اساتذہ کی باتیں اور وقت کی اہمیت

آج کلاس میں داخل ہوتے ہی استاد نے وہی ٹاپک شروع کر دیا کے وقت کی قدر کرو وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا اوراگر آج یہ وقت ضائع کر دو گے تو کل کو بہت پچھتاؤ گے وغیرہ وغیرہ بہت ہی کم طلباء تھے شاید پوری کلاس میں سے ایک یا دو جنہوں نے ان کی بات کا کوئی اثر لیا ہو وگرنہ تو پوری کلاس کا آپس میں یہی کہنا تھا کہ یار یہ کیا روز روز وہی بات شروع کر دی جاتی ہے تقریبا تمام کے تمام لڑکے ایک کان سے سنتے اور دوسرے سے نکال دیتے تھے پھر وقت نے بلکل اسی طرح ہمارا انتظار نہیں کیا اور کمان سے نکلے تیر کی طرح ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہمیں ہوش اس وقت آیا جب ہم اپنے اس قیمتی وقت کو جو ہماری صلاحیتوں کو بھروئے کار لانے کا اچھا وقت تھا اپنی نادانی کی وجہ سے کھو چکے اب ہمارے پاس سوائے پچھتاوئے کے کچھ بھی نہیں بچا تھااور ہماری تعلیم مکمل نہ ہو سکی روز سکول سے بھاگ بھاگ کر اپنی تعلیم کا بیڑا غرق کر لیا اور ہماری تعلیم میٹرک سے آگے نہ جا سکی اور آج انڈر میٹرک ہونے کی وجہ سے کہیں پر بھی کوئی کام نہیں مل رہا یہ بات کہتے ،کہتے وہ تقریبا گڑگڑانے کے سے انداز سے بولا صاحب جی خدا کے لیے مجھے یہ چپڑاسی کی نوکری ہی دے دیں میں اور میرے بچے ساری عمر آپ کو دعائیں دیں گے صاحب جی اگر آپ نے مجھے نوکری نہ دی تو ہمارے گھروں میں فاقے شروع ہو جائیں گے یہ کہانی تھی ایک ایسے شخص کی جو نوکری کی تلاش میں میں مارا مارا پھرتا پھراتا بٹ صاحب کے آفس پہنچ گیا تھا اور جب بٹ صاحب نے اس سے اس کی تعلیم کے بارے میں پوچھا تو اس کی جو کہانی تھی وہ آپ لوگوں کو بھی سنا دی ہے میں اس وقت کسی کام کے سلسلے میں بٹ صاحب کے آفس میں بیٹھا ہو تاتھا اس کہانی سے ایک بات تو واضح ہو رہی تھی کہ جب ہمارے پاس وقت ہوتا ہے کچھ کرنے کا تو ہم اس کی قدر نہیں کرتے اور اپنے لیے اس قیمتی وقت کو جس میں ہم اپنی صلاحیتوں کومنوا سکتے ہیں اور مستقبل کے لیے کچھ کر سکتے ہیں ضائع کر دیتے ہیں اور جب سب کچھ لٹ چکا ہوتا ہے تو اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو کوستے ہیں لیکن ؟اس میں قصور ہمارے گھر والوں کا نہیں ہوتا بلکہ ہمارا اپنا ہوتا ہے بنیادی سا نقطہ یہاں سمجھنے کا یہ ہے کہ کیا ہمارے گھر والوں نے ہمیں تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکول نہیں بھیجا تھا ؟کیاہمارے اساتذہ نے ہمیں وقت کی قدر کے بارے میں نہیں بتایا تھا ؟تقریبا تما لوگوں کا ایک ہی جواب ہو گا کہ :ہاں: بتایا تو تھا مگر ہم نے ان کی بات سنی ان سنی کر دی تھی استاد کا رتبہ بہت ہی بلند ہوتا ہے اور استا د بھی تو اس تمام مرحلے سے گزرا ہوتا ہے اس لیے وہ آنے والے برے دنوں کے بارے میں اپنے تجربے کی بنیاد پر ہمیں آگاہ بھی کرتا ہے لیکن وہ جو عمر ہوتی ہے وہ نادانی کی عمر ہوتی ہے سو ہم ان کی باتوں کو روزانہ کے معمول کی باتیں قرار دے کر ان کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں لیکن ان کا اصل نچوڑ ہمارے سامنے اس وقت آتا ہے جب ہماری عمرچالیس ،پینتالیس سال کو چھو رہی ہوتی ہے لیکن اس وقت ہم بے بس ہو چکے ہوتے ہیں ہمیں رہ رہ کر اپنے والدین اور اساتذہ کی باتیں یاد آتی ہیں پھر ہم سوچتے ہیں کہ کاش ہم نے ان سے تھوڑا سا سیکھ لیا ہوتا اس وقت بہت شدت سے اپنے اساتذہ کی باتیں یاد