پوری دنیا میں مافیا کالفظ خوف ،
نفرت او ر دہشت کی علامت سمجھا جاتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ لفظ مافیا
بذات خودبرا ہے کیونکہ استحصال کی سب سے بڑی اور نمایاں عامت ہے مثلا کمیشن
مافیا، بوٹی مافیا، انڈرورلڈ مافیا، کرپشن مافیا ٹمبر مافیا اور بھکاری
مافیا وغیرہ اور آجکل بھکاری مافیا جتنا سرگرم عمل ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی
بات نہیںبھکاری مافیا کے اپنے اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ علاقے اور جگہیں بٹی
ہوتی ہیں کوئی کسی دوسرے کے علاقے میں جا کر بھیک نہیں مانگ سکتااور اگر
کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے جرمانے کے ساتھ ساتھ سزا بھی دی جاتی ہے۔ بھکاری
مافیا اپاہج اور معذور بچوں کو اپنے کیمپوں میں باقاعدہ ٹریننگ دے کر ان کا
برین واش کرکے مختلف علاقوں اور پوائنٹس پر چھوڑ جاتے ہیں اور جو سرکش قسم
بچے یا خریدے گئے بچے ہوتے ہیں ان کی باقاعدہ نگرانی کی جاتی ہے یہ وہ بچے
ہوتے ہیں جنہیں اس قبیح عمل کیلئے اغوا کرکے ان کے پیاروں سے جدا کرکے تیار
کیاجاتا ہے۔
یہ بھکاری وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود اپنے لئے بھی کماتے ہیں اور اپنے مالکوں
اور کرتا دھرتاﺅں کی روزی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں اور یہ مالک اور کرتا
دھرتا لوگ سختی کرنے کے علاوہ ان کو پروٹوکول بھی دیتے ہیں ان کو پک اینڈ
ڈراپ کی بہترین سہولیات بھی دی جاتی ہیں۔ کہیں موٹر سائیکل پر تو کہیں کار
پر اور کہیں بڑی گاڑیوں میں ان کو ان کے علاقوں اور ٹھکانوں تک پہنچایا
جاتا ہے۔
یہ تمہید باندھنے اور لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے ملک میں ایک اور طبقہ
بھی اسی کام پر لگا ہوا ہے یہ اشرافیہ کہلاتے ہیںجو یہ سمجھتے ہیں کہ ملک
کا نظام اور باگ دوڑ انہیں کے ہاتھوں میں ہے اگر انہوں نے یہ فریضہ انجام
نہ دیا تو ملک کا دیوالیہ نکل جائے گاحالانکہ دیوالیہ تو یہ لوگ نکال چکے
ہیں۔انکل سام سے ملک کے عوام کا سودا کرکے امداد کی صورت میںبھیک مانگی
جارہی ہے اور جس طرح یہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ یہ لو اور دو کی پالیسی
پر عمل پیرا لوگ دھڑلے سے یہ ٹوپی ڈرامہ کررہے ہیں کہ غریب عوام کیلئے
امداد کی اشد ضرورت ہے۔یعنی عوام کو بھی بھکاری اور مقروض بنادیا ہے
حالانکہ غریب عوام کو پتہ ہی نہیں کہ انہیں کہاں کہاں بیچا جارہا ہے۔ کہاں
کہاں ان کی بولی لگا کر نہیں فروخت کیا جارہا ہے اور پھر فروختگی کے بعد
وصول ہونے والی خطیر رقم(بھیک) کو کہاں پر ، کیسے اور کب استعمال کیا جا
رہا ہے آیا کہ استعمال بھی کیا جارہا ہے یا اپنی ہوس ناک تجوریوں کو بھرا
جارہا ہے بینک بیلنس بڑھایا جارہاہے اور یقینا ییہ بات ہے کہ اپنے پیٹ کے
جہنم کو ایندھن مہیا کرکے اسے دہکایا جارہا ہے کیونکہ اگر یہ امداد(بھیک)
