اتباع شریعت اور خواہشات کی قربانی

ضبط وترتیب : اہلیہ متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد:
فاعوذباللہ من الشیطان الرجیم،بسم اللہ الرحمٰن الرحیم،وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا o وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا o مَا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَقْدُورًا o الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا o
میں نے پارہ نمبر 22میں سے سورۃ احزاب کی چار آیات کریمہ کی تلاوت کی ہیں ان آیات کریمہ کا شان نزول اگر سمجھ آئے تو پھر پورا مسئلہ اور آیت کریہ کا مقصد سمجھ آسکتاہے۔

شان نزول اور شان ورود :
عربی زبان میں اور اصطلاحات میں دو لفظ استعمال ہوتے ہیں ایک شانِ نزول اور ایک شان ِورود ،قرآن کریم کی کسی آیت ،یاکسی سورۃ کے اللہ رب العزت کے آسمان سے نازل کرنے کا جو خاص واقعہ سبب بنے اسے قرآن کریم کی آیت کا ”شانِ نزول “ کہتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کےارشاد کا اگر کوئی خاص واقعہ سبب بنے تو اسے حدیث کا تعلق ”شانِ ورود “کہتے ہیں۔

آیات مذکورہ کا شان نزول :
تو ان آیات کریمہ کا شان نزول کیا ہے؟حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صحابی حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ رہا کرتے تھے ان کے اسلام لانے کا قصہ بہت عجیب ، بڑا دردمند ،فکرانگیز اور سبق آموز بھی ہے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ کو بچپن میں اغوا کرلیا گیا،یہ ایک قافلے کے ساتھ کہیں جارہے تھے تو قبیلہ بنو قیس والوں نے قافلے کو لوٹا اور حملہ کیا اس سے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو اغوا کیا اور مکہ مکرمہ میں لاکر بیچ دیا۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے مکہ مکرمہ میں حضرت زید رضی اللہ عنہ کو خریدا اس وقت حضرت خدیجہ کا نکاح حضور ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہوا تھا۔

ام المومنین کی فراخ دلی :
جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے یہ غلام بطور ہدیہ اور تحفہ پیش کردیا حضرت زید حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تھے غلام بھی تھے اور بچے بھی تھے،ادھر حضرت زید کے والد،چچااور ان کا خاندان ان کی تلاش میں پریشان پھرتارہا اور حضرت زید کے ساتھ ان کو و ہی محبت تھی جو والدین کو اپنی اولاد کے ساتھ ہواکرتی ہے حضرت زید کے والد محترم نہایت سردردی کے ساتھ ان کی تلاش میں روتے بھی تھے پریشان بھی ہوتے تھے جس طرح اولاد کے گم ہو جانے کی وجہ سے والدین پریشان ہوتے ہیں۔

والدین کی بے چینی :
ایک مرتبہ کوئی قافلہ ان کے علاقے کا مکہ میں حج کرنے کے لیے آیا وہاں انہوں نے حضرت زید کو پہچان لیا واپس جاکر حضرت زید کے والدین کو بتایا کہ تمہارا بچہ فلاں جگہ پر موجود ہے ہم نے مکہ مکرمہ میں دیکھا ہے بلکہ اس قافلہ نے حضرت زید کو بھی ان کے والدین کا رونا بتایا کہ تمہارے والد روتے ہیں تمہارے والد نے شعر پڑھے ہیں تمہاری محبت کی وجہ سے تمہاری جدائی میں بےحد پریشان ہیں۔

تیرا نعم البدل نہیں کوئی :
حضرت زید نے ان کو تین شعر لکھ کر دئیے کہ یہ میرے والد کو پہنچا دینا، ان کا خلاصہ یہ تھا کہ جس شخص کی غلامی میں ہوں اس سے بہتر کوئی جگہ نہیں ملتی انہوں نے مجھے باپ کا پیار اور محبت دی ہے اس لیے میں ان کو چھوڑ کر نہیں آسکتا ۔

آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں :
حضرت زید کے والدین کو جب پتہ چلا تو وہاں سے ان کے والد اور چچا فدیہ کی رقم لے کر یہاں سے چلے اور مکہ مکرمہ کا سفر کیا، مکہ مکرمہ آکر حضرت زید سے ملے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی آپ ہاشمی اور مکہ کے سردار ہیں آپ غلاموں کو آزاد کرتے ہیں ہں اپنے بیٹے کو لینے آئے ہیں اور اس کے فدیے کی رقم ہم آپ کو دیتے ہیں آپ ہمارا بیٹا واپس کردیں۔