آتی ہیں کہ جن کا قول ہوتا ہے کہ علم کے بغیر انسان ادھورا ہے انسان کی شخصیت اسی وقت مکمل ہوتی ہے جب اس میں علم کی شمع کا اجالا ہو جاتا ہے آج کہ ہمارے جتنے بھی نوجوان جو تعلیم حاصل کرنے کی عمر میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر چکے ہیں اور ان کے پاس سوائے زمانے کی ٹھوکریں کھانے اور زمانے کی سختیاں سہنے کے بجائے کوئی اور دوسرا آپشن نہیں ہے ان کو یہ بات اچھی طرح یاد ہو گی کہ ان کے کس کس استاد نے ان کو تعلیم کے حصول اور اس وقت کی اہمیت کا بتایا ہو گا اس وقت کی عمر میں عموما طلبہ کو سکول سے زیاد سکول سے چھٹی کی پڑی ہوتی ہے یہ بات عموما پاکستان کی دیہات میں بہت ہی عام ہے کہ وہاں کے طلبہ استاد کی باتوں کو اس طرح نہیں سمجھتے جس طرح ان کو سمجھنا چاہیے اب تو بچوں کو گورنمنٹ کے سکولوں میں ڈالنے کے بجائے پرائیویٹ سکولوں میں ڈالنے کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے جن میں سے زیادہ تر صرف اور صرف بزنس پوائنٹ ہیں وہاں کی تعلیم کا معیار بچوں کا مستقبل بنانے کی بجائے اسے برباد کر رہے ہیں ان اداروں پر والدین کو یقین ہوتا ہے کہ شاید تعلیم کسی تعویظ کا نام ہے جو پرائیویٹ سکولوں والے ہمارے بچوں کو گھول کے پلا دیں گے اور وہ ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ بن جائیں گے اور گورنمنٹ سکولوں کے بارے میں عموما یہ تاثر عام ہے کہ وہاں کے اساتزہ بچوں پر اس طرح کی توجہ نہیں دیتے جس طرح پرائیویٹ سکولوں والے لیکن سرکاری سکولوں میں جو اساتذاہ اپنے شعبے سے مخلص ہیں ان کے مقابلے کی تعلیم پرائیویٹ سکول بھی دینے سے قاصر نظر آتے ہیں اس کی بنیادی وجہ ہے کہ ان اساتذہ میں اپنے طالب علم کو کچھ ڈیلور کرنے کا جزبہ انتہا کی حد تک پایا جاتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے طلبہ ان کے نام کو رہتی دنیا تک قائم رکھیں آج بھی بہت سے لوگ آپ کو ملیں گے جن کی عمریں ستر،اسی سال ہوں گی مگر ان کو ان کے اساتذہ کی باتیں ایسے یاد ہیں کہ جیسے یہ کل کی ہی باتیں ہوں جس وقت اساتذہ ہمیں اپنے تجربے کی باتیں بتا رہے ہوتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ ان کو کیا پتامستقبل کے بارے میں مگر ہم اس لمحے یہ بات بھول رہے ہوتے ہیں کہ استاد بھی کھبی شاگرد تھا اور وہ ان تمام مرحلوں سے نکل کر آیا ہے اور ہمیں اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ سب کچھ بتا رہا ہے مگر ہم ان کی باتوں پر توجہ نہیں دیتے اور نتیجے میں اپنا وہ قیمتی وقت ضائع کر دیتے ہیں جو کھبی بھی واپس نہیں آ سکتا بعد ازاں ہم چاہتے ہیں کہ کاش وہ وقت واپس آ جائے مگر بلکل اسی طرح کہ گیا وقت کھبی بھی واپس نہیں ا ٓتا اس وقت اگر استاد ہمیں یہ باور کروانے میں کامیاب ہو جائے تو یقینا وہ لوگ جو سمجھ رکھتے ہیں وہ زندگی میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی منزل کو پا لیتے ہیں اس لیے ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اپنے بچوں کے اس قیمتی وقت پر نظر رکھیں اور انھیں اس قیمتی وقت کی بابت باور کروانے کی کوشش کریں تا کہ کل کلاں کو ہمارا کوئی بچہ اس شخص کی طرح کسی کے قدموں میں بیٹھ کر اپنے روزگار کی بھیک نہ مانگ رہا ہو۔
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227186 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More