کہیں پر استعمال ہوتی تو نظر ضرور آتی اس کا آﺅٹ پٹ دکھائی دیتا۔ لیکن
معاملہ تو الٹ ہی نظر آتا ہے کہ خوشحالی کی بجائے بدحالی کے ڈیرے ہیںارزانی
کی بجائے گرانی منہ پھاڑے نگلنے کو تیار ہے۔ ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار
ہیں۔ لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہماری پالیسیوں کا منہ چڑا رہا ہے گیس کی قلت
ہمارے گیس کے ذرائع کا پول کھول رہی ہے۔ تعلیمی فقدان ہماری نسل نو کو
کچوکے لگا رہا ہے۔ طبی سہولیات کی کمی غیر صحتمندانہ معاشرے کی دلیل دے رہی
ہے اور ہم ہیں کہ بھیک پہ بھیک مانگے جارہے ہیں اور مسائل کا لاینحل سلسلہ
بڑھتا جارہا ہے۔ قرض بڑھتا جارہا ہے مسائل بڑھتے جارہے ہیں بجلی گیس پانی
غائب ہورہے ہیں ان کے اخراجات دو سو فیصد بڑھ چکے ہیں ہمارے ”بھکاری
بادشاہ“ اپنی گدڑیوں کو بھرتے جارہے ہیں اور عوام ہیں کہ ان کے بستر تک بک
رہے ہیںاور اب وہ اپنے پیاروں اپنے لخت جگر تک بیچنے پر مجبور ہوگئے ہیں
لیکن ہمارے حکمران ہیں کہ اس امداد کو پنے باپ کی جائیداد گردانتے ہوئے اس
پر ہاتھ صاف کئے جارہے ہیں-
ملک میں افراتفری ہے ۔ بے سکونی و بے چینی ہے۔ بے روزگاری و افلاس نے اپنے
پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ بھوک نوے فیصد عوام کو ہڑپنے کو تیار ہے لیکن ہمارے
حکمرانوں کی شاہی خرچیاں روزافزوں بڑھتی جارہی ہیں ۔70 70 کے وفد کی شکل
میں اپنے خاندانوں اور اپنے خوشامدیوں کو برطانیہ کی سیر کرائی جارہی ہے
افریقہ میں ہنی مون منایا جارہا ہے۔ عوام ہے کہ کھانے کو تنکے تک کو ترستی
ہے اور اشرافیہ مفلس عوام کو یبچ بیچ کر اللے تللوں پر ناجائز اور بے جا
صرف کررہی ہے یعنی بھکاریوں سے بھی بڑھ گئے ہیں کہ جن کی خاطر اور جن کے
ایما پر بھیک مانگتے ہیں ان کو کم از کم ان کا حصہ تو دے دیتے ہیں لیکن
ذرائع کے مطابق یہ بھکاری بادشاہ اس کو ہوا تک لگنے نہیں دیتے اور باروں
بار(باہر ہی باہر سے)ہی اپنے اکاﺅنٹس میں ٹرانسفر ہو جاتی ہے یا پھر غائب
کردی جاتی ہے اس کا سایہ تک عوام پر نہیں پڑنے دیا جاتا ہے۔
یہ بھکاری بادشاہ اپنے درباریوں کو نوازتے ہوئے بھی باربار سوچتے ہیں اور
کوشش کرتے ہیں کہ صرف خالی خولی ٹرخا دیا جائے ٹوم ٹلی سجالی جائے۔لیکن اس
طرح سے کسی بھی صورت ملک میں مسائل کا سلسلہ کم نہ ہوگا اور بڑھتا ہی جائے
گااور پھر بھوکی پیاسی اور مفلس عوام سوائے رونے چیخنے چلانے اور
واویلاکرنے کے کیا کر سکتی ہے اور جب معاملہ بہت زیادہ برداشت سے باہر ہو
جائے تو پھر خود کشی اور خودسوزی کی شکل میں اپنے غصے اور بے بسی کااظہار
کرتی ہے لیکن اشرافیہ اور بھکاری بادشاہوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا ان
کی ذات پر کوئی فرق نہیں پڑتااور عوام اسی طرح اپنی قیمتی جانوں اور خون و
پسینے کو ضائع کرتی اور بہاتی رہے گی اور حکمران اپنے معمولات کو اسی شد
ومد کے ساتھ جاری رکھیں گے اور بھوکے اور بھکاری دونوں انقلاب کا انتظار
کریں گے۔ |