے صرافہ بازار میں سونے کی دکانوں
پر اس قدر زیورات دکھائی دیئے کہ آنکھیں سونے کی چمک سے عملاً خیرہ ہو
گئیں۔
ہندوستان اور پاکستا ن میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے شاہ رخ خان اور دلیپ
کمار کو کون نہیں جانتا اور ان میں سے بہت سوں کو یہ معلوم نہیں ہو گا کہ
ان دونوں مشہور اداکاروں کی بنیادیں خیبر پختونخواہ پشاور میں پیوستہ رہ
چکی ہیں۔ اس کے علاوہ مشہور اداکار راج کپور کے والد پرتھوی راج کی آبائی
تین منزلہ حویلی بھی اسی شہر میں موجود ہے۔ راج کپور کا خاندان 1930ء میں
یہاں سے منتقل ہو گیا تھا مگر یقینا اب بھی پشاور ان کی یادوں میں بسا ہوا
ہو گا ۔ مشہور و معروف اداکارہ بھی پشاور سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس کے علاوہ
1975ء کی ریکارڈ توڑ کامیاب فلم شعلے کی ولن امجد خان بھی اسی شہر کے باسی
تھے۔ یہی شہر بھارتی اداکار ونود کھنہ کا جائے پیدائش بھی ہے۔ انیل کپور
سریندر کپور بھی اسی علاقے کے رہائشی تھے۔ یقینا اس علاقے کی ہواﺅ ں اور
فضاﺅ ں میں کچھ ایسی دلکشی اور خوبصورتی بسی ہوئی ہے جس نے یہاں کے لوگوں
کو ایسی اٹھان اور خوبصورتی عطاکی جو پردئہ اسکرین پر تہلکہ مچانے کی
صلاحیت رکھتی ہیں ۔ آج بھی پشاور حسن و خوبصورتی کا مرکز ہے۔ یہاں کے مرد و
زن اونچے قد اور سرخ وسفید رنگت کے حامل خوبصورتی کی اعلیٰ مثال ہیں۔ سخت
محنت اور جفا کشی میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں۔ گندھارا تہذیب کے دور میں
اس شہر کا قدیم نام پُرش پور تھا جو گند ھارا کا دارلحکومت بھی رہا ہے۔
شہنشاہ اکبر کے زمانے میں پُرش پور تبدیل ہو کر پشاور ہو گیا۔ شہر کی پرپیچ
گلیوں میں چلتے ہوئے ہم تو شاید کبھی نہ تھکتے ۔ ہمارا ارادہ یہاں کا عجائب
گھر دیکھنے کا بھی تھا۔ مگر میر ی چھوٹی بیٹی پیدل زیادہ پیدل چلنے کی وجہ
سے تھک چکی تھی لہذا ہم نے مزید گھومنے کا ارادہ ملتوی کیا اور ہوٹل واپس آ
گئے۔
کھانا کھا نے کے بعد میں نے سوچا کہ پشاور شہر کے بارے میں لکھوں کہ یہاں
کی پہچان صرف قدامت پسندی اور دہشت گردی ہی نہیں بلکہ یہاں اور خوبصورتی ،
حسن اور روایات کے ساتھ ساتھ امن و امان بھی پایا جاتا ہے۔ ابھی میں ان
باتوں کو دائرہ تحریر میں لانے کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ ایسا محسوس
ہوا کے درودیوار لرز اٹھے ہوں۔ کھڑکی کے شیشے اس قدر ذور سے جھنجھنائے کہ
ایسا لگا دل کی دھڑکنیں بند ہو جائیں گی۔ کمرے سے باہر عجیب افراتفری اور
لوگوں کی بھاگنے دوڑنے کی آوازیں آنے لگیں۔ہم سب اٹھ کر کھڑے ہوئے ہی تھے
کہ ایک دوسرے دھماکے کی آواز اسی شدت کے ساتھ آئی۔ میری بیٹی دوڑ کر مجھ سے
لپٹ گئی۔ خوفزدگی اس کے اور ہمارے چہروں سے عیاں تھی۔ ٹی وی کھولنے سے
معلوم ہوا کہ ہمارے ہوٹل کے قریب ہی واقع پشاور کے باچا خان ائرپورٹ پر
میزائل پھینکے گئے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم اس حملے سے براہِ راست متاثر
نہیں ہوئے مگر جو متاثر ہوئے وہ بھی تو ہمارے اپنے ہی تھے۔ تقریباً آٹھ نو
گھنٹوں کے لئے سارا پشاور مفلوج ہو کر رہ گیا۔ جن گھروں میں تقریبات تھیں
ان کی ذہنی کوفت ایک طرف ۔ جن کے گھروں میں کوئی میڈیکل ایمرجنسی ہو گی ان
کی بے بسی کا کیا عالم ہو گا ؟ چھ پاکستانی شہید اور 40 سے زائد زخمی ہو
گئے اُن کے نقصانات کا تخمینہ لفظوں کے ڈھیروں سے نہیں لگایا جا سکتا۔
پشاور ائرپورٹ پہ آنے والی تمام پروازوں کے رخ دیگر شہروں کی طرف موڑ دیئے
گئے۔ جولوگ اُس وقت ائرپورٹ پر تھے وہ صبح تک کے لئے وہیں محصور ہو کر رہ
گئے۔ بیرون ممالک سے پشاور آنے والے مختلف شہروں کے ہوائی اڈوں پر پھنس کر
رہ گئے۔ ہماری فلائٹ بھی پی آئی اے کو ملتوی کرنی پڑی۔ سارے پاکستان کی طرح
ہم بھی عام اور بے گناہ پاکستانیوں کے لئے دعا گو ہیں ۔
الٰہی دستِ کرم سے حفاظتیں فرما !
ہم آئینے ہیں مگر پتھروں میں رکھے ہیں |