صحافت جوکر یا میراثی
(musarrat ullah jan, peshawar)
آپ کو کبھی زندگی میں یہ تجربہ
ہوا ہے کہ آپ ننگے ہوں اور آپ کے بچے بھوکے ہوں لیکن پھر بھی آپ کے پاس
کروڑوں روپے کی رقم ہو جسے آپ عیاشی کیلئے دوسروں کو استعمال کرنے دیں کہ
خیر ہے میں ننگا اور میرے بچے بھوکے سہی لیکن دوسرے لوگ عیاشی کرے اور جو
مرضی آئے کریں اس طرح کا اگر کوئی اقدام اٹھاتا بھی ہے تو آپ کے ذہین میں
یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ یا تو اس طرح کام کرنے والا کوئی پاگل ہے یا پھر
بہت زیادہ عیاش کہ اسے اپنے ننگے پن اور بھوک کا احساس نہیں لیکن دوسروں کو
عیاشی کیلئے رقم دے رہا ہے- یقینا آپ کیلئے میری باتیں سمجھ میں نہ آنیوالی
والی ہونگی لیکن اس بات کی وضاحت میں آپ کو اس صورتحال سے کرنا چاہوں گا کہ
حال ہی میں صوبہ محکمہ اطلاعات نے صوبے کی اہم صحافیوں پر مشتمل وفد کو
دورہ کروایا -صحافیوں پر اعتراض کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں نہ تو ہماری
اوقات اتنی ہے نہ ہم "بارہ سال"میدان میں رہنے کے باوجود "سینئر کی فہرست"
میں شامل ہوسکے- لیکن اتنی جسارت تو کرسکتے ہیں یقینا میری یہ جسارت میرے
بہت سارے ساتھیوں کو ہضم نہیں ہوگی کیا واقعی اس صوبے میں امن و امان کی
صورتحال ابتر ہے ہمارے صوبے کے کمی کمین جسے عوام بھی کہا جاتا ہے کی حالت
ابتر ہے اور ان حالات میں ہم صحافیوں پر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہیں-
ہمارے ہاں ہر ایک کے پاس اختیار ہے ہر کوئی اپنا اختیار استعمال کرنا چاہتا
ہے وزیر سے لیکر صحافی تک ہر شعبے کے لوگ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہیں
کچھ کے پاس اعلی اختیارات ہوتے ہیں لیکن یہ اختیارات کمی کمینوں کے بجلی
پانی گیس سمیت مختلف مدات میں لی جانیوالی ٹیکسوںسے جمع ہونیوالی رقم پر ہر
کوئی استعمال کرتا ہے مخصوص صحافیوں اور کالم نگاروں کیلئے کوئی اپنے
اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے رقم مختص کرتا ہے کہ یہ رقم متعلقہ محکمے کے
وزیر اپنے اعلی اختیار ات کو استعمال کرتے ہوئے دی جارہی ہیں راقم سمیت ہر
کوئی اس رقم کیلئے خوش ہوتا ہے کہ چلو "مفت" میں شوڑا ہاتھ آرہا ہے لیکن
کیا یہ اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں -کوئی یہ پوچھنے کی جرات ہی نہیں کرتا
کہ بھائی میرے کیا یہ رقم وزیر صاحب اپنے جیب سے دے رہے ہیں یا پھر کمی
کمینوں کے ٹیکسوں سے جمع ہونیوالی رقم ہیں -لالٹین والی سرکار کے دور میں
بم دھماکوں میں خوار ہونیوالی کمی کمینوں کا خون چوسنے کے مترادف نہیںکمی
کمینوں کے ٹیکسوں پر پلنے والے وزراء کو دیکھ کر اگر گھن آتی ہے تو ان سے
زیادہ گھن اپنے صحافی برادری کے کارناموں پر بھی آتی ہے کہنے کو تو ہم میں
ہر کوئی پاکباز بنتا ہے لیکن مفت کی مے دیکھ کر جس طرح قاضی کی رال ٹپکتی
ہے اس طرح ہمارے صحافی بھی رال ٹپکانے سے باز نہیں آتے-
بات کہاں سے کہاں نکل جاتی ہے ہماری خیبر پختون خوار میں محکمہ اطلاعات
واحد ڈیپارٹمنٹ ہے جس کی ویب سائٹ آن لائن نہیں اسی وجہ سے پتہ نہیں چل
رہاکہ یہ کرکیا رہا ہے ہاں اس کی اہمیت اسی وجہ سے بہت زیادہ ہے کہ سرکار
کے گھوں کو پیشاب سے صاف کرنے والے اسی ڈیپارٹمنٹ میں یہاں تعینات ہوتے ہیں
