عورت ۔۔۔ ماں کی ممتا اور پیشہ
ورانہ ذمہ داریوں کے درمیان ہمیشہ سے کشمکش کا شکار رہی ۔۔۔ موجودہ معاشرتی
ڈھانچہ ایک فرد کمائے اور گھر کے باقی لوگ بیٹھ کر کھائیں کی عیاشی کا
متحمل نہیں ہو سکتا ۔۔ کبھی ضرورت اور کبھی بچوں کے لیے پر آسائش مستقبل کے
خواب کی وجہ سے گھر کے سربراہ مرد کے ساتھ گھریلو نظم و نسق کی مالک عورت
کو بھی معاش کے میدان میں قدم رکھنے کے لیے اپنے گھر کی دہلیز سے قدم باہر
نکالنا پڑتا ہے ۔۔ عورت کے لیے یہ آسان فیصلہ نہیں ہوتا،اور خاص طور پر
شادی شدہ عورت کو مسلسل جذباتی اور ذہنی دباؤ کا سامنا ہوتا ہے جب کہ وہ
ماں بھی ہو۔
ملازمت پیشہ ماں ۔۔ گھر میں بھی کل وقتی ملازمت کرتی ہے اور دفتری اوقات
میں بھی اسے مرد ساتھیوں کے ساتھ ترقی کی دوڑ میں شامل ہو نا پڑتا ہے۔
اعصاب کو تھکا دینے والی اس مشقت کے بعد ایک ماں کے لیے سب سے اچھا وقت وہ
ہوتا ہے جب وہ اپنے بچوں کے ساتھ ہوتی ہے،لیکن یہ اچھا وقت بہت جلدی گزر
جاتا ہے۔ جس کا گلہ بچوں کو بھی ہوتا ہے اور تکلیف ماں کی بھی کم نہیں ہوتی۔
ماں اور بچے کی ذہنی صحت کے ماہرین کہتے ہیں کہ جوبچے ابتدا میں ماں کی
توجہ اور محبت سے محروم ہوتے ہیں اور ان کا زیادہ وقت کسی آیا یا کئیر ٹیکر
کے ساتھ گزرتا ہے تو ایسے بچے یا تو بہت زیادہ حساس اور جارحانہ رویوں کے
ساتھ شعور کی منزل پر قدم رکھتے ہیں یا پھر ان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما
کا عمل سست پڑجاتا ہے اور وہ اعتماد سے محروم ، کم فہم نوجوانوں کے روپ میں
معاشرے کا غیرفعال رکن بننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ماں اور باپ کی دوری بچوں
میں شدت پسندی کوجنم دیتی ہے جس کا احساس فکر معاش میں جکڑے ماں باپ کو بھی
ہوتا ہے۔خاص طورپر حساس مائیں اس ساری صورتحال کا ذمہ دار خود کو ٹھہراتی
ہے۔ لیکن معاش کے میدان میں شریک حیات کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کا جذبہ ،
اور خوشحالی ان کے حوصلوں کو مستحکم کرتی رہتی ہے،اور اس کوشش میں عورت
اپنی ذات کی نفی بھی کرنے لگتی ہے جو کہ ایک غیر صحت مندانہ رویہ ہے۔
گھر میں خوشحالی بھی ضروری ہے اور بچوں کی اچھی تربیت بھی ، سوچنے کی بات
یہ ہے کہ کیا ان دونوں ذمہ داریوں کا بوجھ صرف عورت ، یا پھر اکیلے مرد کے
کندھے پر ڈال دینا چاہیے ، یوں بھی تو ہو سکتا ہے کہ دونوں باہم رضامندی کے
ساتھ ، اپنے خوابوں کی تکمیل کےلیے ایک دوسرے کی ذمہ داریوں کو بانٹ لیں
اور گھر کا نظام بحسن و خوبی چلانے کے لیے ایک دوسرے کے حصے کا کام کرلیں۔
ملازمت پیشہ مائیں اپنے خاندان کی زندگی سہل بنانے کےلیے اپنے آرام اور
ممتا کے فطری تقاضوں کی قربانی دیتی ہیں، ان کی اس قربانی کا احساس گھر کے
افراد اور خاص طور ان کے شریک حیات کو مثبت رویوں اور الفاظ کے ساتھ کرنا
