کچھ دنوں سے اہل ِعلم حضرات
دو ر ِجدید کے نت نئے تقاضوں سے ہم آہنگ ،”مروجہ جدید تعلیم اورمدارس میں
رائج نبوی تعلیم “کے اختلاط کے پیش نظر انتہائی اہم اورقابل ِعمل تجاویزاور
اصلاحات نہایت مدلل اور مثبت انداز میں پیش کر رہے ہیں،ان حضرات کی یہ
تجاویزیقینا خلوص نیت پر مبنی ہیں جن پر غور وفکر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے
تاکہ مسلمان پھر سے اپنا کھویا ہوا مقام حا صل کر سکیں۔اس میں قطعا دو رائے
نہیں کہ‘ دنیا کی موجودہ چکاچوند کرنیں ،بلند وبالاپرکشش عمارتیں ،مہینوں
کی طویل اور کٹھن مسافتوں کا گھنٹوں اور دنوں میں طے ہوجانا ، او رانسانیت
کی بروقت طبی مدد کے ذریعے کروڑوں انسانوں کودوبارہ نئی زندگیاں مل
جانااورحیاتِ انسانی کو موم کی طرح اس قدر آسان بنا دیناکہ اگر ایک صدی قبل
کے انسان زندہ ہوں تووہ بھی دنگ رہ جائیں‘ دورِحاضرکی یہ سب محیر العقول
کرشماتی تبدیلیا ں جدید تعلیم ہی کا مرہوں منت ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان قوم ہر طرح کے علوم وفنون کی بانی رہی ہے ،آج
یورپ جن کندھوں کے سہارے آسمانوں تک پہنچا ہے وہ کندھے انہی مسلمانوں کے
ہیں جن کی محنت ،تعلیم وتعلم ،راست گوئی اور بہادری کا طوطی پور ی دنیا میں
بولتا تھا ۔ دورِحاضر کی نت نئی ایجادات کا کریڈٹ بھی درحقیقت مسلمانوں ہی
کو جاتاہے جن کی پکی پکائی کھیتی کو صاف شفاف بنا کر” حزب الشیاطین “دنیا
پر حکمرانی کررہے ہیں۔ان سب حقائق کے باوجود آج کامسلمان قطعا اپنے آباءکی
بے مثل وراثت کا حقدار نہیں کہلا سکتا،کیوں کہ یہ نہ صر ف ان کی لازوال
قربانیوںا ور انتھک کاوشوں کو فراموش کرچکاہے بلکہ ان کے علوم اورکارناموں
کے بل بوتے پر تسخیر ِعالم کے گن گانے والے شیطانی کارندوں کا غلام بھی بن
چکا ہے ،جس کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمان غلاموں کی طرح زندگی بسر کرہے
ہیں ۔جلتی پر تیل کا کام عصرِ حاضر میں طبقاتی نظامِ تعلیم کے ناسور نے
کیا،جس کے باعث قوم کے معماروں کی غیرمعمولی صلاحیتوں اور ان کے
افکارونظریات کا بے دردی سے ضیاع ہورہاہے اور وہ یا تو فقط فرنگیت کے رنگ
میں ڈھل کر” مسٹر“ کہلاوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں یا پھر علوم الہیہ سے
سر شار ہوکر” ملّا“کہلاتے ہیں۔اس ناسور نے مساجد ومدارس، سکول و کالج کے
درمیاں ایک دیوارحائل کردی ہے جس کی وجہ سے وحدت کا شیرازہ بکھر گیاہے اور
مسلمان روبہ زوال ہورہے ہیں ۔لہذا اس طبقاتی تفریق کے ازالے کے لیے قوم کے
بڑوں کو قدم بڑھا نا ہوں گے ،خواہ یہ بڑے گروہِ اول سے تعلق رکھتے ہوں
یاگروہ ِ ثانی سے۔اسی طرح اس تفریق کو مٹانے کے لیے سب سے پہلے مقاصد تعلیم
اوراس کی اغراض کا تعین کرنا ہوگا،ظاہر ہے کسی قوم کانظا م تعلیم اس کے
مخصوص عقائد ونظریا ت اور اقدار و روایات کا آئینہ دار ہوتاہے ،انگریز نے