خوشی بارضا بلا جبر واکراہ :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ تمہارا بیٹا زید موجود ہے اگر یہ جانا چاہےتو بغیر فدیے کی رقم کے میں باخوشی اسے آپ کے ساتھ بھیجنے کو تیار ہوں ، اگر یہ خوشی سے واپس نہ جانا چاہے تو اس کو جبرا تم نہیں لے جا سکتے۔

دنیا کی سب سے بڑی دولت ……غلامی رسول :
ان لوگوں نے حضرت زید سے گفتگو کی تو زید نے فرمایا کہ حضور کی ذات مبارک کو چھوڑ کر آپ کے ساتھ نہیں جاسکتا تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنے لگے والدین نے بہت سمجھایا کہ دیکھو تم وہاں آزاد رہو گے یہاں تم غلام ہو تو انہوں نے فرمایا کہ اگرچہ میں غلام ہوں لیکن دنیا میں ایسے شخص کی غلامی تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتی لیکن میرا مقدر ہے کہ اس شخص کی غلامی مجھے مل گئی میں ان کو چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔

متبنیٰ )منہ بولا بیٹا:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس بات کا علم ہوا تو حضرت زید کو اپنی گود میں لے لیا اور فرمایا آج کے بعد زید میرا بیٹا ہے۔ تو زید نبی کی گود میں بیٹھ گئے حضور نے اسے منہ بولا بیٹا بنا لیا حضرت زید کے والد اور چچا یہ منظر دیکھ کر وہاں سے واپس ہوگئے کہ جب زید بھی خوش ہے اور جن کی خدمت میں ہے وہ بھی خوش ہیں ہمیں یہ بھی پتہ چل گیا ہے اولاد کہاں پر ہے تو خوشی کے ساتھ حضرت زید کو چھوڑ کر واپس چل دئیے تو جب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منہ بولا بیٹا بنایا تو اس دن سےانہیں زید بن حارثہ کی بجائے مکہ والوں نے زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہنا شروع کردیا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی بیٹے تو نہیں تھے،منہ بولے بیٹے تھے جن کو عربی میںمتبنیٰ کہتے ہیں تو زید بن محمد کے نام سےیہ مشہور ہوئے ۔

قرآن کریم کا آفاقی حکم :
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں باپ جیسا پیار بھی دیا اور باپ والی محبت بھی عطافرمائی حضرت زید کو چونکہ زید بن محمد کہا جاتاتھا لیکن جب قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی اُدْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ کہ جس شخص کا حقیقی بیٹا نہ ہو بلکہ منہ بولا بیٹا ہو تو اس کو حقیقی باپ کی طرف منسوب کرنا چاہیے یعنی جس کو منہ بولا بیٹا بنایا ہے اسی کی طرف منسوب نہیں کرنا چاہیے تو اس دن سے زید بن محمد کی بجائے زید بن حارثہ کہا جانے لگا،اس آیت کے نزول کے بعد حضرت زید رضی اللہ عنہ کو اس بات کا شدید دکھ ہوا کہ میری نسبت بدل گئی ہے کہ پہلے دنیا مجھے زید بن محمد کہتی تھی اب زید بن حارثہ کہتی ہے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی احساس تھا کہ حضرت زید کو اس بات کا نہایت دکھ ہے اور افسوس ہے۔

دکھ کا مداوا :
ان کے اس دکھ اور افسوس کو ختم کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب کا نکاح حضرت زید بن حارثہ سے کرانا چاہامقصد یہ تھا کہ اس رشتہ کی وجہ سے حضرت زید کا دکھ ختم ہوجائے گا اور وہ خو ش ہوجائے گا کہ حضور علیہ السلام کی پھوپھی کی بیٹی میرے نکاح میں ہے۔ اور خاندان نبوت کے ساتھ ہماری رشتہ داری بن گئی ہے۔حضرت زید نے غلامی کو آزادی پر ترجیح دی ہے والدین کی بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کو پسند کیا ہے تو اس شخص کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کو راحت اور خوشی ملنی چاہیے۔

