اور معزز شخص چہرہ اٹھا کر مجھے مخاطب کرتا
جاوید تم یقین کرو پاکستان کا کرپٹ ترین ادارہ عدالیتیں ہیں، تم عام سے عام
سول جج کے لیونگ سٹینڈرڈ دیکھو، پاکستان کے بڑے بڑے کاروباری لوگ اس کا
تصور نہیں کر سکتے، تم ججوں کے بچوں کے تعلیمی ادارے دیکھو، کوئی ایماندار
افسر اتنی فیسیں ادا نہیں کر سکتا، تم عدالتی اہلکاروں کی بیویاں دیکھو،
بڑے بڑے امیر لوگوں کی بیویاں اتنے قیمتی زیورات نہیں پہن سکتیں، تم ان
لوگوں کے گھر دیکھو، یوں لگے گا جیسے کسی عرب شہزادے کے محل میں آگئے ہو،
یہ رزق فراوانی کہاں سے آتی ہے؟ یہ وسیع تر وسائل کس جگہ سے آتے ہیں؟ یہ من
و سلوٰی کیونکر اترتا ہے، اس ملک میں کوئی سوچتا ہے؟ کسی نے کبھی تحقیق کی؟
کسی نے اس پر غور و فکر کی زحمت گوارا کی؟ نہیں کی، لیکن ایک بات لکھ لو،
لکھو، لکھو تمہارے پاس قلم بھی ہے اور کاغذ بھی۔ جب تک پاکستان کا عدالتی
نظام درست نہیں ہوتا، احتساب کا آغاز ججوں سے نہیں ہوتا، یہ ملک نہیں چل
سکتا، نظام درست نہیں ہو سکتا۔ ساتھ ہی باریش معزز شخص نیچے جھکتا اور ہاتھ
میں پکڑے فرمارائے آم پر ہونٹ رکھ دیتا۔
لیکن آپ بھی تو اسی عدالتی نظام کا حصہ رہے ہیں۔ راشد حجازی نے اپنے
روایتی انداز سے ہوا میں ہاتھ چلائے۔
ہوں، ہوں، معزز شخص نے ہونٹ آم سے الگ کئے، دائیں ہاتھ سے ٹشو پیپر کے ڈبے
سے ایک نرم اور ملائم کاغذ کھینچا اسے ہونٹو پر پھیرا اور پھر مسکرا کر
بولا: میں تھا راشد صاحب لیکن اپنے ضدی پن کی وجہ سے میری کیا حال تھی آپ
اندازہ نہیں کر سکتے۔ میں سیشن جج تھا، جی او آر لاہور میں میری سرکاری
رہائش گاہ تھی، گاڑی تھی نہیں لہذا ویگن پر دھکے کھاتا ہوا کورٹ آتا اور
اسی طرح دھکے کھاتا ہوا واپس جاتا اور اکثر ایسے بھی ہوتا کہ دو دو گھنٹے
ویگن کے انتظار کے بعد میں واپس گھر آجاتا جبکہ تیز بارشوں میں بھیگتے ہوئے
کمرہ عدالت تک پہنچنے کے تو کئی واقعات ہیں۔ اسے بھی چھوڑیں، پوری زندگی
میں اکھٹے دو جوڑے کپڑے نہیں بنا سکا۔ ایک آدھ جوڑے سے زائد کبھی جوتے نہیں
خریدے۔ ڈائننگ ٹیبل پر بھی ساگ پات کے سوا کبھی کچھ نہ ملا اور آج میں
سینیٹر ہوں تو یقین کریں میرے پاس اب بھی گورنمنٹ ہاسٹل کے اخراجات پورے
کرنے کے لیے پیسے نہیں۔
بڑی بات ہے، میرے منہ سے بے اختیاری میں نکل گیا نہیں نہیں معزز شخص نے
چرمرایا ہوا آم ٹوکری میں پھینک کر اپنی عمیق نظریں مجھ پر جمائیں اور بولا
نہیں جاوید، اس بات کا قطعا یہ مطلب نہیں تھا میں خود کو پارسا، ایماندار
اور درویش ثابت کرنا چاہتا ہوں، میں تو صرف اتنا بتانا چاہتا ہوں اگر ایک
شخص ان تمام دکھوں، ازیتوں اور مسائل کے باوجود زندگی بھر خوش و خرم، مطمئن
اور مسرور رہ سکتا ہے تو دوسرے جج کیوں نہیں رہ سکتے۔ آخر ان لوگوں کو بھی
تو سمجھایا جا سکتا ہے رزق حلال کی برکات سے متعارف کرایا جاسکتا ہے۔
پر یہ کون کرے گا؟ میں نے آہستہ سے پوچھا: کوئی ایسا بندہ خدا، جس کے قول و
فعل میں تضاد نہ ہو، جس کے عمل اور گفتار میں بعد نہ ہو، جو اندر اور باہر
سے دو رنگا نہ ہو۔ باریش شخص نے پھر آہستہ سے کہا۔
اگر کبھی زندگی میں آپ کو ایسا اختیار مل گیا تو میں نے شوخی سے پوچھا،
