نائجر:قدیم افریقی شاہراہ تجارت

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(Niger)
(18دسمبر:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)

”نائجر“مغربی افریقہ کامسلم اکثریتی جمہوری ملک ہے۔اسکے شمال میں الجیریااورلیبیاہیں،مشرق میں چاڈ کی ریاست ہے،جنوب میں نائجیریااور بینون کے ممالک ہیںجبکہ مغرب میں برکینافاسواورمالی کی مملکتیں موجود ہیں۔ساحل سمندرسے محروم اس ملک کارقبہ کم و بیش چارلاکھ نوے ہزار مربع میل ہے۔”نیامے“یہاں کا سب سے بڑا شہراور دارالحکومت ہے۔یہ شہر ”نائجر“نامی دریاکے کنارے واقع ہے ۔یہ شہر دریائی بندرگاہ،بڑاکاروباری مرکزاور اپنے ملک کی ریلوے لائن کا آخری اسٹیشن بھی ہے۔مٹی کے برتن،اینٹیں،چمڑے کی مصنوعات،کپڑا،کوئلے کاایندھن،دھاتی اشیائ،مشروبات اورمتعدددیگراشیاکی صنعتیں ”نیامے“میںموجود ہیں اور اس لحاظ سے یہ ملک کا سب سے بڑا صنعتی مرکز بھی ہے۔کارخانوں میںتیارکی جانے والی اشیایہیں سے دوسرے ملکوں کو برآمدکردی جاتی ہیں جو زرمبادلہ کا بہترین ذریعہ ثابت ہوتی ہیں۔

ایک زمانے میں نائجرکاعلاقہ افریقہ کی بہت بڑی تجارتی شاہراہ پر قائم تھا۔شمالی افریقہ سے جو تجارتی قافلے مالی، ہوسااور سونگھائی کی ریاستوں کو جاتے تھے وہ اسی سرزمین سے ہوکر گزرتے تھے،شاید یہی وجہ ہے کہ طلوع اسلام کی کرنیں بہت پہلے ہی یہاں کے باسیوں کے لیے نورتوحیدکاباعث بن گئی تھیں۔ہوساکے حکمرانوں نے یہاںبھی دسویں صدی سے قبل سے انیسویں صدی تک یہاں بڑی شان و شوکت سے حکومت کی تھی،اسلام اگرچہ یہاں ابتداسے موجود تھالیکن 1450ءکے آس پاس ہوساکی ریاست نے اس دین کو مملکت کا سرکاری مذہب قراردے دیا۔1795میں یورپیوں کے ناپاک قدم یہاں آن پہنچے ،یہ ابتدائی سیاحوں اورتاجروں کے کے روپ میں آنے والے انسانوں کے شکاری اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھتے تھے،1850میں جرمنوں کا بھی ایک گروہ یہاں وارد ہوگیااور1890تک فرانس یہاں قبضہ کرنے میں کامیاب ہوچکاتھا۔فرانسیسی حکمرانوں نے 1900میں اس علاقے کو فوجی علاقہ قراردے دیا،1922میں ایک نیم خودمختارپنچائت نے یہاں کا نظم و نسق سنبھال لیا1946میں دوسری جنگ عظیم کے بعد فرانسیسی حکومت نے اس علاقے کو سمندرپارکاعلاقہ قراردیا۔1958میں نائجرکو فرانسیسی کمیونٹی کارکن ملک قرار دے دیاگیااور 3اگست1960کا یادگار دن اس سرزمین پر آزادی کی نوید لے کر طلوع ہوا۔نائجرکے علاقے نے افریقی تہذیب کی بڑھوتری میں کلیدی کرداراداکیاہے ،خاص طورپرگھانااور مالی کے قدیم بادشاہتوں کے دوران یہ سرزمین تاریخی کردارکی حامل رہی ہے۔مغربی افریقہ کے کسان،مچھیرے اوردیگرفنون کے حامل لوگوں کے لیے نایجرکاعلاقہ روزگار کی فراہمی اور تاجروں کے لیے بہترین شاہراہ تجارت کاکام کرتارہا۔