پیغام نکاح اور انکار :
تو حضرت زینب کے ہاں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کے لیے نکاح کا پیغام بھیجا تو حضرت زینب بنت جحش اور ان کے بھائی عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہما دونوں نے اس رشتے سے انکار کردیا اور انکار کی وجہ یہ تھی ہمارا خاندان بڑا ہے اور ان کے اوپر غلامی کا داغ لگاہواہے یہ پہلے غلام تھا بعد میں آزاد ہوا اور ہمارا اس سے جوڑ نہیں بنتا اور برابری بھی نہیں ہے اس لیے انہوں نے اس رشتے سے انکار کیا تو اس وقت قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی: وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ،کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی فیصلہ فرما دیں تو ایمان والے مرد اور ایمان والی عورت کے لیے اس فیصلے سے انکارکی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ " وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا "جو شخص اللہ اور اس کے پیغمبر کی نافرمانی کرتاہے وہ بہت بڑی گمراہی میں مبتلا ہوجاتاہے تو جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ،نبی کے فیصلے کے بعد تمہارے لئے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

فیصلہ خداوندی اور تسلیم ورضا :
تو حضرت زینب اور ان کے بھائی عبداللہ یہ دونوں تیار ہوگئے بالآخر حضرت زینب بنت جحش رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی کی بیٹی کا نکاح حضرت زید بن حارثہ سے کردیا گیا۔اس سے یہ بات ہمیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگر ایک طرف مسئلہ ماں کا باپ کا اور قبیلے ،برادری اورخاندان کا ہواور ایک طرف حکم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور خود اللہ رب العزت کی ذات کا ہو،تو ہمیں اپنے خاندان کی بجائے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ترجیح دینی چاہیے،اپنے قبیلے اور برادری کی بجائے اپنے اللہ کی بات کو زیادہ ترجیح دینی چاہیے اور اللہ کی بات پر عمل کرنا چاہیے دیکھیے ناں! حضرت زینب کا قبیلہ بھی بڑا ہے خاندان بھی بڑا ہے حضرت زید غلامی سے آزاد ہوئے ہیں نکاح کو دل بھی نہیں کرتا پسند بھی نہیں ہے جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کردیا اب ان کو نکاح کرنا پڑا اور اپنی رائے کو بدلنا پڑا ۔

اتباع شریعت اور ہمارے معاشرتی مسائل :
اس لیے ہمیں بھی اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ خوشی سے لے کر غمی،صحت سے لے کر بیماری تک،جوانی سے لے کر بڑھاپے تک، پیدائش سے لے کر موت تک اور ماں کے پیٹ سے لے کر قبر تک جتنی بھی حالتیں ہیں انسان کو ہر حال میں اس بات کا خیال کرنا چاہیے کہ میرے اللہ کا حکم کیاہے؟اور میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کیا ہے ؟اللہ کا حکم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اس کو ہر حال میں اختیار کرنا چاہیے ہمارے آج بہت بڑے مسئلے ہیں مثلا ایک بہت بڑا مسئلہ شادی کے موقع پر بے پردگی کا ہے شادی کے موقع پر گانے بجانے کا ہے شادی کے موقع پر ڈھول بجانے کا ہے شادی کے موقع پر مہندی کی رسم کا ہے،شادی کے موقعوں پر مائیوں کا ہے شادی کے موقع پر نیوتہ کی رسم کا ہے ،شادی کے موقع پر کھڑے ہوکر کھلانے کا مسئلہ ہے شادی کے موقع پر عورتوں اور مردوں کی اکٹھی ویڈیو بنانے کاہے،شادی کے موقع پر جہیز کے مطالبے کا ہے شادی کے موقع پر بڑے بڑے حق مہر کا مسئلہ ہے۔یہ بڑے بڑے ہمارے ہاں مسائل پیش آتے ہیں لیکن اس موقع پر ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا چاہیے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کو دیکھیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف باتیں ہیں ان ساری باتوں کو چھوڑ دیں نتیجہ یہ نکلے گا اللہ کریم شادی میں برکتیں عطافرمائیں گے اللہ خوشی میں برکتیں عطافرمائیں گے اللہ رب العزت آدمی کے سارے معاملات ٹھیک فرمادیں گے ۔

رب کے غصے کو دعوت دینا:
جب اس خوشی کے موقع پر ہماری زبان سے یہ جملہ نکلتاہے تو اللہ کا عرش بھی اس سے کانپتاہوں گاکہ کس قدر افسوس ناک جملہ ہے۔ادھر اللہ کے نبی کی سنتیں چھوٹتی ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ مٹتاہے اللہ کے احکام کوپس پشت ڈال دیاجاتاہے تو لوگ ایک ہی جملہ کہتے ہیں کہ مولانا صاحب!کوئی روز روز تے شادی تو نہیں ہوندی زندگی میں ایک بار خوشی کا موقع آتاہے وہ بھی برداشت نہیں ہو رہی ہے۔اس کا مطلب تو یہ ہے کہ جس اللہ نے زندگی میں اتنی بڑی خوشی عطافرمائی ہے۔اس خوشی کے موقع پر اللہ کے حکموں کو توڑدینا بتاؤ کتنا بڑا ظلم ہےاور کتنی بڑی زیادتی ہے؟

