آج جب میں یہ کالم لکھنے بیٹھا
ہوں تو یہ 19 دسمبر کی شام ہے اور جب یہ آپ تک پہنچے گا اس وقت تک بہت سوں
کے لیے وسوسوں اور خوف سے بھرا اکیس دسمبر گذر چکا ہوگا اور مجھے حیرت اس
بات پر ہے کہ جب موت کا ایک دن معین اور مقرر ہے اور جو بھی پیدا ہو ا ہے
اس نے مرنا ہے اور اگر کچھ باقی رہنا ہے تو وہ صرف اس جبا و قہار مالک ارض
و سماءنے ہے جو ازل سے ہے اور ابدالاباد تک ہے،جب فنا ہی مقدر ہے تو پھر ڈر
اور خوف کیسا اور تاریخیں کیسی کہ قیامت کل آرہی ہے یا پرسوں،جب مرنا ہی ہے
تو آج مر گئے یا چند سال بعد ،لافانی جب کچھ ہے ہی نہیں تو پھر کیسی بحث
اور کیسے مباحثے،انسانی زندگی ہے ہی کتنی، کون ہے جو کہہ سکتا ہے کہ وہ
کبھی نہیں مرے گا یا چلیں یہ ہی سہی کوئی ایسا ہی مل جائے جو یہ کہے کہ وہ
ہزاروں سال زندہ رہے گا،یہاں تو اگلے لمحے کا بھی پتہ نہیں اورجو مر گیا اس
کی اسی دن قیامت،مرنے کے بعد اسے کیا قیامت دو دن بعد آجائے دو سو سال بعد
یا دو لاکھ سال بعد ، میں نہیں جانتا یہ مایا یا مایا ن کون تھے اور انہوں
نے کیسی کیسی پیشن گوئیاں کیں مگر بتانے والے بتاتے ہیں کہ یہ وقوم تھی جو
اپنے وقت میں ترقی کے عروج اور کمال پہ پہنچی اس نے پتھروں سے توانائی پیدا
کی اور آنیوالے حالات و واقعات کے زائچے بنائے اور بے شمار پیشن گوئیاں کیں
اور انکی اب تک کی اکثر پیشن گوئیاںٹھیک ثابت ہوئیں جن میں دو بڑی جنگیں
اور ان میں لاکھوں افراد کا قتل،دو بڑے شہروں کی آگ کے ذریعے
تباہی(ہیروشیما اور ناگاساکی)اور سمندری طوفانوں کی پیشن گوئیاں سب سچ ثابت
ہوئیں اور انہی مایان نے پیشن گوئی کر رکھی ہے کہ 21 دسمبر2012 اس دنیا اور
اس زمین کا آخری دن ہو گا،انہوں نے اپنا جو کیلنڈر ترتیب دیا تھا اس کے
مطابق بھی اکیس دسمبر کو دنیا کا دفتر لپٹ جانا ہے،5125 سال سے رائج مایان
کیلنڈر کا 21 دسمبر 2012 اس زمین و دنیا کا آخری دن ہے ان کے مطابق اس کی
توجیح وہ سیارہ یا ستارہ ہے جو 7200 کے بعد زمین کے قریب سے گذرتا ہے اور
اپنے ساتھ تباہی اور بربادی لاتا ہے اور اتنا ہی عرصہ قبل یہ جب زمین کے
قریب سے گذرا تھا تو تباہی اور بربادی ساتھ لایا تھا ، یہ ستارہ اپنے مدار
میں چھ چاند رکھتا ہے اور جب یہ زمین کے قریب سے گذرے گا تو اس کے چاند
پورے جوبن پر ہوں گے اور ان کی چاندنی سمندر کو اتھل پتھل کر دے گی اور
روئے زمین پر ہر طرف پانی ہی پانی اور طو فان بادو باراں ہو گا اور دنیا
آدھی سے زیادہ تباہ ہو جائے گی اور یورپ نے تو بالکل بھی نہیں بچنا ،مایان
کے نظریے کو ماننے والوں کے مطابق سات ہزار دو سو سال پہلے یہ ستارہ حضرت
نوحؑ کے دور میںگذرا تھا اور زمین کو تباہ برباد کر گیا تھا ،اب قطع نظر اس
کے کہ سائنس اور سائنسدان اس بارے میں کیا کہتے ہیں ہمارے پاس اس تھیوری کو
یکلخت ردی کی ٹوکری میں پھینک دینے کی ایک ہزار توجیحات موجود ہیں،سب سے
بڑی دلیل اور لاجک ہمارے پاس اللہ کی دی ہوئی کتاب قرآن پاک موجود ہے جس نے
کہیں بھی ہمیں کوئی ایسی کنفرم خبر نہیں دی اور نہ کوئی ماہ و سال ہی بتائے
ہیں ہاں علامات ضرور بتائی ہیں اور قیامت کب قائم ہو گی یہ اس ہستی کے
علاوہ کوئی نہیں جان سکتا جس نے یہ سارا نظام بنایاہے اور جب قائم ہو گی تو
ماں بچہ جننا بھول جائے گی،باپ بیٹے کو بھائی بھائی کو پہچاننے سے انکار