نائجرکاشمالی صحراکسی طرح کے سبزے سے خالی ہے جبکہ جنوب میں وسیع و عریض گھاس کے میدان قدرت نے رکھ چھوڑے ہیں۔نائجرکے نشیبی علاقوں میں درختوں کے بے شمار اقسام پائی جاتی ہیں ان میں املی اورسرخ رنگ کی قیمتی لکڑی والے درختوں سمیت مقامی طور پر استعما ل اہونے والے درخت بھی شامل ہیں۔یہاں کے جنگلوں میں ہاتھی،جنگلی سانڈ،ہرن،شیراورافریقہ کے متعددجانوربکثرت پائے جاتے ہیں۔نائجرمیں معدنیاتی وسائل بھی بکثرت موجودہیںیورینیم جیسی قیمتی دھات کی اعلی اقسام ملک کے شمال میں بکثرت ملتی ہے،کوئلہ،قلعی،فاسفیٹ،لوہا اور کاپر کی دولت قدرت نے یہاں کی زمین میں بہت عمدگی سے دفن کر رکھی ہیں۔ملکی معدنیاتی درآمدات کا تین چوتھائی یہاں کی اعلی قسم کی یورینیم پرہی منحصرہے،نمک کی کانیں بھی ہیں لیکن بہت کم جبکہ صنعتیں صرف خوراک کی مقامی ضروریات ہی پوری کرتی ہیںاور کسی حد تک تعمیراتی سامان بھی ملک میں ہی تیارکرلیاجاتاہے۔

افریقہ میں ہونے کے ناطے یہاں کی آبادی بلالی رنگت کی حامل ہے۔ملک کے جنوب میں ہوسااورجرماقبائل سکونت پزیرہیں،دیگرعلاقوں میں زیادہ تر خانہ بدوش لوگ ہیں ۔ملک کی کل آبادی 2008کے مطابق سواکروڑ سے زائد تھی ،ان میں سے بھی نوے فیصد لوگ ملکی جنوبی سرحدوں کے آس پاس آباد ہیں۔نوے فیصد مسلمان آبادی کے اس ملک میں عیسائی ایک فیصد سے بھی کم ہیں جبکہ بقیہ بچے کھچے لوگ افریقی قدیم مذاہب کے ماننے والے ہیں۔فرانسیسی زبان یہاں کی دفتری زبان ہے لیکن ہوسازبان یہاں بہت کثرت سے بولی جانے والی زبان ہے اور کاروباری وتجارتی زبان کی اہمیت بھی ہاساکو ہی حاصل ہے۔ملک کے دور دراز علاقوں میں دیگر قبائلی زبانیں بھی بولی سمجھی جاتی ہیں۔سات سے بارہ سال تک کی عمر میں تعلیم لازمی ہے لیکن وسائل اور افرادی قوت کی کمی کے باعث بمشکل چوالیس فیصدبچے ہی ابتدائی تعلیم حاصل کرپاتے ہیںجبکہ ان میں سے بھی کل سات فیصد بچے ثانوی تعلیم میں داخل کیے جاتے ہیں۔اس کے باوجودعلمی ذوق کے بیداری کے لیے وہاں کی مقامی حکومتوں نے اپنے ہاں کتب خانوں کا بکثرت اہتمام کر رکھاہے اور نجی کتب خانے بھی بکثرت ملتے ہیںجو متعدداداروں نے قائم کررکھے ہیں۔یہ سب اسلامی دور کی باقیات ہیں کہ پڑھنے لکھنے کا کچھ نہ کچھ ذوق و شوق دورغلامی کے سبزقدموں کے باوجود باقی ہے۔اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اسلامی اقداروروایات اب بھی وہاں کی تہذیب و ثقافت اور معاشرت میں روح رواں کی حیثیت رکھتاہے۔