رب راضی تے سب راضی :
اور تعجب یہ ہے کہ شادی کے موقع پر پوری کوشش کی جاتی ہے ماں کو راضی کرو،خالہ کو راضی کرو ،پھوپھی کو راضی کرو،ماموں کو راضی کرو، چچا،تایا کو راضی کرواور دور تک کے رشتوں کو منایا جاتاہے کہ ان کو راضی کیا جائے کہ خوشی کا موقع ہے کہ یہ سب شادی میں شریک ہوجائیں تو بہتر ہے پھرمسئلہ صرف چچا،ماموں،پھوپھا ، پھوپھی اور برادری کا نہیں ہے اس سے بڑھ کے اپنےگاؤں اور کام کرنے والے گھر کے کمیوں کو بھی خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ موچی کو بھی خوش کرو ،ترکھان کو بھی خوش کرو، چوکیدار کو بھی خوش کرو ،ان سے آگے نکل کے اگر ہمارے ہاں کوئی صفائی کرنے والا گٹر اور نالیوں کو صاف کرنے والا عیسائی ہو تو اس کو بھی خوش کرتے ہیں کہ نکاح کا دن ہے اس کو ناراض نہ کرنا ۔

سب سے پیاری ہستی سے بے اعتنائی:
اگر کسی کی خوشی کی فکر نہیں تو وہ رسول کی ذات مبارک ہے کہ ان کی خوشی کا بندے احساس نہیں۔اللہ ہم سب کو اپنی اور اپنے رسول کی خوشی کا احساس کرنے کی توفیق عطا فرمائے[آمین]

شرعی پردہ ضروری ہے :
پردے کے مسئلہ پر گھر والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ پردہ نہ ہو اللہ کا حکم ہےکہ ہر گھر میں پردہ ہونا چاہیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات امہات المومنین کا طریقہ ہےکہ پردہ ہونا چاہیے۔اب اس موقع پر خاندان کو بازار کو برادری کو اور قبیلے کو نہ دیکھیں اللہ کا نام لے کر پردہ کریں اور شرعی پردہ کریں پھر دیکھیں اللہ اس میں کتنی برکتیں عطا فرمائیں گے

شرعی پردہ کے معاشرتی فوائد:
اس میں عزت کی بھی حفاظت ہوتی ہے عصمت کی بھی حفاظت ہے۔ خاندان کی بھی حفاظت ہے فتنوں سے بھی حفاظت ہے۔جھگڑوں سے بھی حفاظت ہے جتنے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں تووہ اللہ اور اللہ کے رسول کے حکموں کو توڑنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔

خواہشات کی قربانی :
حضرت زینب بنت جحش نے بہت بڑی قربانی دی ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ارشاد اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک خواہش کی خاطر انہوں نے اپنے آپ کو حضرت زید بن حارثہ سے نکاح کے لیے پیش کردیا ہے۔پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت زید سے حضرت زینب کا نکاح فرمادیا تو خود ان کا مہر بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے ادا فرمایا۔چونکہ حضرت زید کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹا بنایا ہوا تھا تو حق مہر بھی خود ادا فرمایااور حق مہر بھی انہوں نے حضرت زینب کی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا ۔

صرف مہر …… فاطمی ہونا کافی ہے ؟
ہمارے ہاں ایک معاملہ چلتاہے جب بھی نکاح پڑھانے کا موقع آئے تو اگر اس وقت پوچھا جائے کہ حق مہر کتنا ہو؟تو لوگ کہتے ہیں جی!حق مہر فاطمی رکھ لو۔ہمیں اتنا تعجب ہوتاہے کہ جہیز فاطمی لینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے، برات فاطمی کےلیے کوئی تیار نہیں ہےلیکن جب بچی کو دو روپے دینے کی بات ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ فاطمی رکھ لو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں کوئی برات تو نہیں آئی تھی حضرت فاطمہ کو نبی پاک نے گھر بھجوا دیا تھا اپنی باندی ام ایمن کے ساتھ۔اور جو ان کی منگنی کا طریقہ ہے کتنا آسان ہے؟ کوئی بھی اس کے لیے تیار نہیں ہے لیکن حق مہر کے موقع پر فاطمی سب بندوں کو یاد آتاہے