جو نظام تعلیم دیا وہ اس کے مخصوص نظریا ت اور تقاضوں کا ترجمان تھا ۔یہ
نظام تعلیم ہمارے مذہب وملت کے خلاف ایک گہری سازش تھی،بقول علامہ اقبالؒ:
اور یہ اہل ِ کلیسا کا نظام ِ تعلیم
اک سازش ہے فقط دین ومروت کے خلاف
چونکہ فرنگی نظام تعلیم مسلمانوں کی وحدت ،اخلاق وکردار کے سراسر خلاف تھا
اسی وجہ سے اکبرالٰہ آبادی یہ کہنے پر مجبور ہوئے :
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
فرنگی نظام ِ تعلیم ہی کی نحوست کا نتیجہ ہے کہ آج کا مسلمان مذہب وملت سے
بے گانہ ہوگیا ہے ،اپنی پہچان ،زبان اورقومی ثقافت کو ترک کربیٹھا ہے ،باہمی
اتحاد واتفاق ،اد ب واحترام ،رحمد لی ،جذبہ ایثار وقربانی ،اخوت بھائی
چارگی جیسی عمدہ صفات سے محروم ہوچکا ہے ۔
اسی طرح اس طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے کے لیے علماءدین کو بھی اپنے موجودہ
نظام ِ تعلیم پرباہم مشاورت کرناہوگی اور جدید علو م کو اپنا کراپنے آباﺅ
اجداد کی وراثت کو محفوظ بناناہوگااور دنیا پرمسلط سائنس وٹیکنالوجی کے
علمبرداروں کے قلعے فتح کرنا ہوں گے کیوں کہ دنیا تیزی سے ارتقائی منازل طے
کررہی ہے یہ دور سائنس وٹیکنالوجی کا دور ہے جو قومیں ان تقاضوں سے ہم آہنگ
نہیں ہوتیں وہ ہمیشہ گمنام رہتیں ہیں اورکبھی ترقی نہیں کرسکتیں۔
یہ حقیقت ہے کہ آدمی دو راستوں پر بیک وقت نہیں چل سکتا ہاں مگر الگ الگ
اوقات میںچلنا ممکن ہے۔پس اسی طر ح مدارس کے لیے بھی بیک وقت ان دو راستوں
کا انتخاب نا موافق ہے ،کیوں کہ اس صورتحال میں فوائد کی بجائے نقصانات
زیادہ ہیں ۔اس کی ایک چھوٹی سی مثال اولیٰ پلس میڑک ہے، جب سے مدارس میں اس
کا رواج پڑھا ہے تب سے طلباءکے ذوق وشوق اوراستعداد میں کافی حد تک کمی
ہوئی ہے ۔ اسی طرح جو طلباءمروجہ درس نظامی کے دوران ان دوراستوں پر چلنے
کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی عموما دونوں میں ادھورے رہ جاتے ہیں۔یہاں یہ بات
بھی غور طلب ہے کہ عصرحاضر میں تقریبااکثر وبیشتر طلباءاس طر ف رجحان رکھتے
ہیںکہ وہ عصری تعلیم بھی پڑھیں۔جب ان طلباءکو مدارس میں اس تعلیم کے لیے
کوئی مناسب نظام نہیں ملتا تو وہ پھر اولیٰ پلس میٹر ک اور پرائیوٹ طریقے
سے اس خواہش کی تکمیل کرتے ہیں جو نا مکمل رہتی ہے ۔لہذا بہت بھاری ذمہ
داری عائد ہوتی ہے علماءکرام پر کہ وہ دور ِحاضر کے مطابق مدارس کے لیے
تعلیمی پالیسی تشکیل دیںاور یہ پالیسی اس طرز کی ہو کہ ہر طالب علم کو اپنی
اپنی فطری صلاحیت استعمال کرنے کا مکمل اختیار ہو اور وہ بلاجھجھک اپنے لیے
کسی ایک راستہ کا انتخاب کرسکے ،مثلا اگر اس کی فطری صلاحیت ڈاکٹر بننے کی
ہے تو اسے ڈاکٹربننے کا مکمل اختیار دیا جائے اور اس کے لیے اسے ایک خالص
دینی ماحول میسرہو جو عین شرعی اصولوں کے مطابق ہو،اسی طرح دیگرشعبوں میں