کردے گا،زمین الٹا دی جائے گی پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑیں گے اور جہاں
تک بات ہے حضرت نوح ؑ کے دور کے طوفان کی تو وہ کسی بھی ستارے کے گذرنے یا
پانچ چھ چاند ساتھ لانے کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے ایک نافرمان
قوم کی طرف بھیجا گیا عذاب تھا جو خالصتاًاللہ رب العزت کی مرضی اور
منشاءکے مطابق نازل ہو ا،اور ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہر کام صرف اور صرف اللہ
کی مرضی اور منشاءسے وقوع پذیر ہوتا ہے اور جو کہتے ہیں کہ مایان کی تمام
پیشن گوئیاں ٹھیک ثابت ہوئیں ان کی عقل اس پیشن گوئی کے رد ہونے پر ٹھکانے
آجائے گی اور شاید قدرت کو یہی دکھانا مقصود بھی ہے کہ ان کی اس سے قبل
تمام پیشن گوئیاں ٹھیک ثابت ہوئیں اور اب کی بار اس نظام ہستی کی مالک ذات
بتا دے گی کہ اصل طاقت کون اور کس کے پاس ہے،وہ نہ چاہے تو پتہ بھی نہی ہل
سکتا ،صرف اسی کو خبر ہے کہ کل کیا ہونا ہے کوئی نہیں ہے جو اس کے علم کا
احاطہ تو دور کی بات تصور بھی کر سکے،قرآن پاک میں ہے کہ کوئی پتہ نہیں
گرتا مگر اللہ کو اس کی خبر ہوتی ہے اب ذرا صرف اسی بات پہ ایک لمحے کے لیے
غور کر لیا جائے تو عقل ٹھکانے آجاتی ہے،کہ کوئی پتہ نہیں گرتا جس کی اللہ
کو خبر نہ ہو،اپنے صحن میں لگے کسی ایک پو دے کے پتوں کو دیکھیں پھر تما م
پودوں کو پھر اپنے آس پاس پھر تھوڑا باہر نکل کر اور پھر یہ جنگلوں کے جنگل
انسان سوچتا ہے تو اس کی سو چ پلٹ کر واپس اس تک ہی آجاتی ہے،یار لوگ عرصہ
دراز سے اکیس دسمبر کا راگ الاپ رہے ہیں اور جب بھی کسی نے میرے سامنے اس
کا ذکر کیا کہ بس اب تو گئے کہ گئے تو ان کی عقلوں پہ ماتم کرنے کو جی
چاہا،مگر اس میں سارا قصور عام آدمی کابھی نہیں ،یہ بحث سوشل میڈیا سے ہوتی
ہوئی ینگ الیکٹرانک میڈیا پہ پہنچی اور پرائم ٹائم میں باقاعدہ ایک فضا
ءبنا کے لوگوں کو خوفزدہ کیا گیا،جب سائنسدانوں نے کہا کہ اس زمین کو اگلے
دس لاکھ سال کوئی خطرہ نہیں تو ان کی بات یہ کہہ کر سنی ان سنی کر دی گئی
کہ ان کو کیا پتہ مایان کی کوئی پیشن گوئی اس سے قبل غلط ہوئی جو یہ ہو گی
اورجب قرآن کی بات کی گئی تومایان مایان کی رٹ اور جس نے بھی یہ سارا قصہ
گھڑا اس نے بڑی خوبصورتی سے مذہبی طاقتوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے اس
طوفان بلاخیز کا رخ یورپ اور امریکہ طرف کچھ زیادہ موڑ دیا بس یورپ کی
تباہی تو یار لوگوں کا دیرینہ خواب ہے کہ جن کے نزدیک اللہ رب العزت صر ف
رب المسلین ہے اور جو صبح شام اٹھتے بیٹھتے ان کی توپوں میںکیڑ ے پڑنے کی
دعائیں مانگتے ہیں ۔یورپ اور امریکہ کی تباہی کا سنتے ہی بہت سے نام نہاد
مجتہد بھی ان مایانوں کے ہمنوا بن گئے ،یہ پرلے درجے کی توہم پرستی ہے اس
کے سوا کچھ بھی نہیں ،یوم الدین کب آنا ہے یہ کسی کو نہیں علم سوائے اس کے
جو یوم الدین کا مالک ہے کسی کو بھی اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں اور
زائچے بنانے کی بجائے اپنا کرنے کے جو کام ہیں وہ کریں اور اللہ کے جو کام
ہیں وہ اللہ کو ہم سے بہتر پتہ ہیں،،،،جب یہ کالم آپ تک پہنچے گا تو امید
ہے اس دن یا اکیس دسمبر ہو گی یا گذر چکی ہو گی نہ میرا یہ آخری کالم ہو گا
نہ آپ آخری قارئین،رہے نام اللہ کا،،،،،،،، |