تلخی نہ ہو تو شیرینی کی اہمیت
کا اندازہ کِسے اور کیسے ہو؟ دُکھ نہ ہو تو سُکھ کا مزا کوئی کیسے جان پائے؟
محرومی کا احساس نہ ہو تو بہت کچھ پانے کی لذت کا حقیقی اندازہ کیونکر ہو
پائے؟ زندگی تضادات کی کارفرمائی کا دوسرا نام ہے۔ اپنے ماحول میں اور اُس
سے باہر جس طرف بھی نظر دوڑائیے، تضاد ہی تضاد دِکھائی دے گا اور مزے کی
بات یہ ہے کہ مزا تضاد ہی میں ہے! تمام انگور میٹھے ہوں تو مٹھاس کی اہمیت
باقی نہ رہے۔ اور اگر تمام انگور کھٹّے ہوں تو کھٹّے پن کا لطف ہی ختم ہو
جائے!
پاکستانی معاشرہ بھی انگور کے دانوں کی طرح کھٹّا اور میٹھا ہے۔ کہیں افلاس
ہے تو ایسا کہ پیٹ بھر کھانا بھی مشکل ہی سے میسر ہو پاتا ہے۔ اور اگر کہیں
دولت کی ریل پیل ہے تو اِس بلا کی ہے کہ دنیا کی ہر نعمت قدموں میں بچھی
جاتی ہے!
|
|
جنہیں زندگی اور تقدیر طاق نسیاں پر رکھ کر بھول گئی ہے اُن کے حصے میں صرف
محرومی رہ گئی ہے۔ اور جن لوگوں پر زمانے اور خوش بختی کی نظر پڑ گئی ہے وہ
سب کی آنکھوں کے تارے ہیں اور تمام آسائشات و تعیشات ان کے ہاتھوں کا میل
ہوکر رہ گئے ہیں!
ہم انتہاؤں کے درمیان جی رہے ہیں۔ کہیں افلاس ہے تو ایسا کہ کِسی حد کو
ماننے پر آمادہ نہیں اور کہیں امارت ہے اور خوش حالی ہے تو ایسی کہ ہر
انتہا کو بھول بیٹھی ہے!
اللہ نے کائنات کو تضادات سے مُزیّن کیا ہے۔ کائنات کا حسن متضاد اشیاءکے
تفاعل اور تصادم سے ہے۔ مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر معاملے میں
تضاد کو زندگی کا حسن سمجھتے ہوئے برقرار رکھنے کی کوشش فرض سمجھ کر کی
جائے! افلاس اور امارت ہمارے معاشرتی اور معاشرتی ڈھانچے کے اجزا ہیں۔ مگر
خیر، اِس سے یہ نتجہ اخذ نہ کیا جائے کہ افلاس کو ہر حال میں محفوظ رکھنے
پر توجہ دی جانی چاہیے! جن کے ہاتھ خالی ہیں اُنہیں بھی زندگی اور اُس سے
جُڑی ہوئی ہر نعمت میسر ہونی چاہیے۔ قابل غور اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ
جن بچوں کو زندگی نے کچھ خاص نہیں نوازا وہ بھی کوئی شِکوہ کئے بغیر چہرے
کو مُسکراہٹ اور دِل کو تشکر کے احساس سے سجائے رہتے ہیں! جن بچوں کو
رُوکھی سُوکھی میسر ہے وہ بھی مُسکراکر یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہمیں ہر حال
میں خوش رہنا چاہیے اور تقدیر و حالات کی سِتم ظریفی کا ماتم کرتے رہنے پر
اللہ کا شکر ادا کرکے ہنستے، مُسکراتے ہوئے جینے کو زندگی کی بنیادی ترجیح
بنانا چاہیے!
ملک کے بڑے شہروں اور دیہی ماحول کے درمیان تفاوت اور تضاد نمایاں ہے۔ بڑے
شہروں کے اندر بھی کئی علاقے ایک دوسرے کی مکمل ضد ہوتے ہیں۔ کہیں زندگی نے
سب کچھ پوری فراخ دِلی سے تقسیم کیا ہوتا ہے اور کہیں کِسی کو ڈھنگ سے دو
وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہو پاتی۔ معاشرے مں پایا جانے والا یہ تضاد
زندگی کا حصہ ضرور ہے مگر ہمارے لیے کچھ کرنے کی تحریک بھی تو رکھتا ہے۔ ہم
جو کچھ اپنے ماحول میں دیکھ رہے ہیں وہ سب کا سب ایسا نہیں کہ محفوظ رکھا
جائے۔ افلاس اور امارت کے درمیان فرق کم ہو، اِس کے لیے خصوصی اقدامات
ناگزیر ہیں۔ زندگی نے جنہیں زیادہ نہیں نوازا کِسی نہ کِسی طور اُن کی بھی
اشک شُوئی ہونی چاہیے۔ زندہ رہنے کی کوئی نہ کوئی قیمت ضرور ہوتی ہے مگر یہ
قیمت ایسی اور اِتنی نہ ہو جس کے ادا کرنے کی فکر میں خود زندگی ہی کہیں گم
ہوکر رہ جائے! بہترین کھانے جن کے حصے میں آئے ہیں اُنہیں یاد رکھنا چاہیے
کہ بہتوں کو دو وقت کی روٹی بھی آسانی سے میسر نہیں۔ جن کے چولھے مشکل سے
جل پاتے ہں اُنہیں بھول کر ہم اپنی گھروں کے چراغ روشن نہیں رکھ سکتے۔
زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں کا حق ہے کہ اُن پر توجہ دی جائے،
اُن کے مسائل حل کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔
زمانے کی روش اور بڑھتی ہوئی مُسابقت نے جن کے لیے زندہ رہنے کی جدوجہد کو
”مِشن“ میں تبدیل کردیا ہے ان کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول آسان بنانے
میں اگر ہم کوئی کردار ادا کرسکیں تو یہ اپنے ضمیر کی عدالت مں مقدمہ جیتنے
اور اپنے وجود سے انصاف یقینی بنانے کے مترادف ہوگا! کیا ہی اچھا ہو کہ ہم
صرف اپنی آسانیوں میں گم ہوکر نہ رہ جائیں اور اپنے ماحول میں پلنے والے
اُن غریبوں اور بالخصوص بچوں کا بھی خیال رکھیں جو ایڑی چوٹی کا زور لگاکر
بس سانسوں کا ربط برقرار رکھے ہوئے ہیں اور تمام بنیادی سہولتوں اور نعمتوں
کو ترستے ہی رہتے ہیں۔
فوٹو گرافی : عمران علی، محمد جمیل (روزنامہ دنیا، کراچی) |