ہونا چاہیے ۔اس کے لیے موجودہ نصاب ِدرس نظامی کو برقرار رکھتے ہوئے ساتھ
کچھ نہ کچھ حذف ِ حشوو زوائدکے ، الگ سے ایسے ادارے بنا ئے جائیں کہ جن میں
خالص عصری علوم کی تعلیم دی جائے اور نظام ِ تعلیم دورِ حاضر کے تقاضوں کے
عین مطا بق اور معیار ی ہو،اور یہ نظام تعلیم ملی روایا ت ،عقائد ونظریات
کی ترجمانی کرے اور نوجوانوں کو مثالی مسلمان اور بہتر انسان بنائے کیوں کہ
نظام تعلیم قوموں کی زندگی میں بنیادی اہمیت رکھتاہے،کہتے ہیں اگر کسی قوم
کو بدلنا ہو تو اسکا نظام تعلیم بدل دیا جائے وہ قوم خود ہی بدل جائے گی۔
اور یہ ادارے اس طرز کے بنائے جائیں کہ اس میں ہر طرح کے طلباءکے لیے تعلیم
حاصل کرنا آسان ہو ،مثا ل کے طور اگر ایک طالب علم دورہ حدیث سے فراغت کے
بعد ڈاکٹر بننا چاہے تو اس کے لیے ان اداروں کے دروازے کھلے ہوں او ر اس کی
موجودہ تعلیم کے مطابق ڈاکٹریٹ کا نصاب وضع کردہ ہو ،اسی طر ح اگر کوئی
حافظ قرآن درس نظامی نہیں کرنا چاہتاتو اس کے لیے ان اداروں میں خالص دینی
ماحول ہو جس میں اس کی شرعی اصولوں کے مطابق تربیت کی جائے اور ضروریا ت
دین کی تعلیم بھی اسے مل سکے ، اسی طرح اگر کسی بچے کے والدین اپنے بیٹے کو
فقط انجینئر،پولیس آفیسروغیرہ بنا نا چاہیں تو وہ بلا جھجھک ان اداروں میں
داخل کروائیں اور پھران اداروں میں اس بچے کو انجینئر بھی بنا یا جائے اور
ساتھ ساتھ ضروریات دین کا عالم بھی بنایا جائے ،اسی طرح اگر کوئی طالب علم
مکمل درس نظامی نہیں پڑھنا چاہتا بلکہ وہ کسی ایک خاص فن میں مہارت حاصل
کرنا چاہتے ہے تو اس کے لیے کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہ ہو، اسی طرح اگر کوئی
طالب علم دور ہ حدیث سے فراغت کے بعد کسی مضمون میں پی ایچ ڈی کرنا چاہے تو
اس کے لے بھی راستے کھلے ہوں۔خلاصہ یہ کہ یہ ادارے علماءحضرات کی نگرانی
میں چلیں اور ان اداروں میں ہر طالب علم کو اس کی فطری صلاحیتوں کوآزمانے
کا مکمل موقع میسر آئے ،جیسا کہ عظیم مذہبی سکالر مولنا زاہدالرشدی صاحب کے
زیر نگرانی شاہ ولی اللہ یونیورسٹی چل رہی ہے ،اگراس طرح کے ادارے قائم
ہوجائیں تو انشاءاللہ بہت جلد”دینی مدارس میں مخلوط عصری تعلیم کا خواب
“حقیقت بن جائے گا اور طلباءبھی اِدھر ادھر ہچکولے کھانے سے بازآجائیں گے ۔
یہ ادارے ہماری اقداروروایات ،ثقافت اور الگ پہچان باقی رکھنے میں کارگر
ثابت ہوں گے اور نوجوان نسل کی تعمیری سوچ میں بھی رہنمائی کریں گے،نیزاس
طرز کے دینی عصری ادارے طبقاتی تفریق کے خاتمہ میں بھی معاون ثابت ہوں گے
،اور فرنگی نظام تعلیم اور ا س کی نحوست کے ازالہ کا سبب بھی بنیں گے اور
ساتھ ساتھ ملک کو درپیش تمام مسائل کے حل میں کافی حد تک کامیابی ملی گی۔
اٹھ کہ خورشید کا سامان سفر تازہ کریں
نفس سوختہ شام وسحر تازہ کریں |