کوئی بھی خرابی جب نمودار ہوتی
ہے تو بدنامی اور تذلیل کا باعث بنتی ہے۔ ذمہ دار کون ہے اور کون نہیں، یہ
تو بعد کی بحث ہے۔ قابل غور بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی خرابی ہمارے سامنے ہو
تو مشکلات کو راہ دیتی ہے۔ اب اسی بات کو لیجیے کہ ہزار بار توجہ دلائے
جانے پر بھی کراچی جیسے (ملک کے سب سے بڑے) شہر میں ماس ٹرانزٹ پروگرام کو
حتمی شکل نہیں دی گئی اور روزانہ لاکھوں افراد سخت بے ہودہ نوعیت کے نظام
کے تحت سفر پر مجبور ہیں۔ شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نام پر چلنے والی
گاڑیوں میں ایسی سال خوردہ اور از کار رفتہ گاڑیاں بھی شامل ہیں جنہیں دیکھ
کر اپنے آپ سے شرم سی محسوس ہونے لگتی ہے! سیدھی سی بات ہے، گاڑی تو شرمندہ
ہونے سے رہی! اور گاڑی مالکان؟ اگر وہ شرمندہ ہوا کرتے تو کیا بات تھی۔
پبلک ٹرانسپورٹ کے نام پر سڑکوں کی ”زینت“ بننے والی بہت سی گاڑیاں ایسی
ہیں جنہیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ کوئی بھی گاڑی کِسی بھی حالت میں چل سکتی
ہے۔ کِھڑکیوں کے شیشے نہ ہونا، سیٹوں کا ٹوٹا ہوا ہونا، بس میں سفر کے
دوران کھڑے ہوئے لوگوں کی سہولت کے لیے جو سلاخیں یا ڈنڈے لگائے جاتے ہیں
اُن کا شکستہ اور جھولتی ہوئی حالت میں ہونا دنیا کے لیے حیرت کا باعث
ہوسکتا ہے مگر ہمارے لیے یہ حیرت کی بات ہے نہ شرم کی! بعض گاڑیوں کو دیکھ
کر تو یہ خیال آتا ہے کہ اِن میں انجن بھی ہے یا نہیں! شہر میں ایسی درجنوں
ویگنیں عوام کا بوجھ اٹھا رہی ہیں جو اپنی خستگی کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے بھی
تھک سی گئی ہیں۔ پچھے پہیوں کے اوپر بنی ہوئی سیٹ پر بیٹھ کر نیچے دیکھیے
تو گِھسی اور پھٹی ہوئی ”فولادی“ چادر سے ٹائرز کے درشن آسانی سے کئے
جاسکتے ہیں!
|
|
یومیہ سفر زندگی کو آسان بنانے کے لیے ہونا چاہیے مگر ہمارے ہاں شاید حکومت
نے فرض کرلیا ہے کہ اگر عوام کو مشکل ترین حالات کے لیے تیار کرنا ہے تو
روزانہ مہم جوئی پر مجبور کیا جائے! یعنی
مُشکلیں مجھ پر پڑیں اِتنی کہ آساں ہوگئیں!
کراچی اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں ایسی بہت سی بسیں اور ویگنیں سڑکوں پر
رواں دکھائی دیتی ہیں جنہیں اُصولی طور پر تو عجائب گھر یا پھر کباڑ خانے
میں ہونا چاہیے۔ اِن بسوں اور ویگنوں میں سفر اپنے رسک پر ہوتا ہے۔ اگر آپ
زندگی سے پیار کرتے ہیں تو اِن گاڑیوں سے دور رہیں۔ بقول غالب
جس کو ہوں جان و دل عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں؟
بہت سی ویگنوں میں صرف کھڑی کے شیشے ٹوٹے ہوئے نہیں بلکہ پچھلی نشستوں والے
شیشے بھی ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ سرد ہواؤں کو روکنے کے لیے کپڑے کے ٹکڑوں
اور چادروں کا سہارا لیا جاتا ہے۔
اِس سادگی پہ کون نہ مَر جائے اے خُدا!
اور کون کیا؟ جنہیں مرنا ہے وہ بھلا مسافروں کے سوا کون ہوسکتے ہیں؟ ویگنوں
کا پچھلا حصہ عام سے کپڑے کی چادر سے ڈھکا ہوا ہو تو سمجھ لیجیے کہ پیچھے
سے کوئی گاڑی آکر ٹکرائے تو بیٹھے ہوئے لوگوں کی خیر نہیں۔ مگر اِتنا سوچنے
کا ہوش کِس کو ہے؟ عوام جن گاڑیوں میں بیٹھتے ہیں وہ خود بیٹھی ہوئی ہیں!
اور اِن گاڑیوں کو چلتی دیکھ کر مسافر بھی حیران ہیں اور چلانے والے بھی!
حکومت البتہ ذرا بھی حیران نہیں۔ اُس کے پاس ایسے تماشے دیکھنے کا وقت ہی
کہاں ہے!
پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ اور محفوظ ہونا چاہیے۔
دنیا بھر میں حکومتیں عوام کو یہ بنیادی سہولت فراہم کرنے پر خاص توجہ دیتی
ہیں۔ اگر یومیہ سفر ذرا سا مہنگا بھی ہو تو لوگ بُرا نہیں مانتے کیونکہ
زندگی کو محفوظ بنانے سے زیادہ فائدے کا سَودا کوئی نہیں! مگر ہمارے ہاں نہ
حکومت کو کچھ فکر ہے، نہ ٹرانسپورٹرز کو کچھ احساس ہے اور نہ مسافروں کو
کچھ اندازہ ہے کہ روزانہ وہ کِتنے خطرات کے پہلو بہ پہلو بیٹھنے والوں کو
احساس ہے۔ مسافروں کے پاس ایک آپشن ضرور ہے۔ یہ کہ انتہائی خستہ حال بسوں
اور ویگنوں میں سفر سے یکسر گریز کیا جائے۔ یہ آپشن عوام سے کوئی نہیں چھین
سکتا۔ ٹرانسپورٹرز کچھ خرچ کئے بغیر بہت کچھ کمانا چاہتے ہیں اور سرکاری
اہلکار رشوت کے عوض کِسی بھی نوعیت اور حالت کی گاڑی کو فٹنس سرٹیفکیٹ دے
دیتے ہیں۔ یہ تو عوام کی زندگی سے کِھلواڑ کا معاملہ ہے! ذمہ داری کے احساس
سے ہمکنار کسی بھی معاشرے میں ایسے جرم پر موت کی سزا سُنائی جاسکتی ہے!
عوام کی زندگی کو داؤ پر لگانے کا سلسلہ کب ختم ہوگا؟ متعلقہ حکام کچھ
بتانے کی زحمت گوارا کریں گے؟
(فوٹو گرافی : محمد فاضل) |