گیس و بجلی کی بندش سے میانوالی اور ملک کو درپیش مسائل

شروع اﷲ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

ملک پاکستان کے دوسرے شہروں اور دیہی علاقوں کی طرح میانوالی میں بھی گیس و بجلی کی بندش نے شہریوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ گیس و بجلی کی بندش ایک یا دو گھنٹہ پر نہیں بلکہ پورا پورا دن اور رات گھنٹوں پر محیط ہوتی ہے۔ کاروباری زندگی بالکل تباہ و برباد ہو گئی ہے۔ غریب مزید مہنگائی کے دلدل میں پھنستا جارہا ہے۔ غربت و افلاس نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ صبح و شام کے اوقات کی نمازوں میں نمازیوں کو الگ پریشانی کا سامنا ہوتا ہے۔ خدا راہ کم از کم صبح و شام کے اوقات میں تو نمازیوں پر رحم کیا جائے۔ بجلی بند ہونے سے میانوالی شہر کا یہ عالم ہے کہ اندھیرا ہوتے ہی لوگوں نے گھروں سے نکلنا چھوڑدیا ہے۔ بجلی بند ہونے کے سبب چوری، لوٹ مار عام ہو گئی ہے۔ گلیاں اور سڑکیں ویران نظر آتی ہیں۔ نظامِ زندگی درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے۔ شہرمیں چوری، لوٹ مار کی وارداتوں میں آئے دن اضافہ حیران کن ہے اور سیکورٹی اداروں کے لئے سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ گیس و بجلی کی بندش سے گھریلو عورتوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گیس و بجلی نہ ہونے سے بغیر ناشتہ کے طالبعلموں اور دفاتر میں جانے والے افراد کو اپنے اپنے وقت مقررہ پر جا نا پڑتا ہے۔ صبح کے اوقات میں نہ نہانے کے لئے گرم پانی میسر ہوتا ہے اور نہ ہی روشنی میں تیاری کرنے کے لئے بجلی دستیاب ہوتی ہے۔ معاشی پہیہ کے روک جانے اور مہنگائی کے عذاب نے ہر کسی کو ڈپریشن کا مریض بنا دیا ہے۔ ملک میں نت نئے ہنگاموں نے افراتفری کا ماحول پیدا کر رکھا ہے۔ جس کا زیادہ اور برا اثر طالبعلموں اور نوجوانوں کی زندگی پر پڑ رہا ہے اور اس وجہ سے نوجوانوں میں منفی سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔ بجلی کے متبادل حصول کے لئے جنریٹروں اور UPS کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں جو کہ غریب عوام کے لئے خریدنا بس ایک خواب رہ گیا ہے ۔جنریٹر کے لئے اول گیس تو نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اوپر سے پڑول بھی اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ ہر کسی نے موٹر سائیکل اور گاڑیاں اب آہستہ آہستہ کھڑی یا بیچنا شروع کر دی ہیں۔ جہاں گیس و بجلی نے ہر طبقہِ فکر کے لوگوں پر اتنے منفی اثرات چھوڑے ہیں وہاں پر اس کا زیادہ اثر طالبعلموں کی تعلیمی سرگرمیوں پر پڑا ہے۔ صبح سویرے اٹھنا اور آگے سے گیس و بجلی نہ ہونے سے طالبعلموں میں ڈپریشن میں اضافہ ہورہا ہے۔ اور سوچتے ہیں یا اﷲ ہمیں کس جرم کی اتنی بڑی سزا دی جا رہی ہے ہم تو گیس و بجلی کے بل تو وقت پر جمع کرواتے ہیں پھر بھی اس نعمت سے محروم رہتے ہیں۔ اﷲ اﷲ کر کے سکول کادن گزر جاتا ہے اور شام کے وقت جب پڑھنے کا وقت آتا ہے تو بجلی ہی نہیں ہوتی سب کام دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں نا ہی سکول و کالج کے کام مکمل کر سکتے ہیں اور نہ ہی پڑھ سکتے ہیں۔ والدین الگ پریشان ہیں کہ کیا مستقبل ہو گا ہماری نوجوانوں کا ، بس اسی اندھیرے کی مانند ہی زندگی گزر ی جارہی ہے۔طالبعلموں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ آئی ٹی کے شعبہ سے وابستہ لوگوں کو الگ پریشانی کا سامنا ہے ۔ بجلی نہ ہونے سے اب ہمارے طالبعلم بالکل فری سے ہوگئے ہیں۔ ہسپتالوں میں بھی گیس و بجلی کی بندش کی وجہ سے مریضوں کو الگ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہ ہے۔کاروبار ٹھپ ہوگئے ہیں، بجلی کی بندش نے جہاں لوگوں کو ذہینی مریض بنا دیا ہے وہاں پر شام ڈھلتے ہی دکانداروں اور تمام شہریوں کو اپنی جان و مال کی فکر لاحق ہو جاتی ہے کب کیا ہو جائے کسی کو نہیں پتہ ہر کوئی جلد سے جلد محفوظ مقا م تک جانا چاتا ہے۔ میانوالی میں یہ پہلی مرتبہ ایسی صورتِ حال کا سامنا کر نا پڑھ رہ ہے۔گلیاں و سڑکیں ویران اور سنسان ہونے سے چوری، لوٹ مار اپنے عروج پر ہے۔ بجلی نہ ہونے سے گھروں کے اندر اور باہر بھی خطرہ لگا رہتا ہے اور دیہی علاقوں میں جانوروں وغیرہ اور مشینری کی چوری بھی عام ہورہی ہے۔ وجہ صرف اور صرف بجلی بن رہی ہے۔سیکورٹی اہلکاروں کو بھی چاہیے کہ بجلی نہ ہونے کی صورت میں گشت بڑھائیں۔ کم ازکم اندرون شہر کو تو محفوظ بنایا جائے۔ آئے روز کی لوٹ مار زوروں پر ہے۔ سرکاری دفاتر میں بجلی کے متبادل نہ ہونے سے لوگوں کے کام جو کہ کمپیوٹروں کی وجہ سے ہونے ہوتے ہیں ادھور رہ جاتے ہیں۔ گیس وبجلی نے رہی سہی فیکٹریوں کو بھی بند کروادیا ہے۔ بے روزگاری عروج پر ہے طالبعلم اپنی تعلیم مکمل کرنے کے باوجود بھی تعلیمی ڈگریاں ہاتھوں میں لئے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ نکما رہ رہ کر غلط راستوں پر چلنے کا اندیشہ لگا رہتا ہے۔ مہنگائی نے گھریلو حالاتِ زندگی کو ابتر کر رکھا ہے۔ ایک کمانے والا اور دس کھانے والے ہیں۔ جوان لڑکے اور لڑکیاں جن کی عمریں شادیوں کی ہے روزگارکے نہ ہونے، معاشی حالات ٹھیک نہ ہونے سے نہیں ہو رہی۔ موجودہ ملکی حالات میں ہر کسی کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ کم ازکم ملکی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے سب سے پہلے معاشی نظام کو رواں دواں کرنے کے لئے Long Termپلاننگ کرنی چاہیے۔ اور توانائی کے شعبہ میں مکمل طورپر توجہ دی جائے کیونکہ جب ہم توانائی کے شعبہ میں ترقی نہیں کریں گے تو معاشی نظام ٹھپ ہو جائے گا۔ قدرتی وسائل کو بروکار لایا جائے۔ معدنی ذخائر اﷲ کی بہت بڑی نعمت ہیں ان کی تلاش اور ان کو کارآمد بنانے کے لئے دوسرے ممالک سے رابطے بڑھائیں جائیں۔ملک پاکستان اس لئے نہیں بنایا گیا تھا کہ یہاں پر بسنے والے مسلمانوں اور دوسرے لوگوں کو غربت و افلاس کی زندگی جینے کے لئے اکیلا چھوڑدیا جائے۔ ابھی تک سیلاب و زلزلہ سے متاثرین حکومتی امداد کے منتظر ہیں اس سردی کی شدت کا اندازہ صرف وہی جا کر لگایا جا سکتا ہے۔ ملک پاکستان میں جتنی وزارتیں ہیں اگر ہر وزیر مکمل طور پر اور آزادانہ طور پر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک پاکستان دنیا کا عظیم تر ملک بن جائے۔ یہاں پر خود کو قصور وار ٹھہرانے کی بجائے دوسروں پر الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔مہنگائی کے جن کو قابو کرنا اب صرف خواب بن گیا ہے۔ آئے روز کے ملکی خسارے نے ملک کو مزید مقروض کر دیا ہے۔کاروباری شخصیات ملک پاکستان میں عدم تحفظ کے باعث اپنے کاروباروں کو بند کر کے دوسرے ممالک شفٹ ہو رہے ہیں۔ انٹرنیشنل لیول پر پاکستان اور پاکستانی عوام کو ہر وقت شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دن کے اجالے میں، سرعام بازاروں میں، سیکورٹی کے باوجود بینکوں، دکانوں ، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کی چوری اور لوٹ مار جاری ہے۔ انصاف کا جلد حصول نا ممکن ہو کر رہ گیا ہے۔انصاف کے حصول کو آسان بنایا جائے اوراس سلسلہ میںسیکورٹی حکام کو صحیح اطلاعات فراہم کیں جائیں جو کہ سچ پر مبنی ہوں۔ اگر ہم مہنگائی،بے روزگاری، معاشی ترقی وغیرہ کا موزانہ دوسرے ممالک سے کرتے ہیں تو یہ کبھی سوچا ہے کہ دوسرے ممالک میں عام شہریوں کو ہر وہ سہولت میسر ہے جو ملک پاکستان کے شہریوں کا صرف خواب ہے۔ دوسرے ممالک میں فیکٹریوں، زرعی آلات، اور ہر اس چیز پر رعایت ملتی ہے جو کہ ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہو۔ اور اس سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ سہولتیں دی جاتی ہیں۔ جبکہ ملک پاکستان میں ٹیکس ہی سب سے زیادہ انہی پر لگایا جاتا ہے۔ گیس و بجلی کی بندش سے رہی سہی فیکٹریوں وغیرہ بند ہو گئی ہیں۔ دوسرے ممالک میں پبلک ٹرانسپورٹ عام ہے، نارمل کرائے لئے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں پر تو سی این جی اور پڑول ہی نہیں ہوتی، پبلک ٹرانسپورٹ کا تو اﷲ ہی حافظ ہے۔ لوگ بسوں وغیرہ پر لٹک لٹک کر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔صبح کو اور کرایہ ہوتا ہے شام کو اور کرایہ ہوتا ہے۔روز روز کی ہڑتالوں ، حادثات نے پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام درہم برہم کر دیا ہے۔دوسرے ممالک میں نوجوانوں، طالبعلموں کو اعلی تعلیم کے مواقعے دیئے جاتے ہیں۔ جدید تعلیم میسر ہوتی ہے،ریسرچ کے لئے اعلی نظام ہوتا ہے۔حکومت مکمل طور پر نوجوانوں کے حقوق کا خیال رکھتی ہے۔ لیکن ملک پاکستان میں تو میڑک تک تعلیم ہی بہت مشکل میسر ہے، ریسرچ کا نظام کوئی نہیں، نوجوانوں کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہوتا جا رہا ہے۔یہاں پر نوجوان اپنی بنیادی حقوق کے لئے ترس رہے ہیں۔دوسرے ممالک میں انصاف کا جلد حصول اولین کام ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی وکیل دستیاب نہیں تو حکومت وکیل مقرر کر دیتی ہے۔ جدید طریقوں سے جرائم کی روک تھام کی جاتی ہے۔کم سے کم جانی نقصانات کے لئے اعلی مانیٹرنگ اور باقاعدہ آمدورفت کا نظام ہے۔ اور ملک پاکستان میں اگر ایک دفعہ عدالت کیس لگ جائے تو کم از کم وہ کیس 5سے10 سال سے پہلے حل ہی نہیں ہو سکتا اور پاکستان کی تاریخ میں تو عدالتوں میں40سال سے اوپر تک کے کیس بھی زیرِسماعت ہیں۔ جب کیس کا فیصلہ ہوتا ہے تو مجرم کوبے قصورقرار دیا جاتا ہے۔ اب اس شخص کے جو اتنے سال جیلوں، عدالتوں میں گزر گئے ہیں اس کا کون ذمہ دار ہے؟

ہمیں اپنے ملک پاکستان کو ترقی پر گامزن کرنے کے لئے نظامِ تعلیم، نظام توانائی، معاشی نظام میں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا، انصاف کا حصول آسان اور جلدی فیصلوں کو شعور بننا ہو گا، کرپشن کا خاتمہ، بے روزگاری کا خاتمہ، منشیات کی روک تھا م کے لئے مثبت اقدامات کرنے ہوں گے۔ حقوق اﷲ اور حقوق العباد کا خیال کرنا ہو گا۔ جب تک ہم دوسرے ممالک سے مدد اور رقم مانگتے رہیں گے تو اس وقت تک ہم دوسرے ممالک کے حکم اور ان کی بنائی ہو پالیسوں پر کام کرنا ہو گا۔ دین ِاسلام کو اپنا شعور بننا ہو گا۔
Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 56 Articles with 97521 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.