نائجرمیںشادی والدین کی مرضی سے کی جاتی ہے،دلہن کے والدین کو دولہاکے والدین ایک بھاری رقم اداکرتے ہیں،دیہاتوں میں پندرہ سال کی عمر تک لڑکی کی اور اٹھارہ سے پچیس سال کے دوران لڑکے کی شادی کر دی جاتی ہے،شہروں میں عمر کاتناسب نسبتاََ زیادہ ہے۔شادی کی ایک اہم اوردلچسپ رسم میں دو ٹوپی والے لڑکوں میں سے دلہن کو اپنے شوہر کی نشاندہی کرنی ہوتی ہے،اگر دلہن کو مشکل پیش آئے تو اسے اشاروں سے سمجھائے جانے کی اجازت بھی ہوتی ہے،شادی کی رسومات تین دن تک جاری رہتی ہیں۔ایشیاکی قدیمی تہذیب کی طرح یہاں بھی بڑوں کو فوقیت حاصل ہے اور چھوٹے ان کے مطیع بن کر رہتے ہیں۔خاندان سب فیصلے بڑے ہی مل کرکرتے ہیں اور چھوٹوں کو اطاعت کرنالازم ہوتاہے۔خواتین پانی،بالن ،بچوں کی پرورش او دیگرخانگی ذمہ داریاں نبھاتی ہیں جبکہ کھیتوں میں مرداورعورتیں مل کرکام کرتے ہیں۔گھروں کی عمارت گھاس پھونس اور لکڑی کے ستونوں سے بنائی جاتی ہے،صحن کے ایک کونے میں بنائی گئی خاص چھت کے نیچے سارے گھرکے افراد جمع ہوتے ہیں۔شوہرکی حیثیت سربراہ خانہ کی سی ہوتی ہے اور مسلمان مرد چار تک شادیاں کرسکتے ہیں جبکہ مقامی دیگرمذاہب کے مرد حضرات چارسے زائدشادیاں بھی کرتے ہیں۔عورت کا کنوارہ رہنااس معاشرے میں بہت بڑاعیب سمجھاجاتاہے اور جومرد جتنی زیادہ شادیاں کرے اسے اتنی زیادہ اہمیت معاشرے میں حاصل ہوجاتی ہے۔عیدمیلادالنبی کاموقع ایساہوتاہے جب خواتین بھی اپنے گھروں سے باہر نکل کر اس دن کو مناتی ہیں۔

مویشی بانی وہاں کی زرعی سرگرمیوں میں سے اولین نوعیت کی حامل ہے۔”رواں“ جو مٹر جیساایک پوداہوتاہے اور کپاس نائجرسے برآمد کر دی جاتی ہیںجبکہ باجرہ،چارہ ،کساوا جس کے آٹے سے روٹیاں بنائی جاتی ہیں،دالیں اور چاول وہاں کی مقامی ضروریات کے لیے کاشت کیے جاتے ہیں۔نائجراگرچہ ساحلوں کی نعمت سے محروم ہے لیکن پھر بھی دریائے نائجراور چاڈ جھیل سے پکڑی جانے والی مچھلی اتنی مقدار میں میسر آجاتی ہے کہ مقامی ضروریات بحسن و خوبی اس سے پوری ہو پاتی ہیں۔نائجرکاکم و بیش تین ہزار میل کا علاقہ کشتی رانی کے لیے بے حد مفید علاقہ ہے،اس عمل سے اس ملک کا دوسرے ملکوں سے بھی رابطہ ہے اور خاص طور پر ملکی بالائی علاقے میں جہاں سڑکیں اور ریل کا نظام کوئی بہت عمدہ نہیں ہے وہاں مسافر کثرت سے جہازرانی کے ذریعے ہی اپنے سفری اندازکوپوراکرتے ہیں ۔دریائی ساحلوں پر اس مقصدکے لیے بڑی بڑی بندرگاہیں بھی بنادی گئی ہیں اور صاف تیل اور زراعت سے متعلق سامان رسد کا بہترین ذریعہ اس ملک میں دریائی راستے ہی ہیں۔

1974میں فوجی انقلاب آیا،جس کے بعد سپریم ملٹری کونسل نے ایک صدر کی زیرنگرانی ملکی نظم و نسق سنبھال لیا،بعد میں یہی کونسل نائجرکے جملہ سیاسی معاملات کی نگران بن گئی۔1989میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے آئین کی منظوری حاصل کی گئی اور ملک سول حکرانی کی طرف لوٹ آیا۔1991میں دستورمعطل کردیاگیااورایک عارضی حکومت بنائی گئی اور1992میں ایک اور دستور بنالیاگیا۔یہ دستوربھی زیادہ دیر نہ چل سکااور1996میں فوجی انقلاب کے ذریعے منتخب ادرے تحلیل کردیے گئے۔بلآخر1999میں ایک دستورتیارکیاگیاجس میں اختیارات کے توازن کافارمولا خاص طور پر پیش نظرتھا۔نائجرمیں صدر جو ریاست کاسربراہ ہوتاہے،پانچ سال کی مدت کے لیے زیادہ سے زیادہ دومرتبہ منتخب ہوسکتاہے۔وزیراعظم کی نامزدگی صدر کے ہاتھوں روپزیرہوتی ہے جو حکومت کے سربراہ کے طورپرکام کرتاہے ۔قانون ساز ادارے کے طورپرقومی اسمبلی کادارہ ہوتاہے جس کی مدت انتخاب بھی پانچ سال ہی ہے۔عدالتوں اور حکومتوں کا نظام مرکز،صوبے اور ضلع کی سطح پر اپنے اپنے فرائض سرانجام دیتاہے۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 529187 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.