اور ان کی اتنی بدمعاشی ہوتی ہے کہ اس کے زور پر اخبار کے مالکان کو اسی
وزارت سے تعلق رکھنے والے لوگ بدمعاشی دکھاتے ہیں کہ اگر سرکار کی مدح
سرائی نہیں کروگے تو اشتہارات نہیں ملیں گے اگر کمی کمینوںعرف عام کے عوام
کی صحیح بات اپنے اخبار میں لکھو گے تو پھر بھی اشتہارات تم پر بند ہیں اور
اگر صحافت کے نام پر سرکار کیلئے پالش اور مکھن بازی کرینگے تو پھر سب کچھ
ہیں اسی باعث بڑے بڑے طرم خان صحافی جو آج کل ایڈیٹر بھی ہیں اسی ڈیپارٹمنٹ
میں آتے جاتے ہر ایک کو" سلام صاحب جی " کرتے نظر آتے ہیں- ویسے تو ہمارے
خیبر پختون خوار میں صحافیوں کے حقوق کیلئے آوازیں بھی بڑی اٹھتی ہیں
کیونکہ اب تواس کا ٹرینڈ چل رہا ہے لیکن حقیقت میں کیا ہے اس کا اندازہ بات
سے بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ پشاور سے چھپنے والے مختلف اخبارات کے صحافیوں
کو تین تین ماہ سے تنخواہیں نہیں مل رہی یہ تنخواہیں بھی چھ سے دس ہزار کے
مابین ہیں کیا یہ محکمہ اطلاعات کا کام نہیں کہ ان اخبار کے مالکان پرزور
دیں کہ اپنے ملازمین کو تنخواہیں ادا کرے اور اگر مالکان تنخواہیں ادا کرنے
کی پوزیشن میں نہیں تو کیا محکمہ اطلاعات کو صحافیوں کے نام پر ملنے والے
فنڈز میں صرف یہاں پر تعینات اہلکاروں کا حصہ ہے یا پھر ایسے لوگوں کا جو
صبح و شام یہاں پر آکر "صاحب سلام ہے"کرتے نظر آتے ہیں- ویسے تو یہ بھی
خیبر پختون خوار کی محکمہ اطلاعات کا کمال ہے کہ ایک ہی ڈیپارٹمنٹ میں سسر
اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہے تو اس نے اپنے داماد کو بھی تعینات کیا داماد نے آگے
اپنے ایک اور کزن کو نوکری دی ہیں یعنی ایک ڈیپارٹمنٹ میں چلنے والے معمولی
سی ریڈیو چینل پر خاندانی لوگ قابض ہیں اور کمی کمینوں کا ٹیکس ایک ہی
خاندان میں جا رہا ہے کیاپختون خوار میںتعلیم یاختہ لوگوں کی کمی ہے اور اس
میں ایک اور ڈرامہ کہ جہاں پر صحافیوں کی تربیتی پروگرام ہوتا ہے وہاں پر
سسرصاحب سرکار کی ڈیوٹی کے بجائے تربیتی سیشن میں دکھائی دیتے ہیں کہ شائد
تربیت لینے کے بعد وہ بھی صحافی بن جائے حالانکہ ان کی تربیت ہماری بیلٹ
والی سرکار سے بھی زیادہ ہوئی ہے اور یہ لوگ "یس سر" جی سر"کرنا ہی جانتے
ہیں صحافت ان کی بس کی بات نہیں-
کرائے کے مکانات میں رہنے والے پشاور کے صحافیوں کیلئے سابق وزیراعلی اکرم
درانی نے میڈیا کالونی کا اعلان کیا تھا صحافی برادری اس کی مشکور ہیں
کیونکہ راقم سمیت بیشتر صحافی جسے ہمارے ہاں "خشاکیان"بھی کہا جاتا ہے
کرایوں کی وجہ سے خوار ہوتے ہیں لیکن لالٹین والی سرکار کی وجہ سے اب یہ
میڈیا کالونی ہمارے گلے کا طوق بن گیا ہے کیونکہ پانچ سال سے اس پر
تعمیراتی کام نہیں کیا جارہا اور گذشتہ پانچ سالوں سے خشاکیانو کو احسان
تلے دبایا جارہا ہے کہ کمی کمینوں کیلئے لکھنے والے "میراثیوں" اگلے مزید
پانچ ہماری مدح سرائی کرو گے تو تب ہی تم لوگو ں کی کالونی کیلئے رقم مختص
کی جائیگی اور اس پر تعمیراتی کام ہونگے یقینا ہماری صحافی برادری کو لفظ
میراتی پر غصہ بھی آئے لیکن صحافت تو اب کہیں پر ہونہیں رہی اب تو ہم لوگوں
خصوصا ایلیٹ کلاس کو خوش کرنے والے اداکار ہیں اور لوگوں کو خوش کرنے والوں
کو عرف عام میں یا تو جوکر کہا جاتا ہے یا پھر میراثی اب یہ ہماری برادری
اپنے کام سے فیصلہ کرے کہ وہ صحافی ہے جوکر ہے یا میراثی - |
|