باریش معزز شخص نے قہقہہ لگایا پھر دیگچے میں ہاتھ ڈال کر برف کی ایک
پگھلتی ہوئی ڈلی اٹھائی، اسے ہتھیلی پر جمایا اور پھر اس پر نظریں جما کر
بولا جاوید اگر مجھے زندگی میں کبھی ایسا موقع ملا تو میں پاکستان کا
عدالتی نظام درست کردوں گا، انصاف کے راستے میں کھڑی رکاوٹیں دور کر دوں گا،
ججوں کو رزق حلال تک محدود رہنے پر مجبور کر دوں گا، سائلوں کو جگہ جگہ
زلیل ہونے سے بچائوں گا، لیکن میرا نہیں خیال مجھے کبھی ایسا کوئی اختیار
ملے گ
اور کل صبح جب ٹھیک چھ ماہ بعد میرے بچے نے تازہ اخبار اٹھار کر میرے سامنے
بھیلا دیے تو میں تمام اخبارات کی لیڈ سٹوری میں اس باریش معزز شخص کی
تصویر دیکھ کر حیران رہ گیا ۔۔۔۔۔۔ یہ جناب رفیق تارڑ ہی تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم
میں سے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ہم چار لوگوں میں سے ایک شخص چھ ماہ بعد
اس ملک کا صدر ہوگا، افواج پاکستان کا سپریم کمانڈر ہوگا، ہر قانون، آئین
کی ہر ترمیم اس کے دستخطوں سے جاری ہوگی، چیف آپ آرمی اسٹاف اور چیف جسٹس
اس کے مرضی سے مقرر ہوں گے۔
جی ہاں، جناب رفیق تارڑ آپ نے فیڈرل لاجز تھری کے گیٹ کے سامنے کھڑے ہو کر
کہا تھا: جس معاشرے میں انصاف نہیں ہوتا، وہاں کوئی قانون نہیں ہوتا
اور جہاں قانون نہیں ہوتا، وہاں انسان نہیں درندے بستے ہیں اور اس ملک کے
تیرہ کروڑ لوگ شہروں نہیں، جنگلوں میں زندگی گزار رہے ہیں، جہاں خونخوار
درندے کمزور دانتوں اور چھوٹے ناخنوں والے جانوروں کو کچا چبا رہے ہیں۔ اور
آپ نے کہا تھا، قانون پانی کی طرح ہوتا ہے اگر وہی زہریلا ہو تو فصلیں کیسے
صحت مند ہو سکتی ہیں، پھلوں میں توانائی کیسے آسکتی ہے۔ اور آپ نے کہا تھا
تاریخ میں حکمران وہی زندہ رہے ہیں جو قانون بناتے ہیں، جو مظلوموں کے آنسو
پونچھتے ہیں، جو ظالم کو راستہ روکتے ہیں اور آپ نے کہا تھ جس ملک کا
سیاستدان بد دیانت ہو، حکمران لالچی، ہو، مولوی منافق ہو، دانشور چور اور
جج کرپٹ ہوں اس ملک کے قائم رہنے کا کوئی جواز نہیں ہوتا اور آپ نے کہا تھا
قدرت ہمیں اصلاح کا ایک موقع ضرور دے گی، ہم سنبھل گئے تو ہماری اولادیں
ایک خوشحال پاکستان دیکھیں گی لیکن ہم نے یہ موقع بھی کھو دیا تو۔۔۔۔؟ اور
آپ نے اور آسمان کی طرف دیکھ کر کہا تھیار آج گرمی بہت ہے، اگر میں مزید
کچھ دیر یہاں ٹھرا رہا تو مجھے سن سٹروک ہو جائے گا، اجازت دو جلد ملیں گے۔
ہاں جناب رفیق تارڑ شائد فیڈرل لاجز تھری کا وہ نیم تاریک کمرہ، وہ ٹھنڈے
آم اور لوح محفوظ سے ٹوٹا ہوا وہ لمحہ آج بھی آپ کے حافظے کے کسی کونے میں
ڈرا سہما بیٹھا ہو، جب آپ نے بڑی حسرت سے کہا تھا اگر کبھی مجھے اختیار مل
گیا تو میں عدالتی نظام درست کردوں گا اور کوئی ایسا بندہ خدا چاہئے جس کے
قول و فعل میں تضاد نہ ہو، جس کے عمل اور گفتار میں بعد نہ ہو اور جو اندر
اور باہر سے دو رنگا نا ہو۔۔۔۔ لیکن نہیں سردی کی شاموں میں، ہیٹر کے بالکل
قریب بیٹھ کر، پاؤں پر جاپانی کمبل گرا کر اور ہاتھ میں بھاپ اڑاتی چائے کا
کپ پکڑ کر جون کی کسی تپتی دوپہر، جلتے سایوں اور سڑکوں کی پھگلی ہوئی
تارکول یاد کرنا آسان کام نہیں؟
|