چاہیے ، کبھی بھی بچوں کو یہ منفی احساس نہیں دلانا چاہیے کہ ان کی ماں یہ
ملازمت اپنے عیش و آرام کے لیے کر رہی ہے ، بلکہ بچوں کو آسان جملوں اور
چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے ذریعے یہ بات باآسانی سمجھائی جا سکتی ہے کہ ان کی
ماں ایک بہادر عورت ہے ،جو گھر اور باہر کی ذمہ داریوں کے ساتھ انصاف کررہی
ہے ، بچوں کو یہ بھی بتایا جا سکتا ہے ان کی ضروریات تو باپ پوری کرتا ہے
لیکن ان کی خواہشوں اور خوشیوں کا اہتمام ماں کی آمدنی سے ہوتا ہے تاکہ وہ
زندگی کے کسی موڑ پر خود کو کسی سے کمتر محسوس نہ کریں۔
بچے صرف ماں کی ذمہ داری نہیں ہوتے اسی لیے ماں اور باپ دونوں کو اپنے بچوں
کے ساتھ کوالٹی ٹائم گزارنا چاہیے ، ان کے اسکول کی سرگرمیوں ، ہوم ورک ،
دوستوں کے ساتھ کھیل کود کے معاملات کی خبر رکھنا ماں اور باپ دونوں کی
اولین ترجیح ہونی چاہیے، اس ضمن میں والدین کو اپنے دفتری اوقات کی تقسیم
کچھ اس طرح کریں کہ دونوں باری باری اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزار سکیں۔
گھر کے وہ کام جو صرف عورت کی ہی ذمہ داری سمجھے جاتے ہیں ملازمت کے ساتھ
ان کاموں کی انجام دہی بھی ماں کو بچوں سے مزید دور کر دیتی ہے ، سمجھدار
مرد ان ذمہ داریوں میں اپنی مدد کا حصہ ڈال کر ماں اور بچوں کے راحت کا
سامان کر سکتے ہیں۔
چھٹی کے دن دفتری کام کی گھر میں کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ ویک اینڈ پر
اور ہالیڈیز میں ماں اور باپ کی طرف سے بچوں کے لیے تفریح کا انتظام ایک
بہترین تحفہ ہے جو ان میں ماں کی دوری کے ملال کو بڑی حد تک کم کرسکتا ہے۔
ایک وقت کا کھانا گھر میں بچوں کے ساتھ کھانے سے بھی دوری کا احساس مٹتا
ہے،دراصل چوبیس گھنٹوں کی مناسب تقسیم والدین اور بچوں کے درمیان ایک ایسے
پل کا کردار ادا کر سکتی ہے جو فاصلے بھی کم کرے گی اور تھکے ہارے ماں باپ
کی توانائی کو بھی مجتمع کرے گی-
حقیقت یہ ہے کہ آج کے بچے وقت سے پہلے سمجھدار اور باشعور ہو جاتے ہیں۔ ان
کی ذہنی استطاعت اور سوچ کی پختگی کوسمجھنا ضروری ہے اور اسی کے مطابق ان
کو وقت دینے اور اس کا مثبت استعمال کرنے سے تربیت کے اہم مرحلے سے نمٹا جا
سکتا ہے۔
ملازمت پیشہ مائیں اپنے بچوں کےلیے فخر کا باعث ہوں ، وہ اپنے سمجھدار بچوں
کے ساتھ کبھی کبھی آفس کے معاملات اور سرگرمیاں ضرور شیئر کریں اور انھیں
احساس دلائیں کہ ان کی ماں ایک اچھے ادارے کی اہم رکن ہے ، ماں کی قابلیت
اور توقیر بچوں کو احساس کمتری میں مبتلا ہو نے سے بچا سکتی ہے۔
میاں بیوی بچوں میں کسی کمی یا کجی کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرانے کے
بجائے مسئلے کا حل تلاش کریں ، بچپن بہت قیمتی ہوتا ہے جسے والدین کی توجہ
اور دلچسپی انمول بنا سکتی ہے ۔۔ |