دو اہم باتیں :
حق مہر میں دو چیزوں کا خیال کیا کریں۔
1: حق مہر اتنا زیادہ نہ ہو کہ دینے والے لڑکے اور دولہے کو تکلیف ہواور اس کی برداشت سے باہر ہو۔
2: اتنا تھوڑا حق مہر بھی نہ ہو کہ لڑکی کو اپنے خاندان میں بتاتے وقت شرم اور بےعزتی محسوس ہو کہ اسے کتنا تھوڑا حق مہر ملا ہے۔

مسنون حق مہر :
لڑکے اور لڑکی دونوں کی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے جو رقم طے کی جائے وہی مسنون اورموافق طریقہ ہے اور حق مہر دس درہم سے کم نہیں ہونا چاہیے باقی جتنا آدمی خوشی سے دے سکے تو دینا چاہیے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اندازہ فرما کر جو حق مہر طے کیا تھا وہ دس دینار سرخ تھے جو آج کل کے اعتبار سے پونے چار تولہ سونا بنتاہے اور ساٹھ درہم جو آج کی مقدار سے تقریبا پونے سولہ تولا چاندی بنتاہے۔اسی طرح ایک جانور بھی ان کو دیا ایک زناانہ جوڑا دیا تو اس طرح تقریبا 43سیر آٹا وہ بھی ان کو دیا اور ساڑھے 8سیر 30ماشے ان کو کھجور بھی دی یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے حضرت زید کا اپنے طرف سے حق مہر بھی ادا کردیا نکاح ہوا خوشی کے ساتھ زندگی بسر ہونے لگی۔

کفو اور برابری کا مسئلہ :
لیکن حضرت زینب کا نکاح تو ہوگیا ان آیات کا شان نزول کا ایک موقع یہ ہے جو میں نے عرض کیا ہے کہ حضرت زینب نکاح میں نہیں آنا چاہتی تھیں حضرت زید کی غلامی کی وجہ سے ،لیکن قرآن کریم کی یہ آیت جب نازل ہوئی تو انہوں نے اپنی خواہش کو چھوڑ دیا اپنے خاندان حسب ونسب کا خیال نہیں کیا بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو ترجیح دی ہے اس سے ایک بات یہ بھی سمجھیں کہ نکاح کرتے وقت خاوند اور بیوی کے خاندان کا برابر ہونا یا قریب ہونا یہ بہتر اور مناسب ہے۔

اپنی پسند کی شادی مفاسد کا پیش خیمہ:
کسی بھی لڑکی کو اپنی مرضی سے نکاح نہ کرنا چاہیے۔بالغ لڑکی اپنی مرضی سے نکاح کر لے تو اگرچہ نکاح ہوجاتاہے لیکن اس کےمفاسد اور نقصانات اتنے زیادہ ہیں کہ اس جوانی کی عمر میں ان کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا بعد میں جب پریشانیاں آتی ہیں تو پھر کبھی والدین بھی ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ اس نے والدین کا دل جو دکھایا ہوتاہے۔

والدین کی خواہش کا احترام کریں :
اسی طرح لڑکا،اس کو بھی خیال کرنا چاہیے ،لڑکی کو بھی خیال کرنا چاہیے کہ جس والدہ نے پیٹ میں رکھا جس والدہ نے پیشاب پاخانہ صاف کیے ہیں جس ماں نے بچپن میں ان کی تربیت اچھی کی ہوتی ہے گرمی اور سردی سے بچایا ہے اور جن والدین نے ان پر بڑا پیسہ لگایا ہوتاہے تو جب جوانی میں فیصلوں کا وقت آتاہے تو والدین کی خواہش کو نظر انداز کرنا بہت بڑا ظلم ہے والدین کی خواہش کا بہت زیادہ احترام کرنا چاہیے اس لیے والدین سے بڑھ کر اپنی مرضی سے شادیاں کرنا یہ سراسر ظلم اور بہت بڑے نقصانات کا پیش خیمہ ہے۔ اس لیے ہربات میں اپنی مرضی کی بجائے والدین کی خواہش کو ترجیح دینی چاہیے۔

والدین بھی توجہ فرمائیں :
ا وروالدین بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ اپنی اولاد کا نکاح کرتے وقت ان کی مرضی کو نظر انداز نہ کریں۔
عقد نکاح میں اہم چیزیں :
خیر میں کہہ رہا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عموماً نکاح میں چار چیزوں کو مدنظر رکھا جاتاہے۔
1: لڑکی کا پیسہ اور دولت۔
2: لڑکی کا حسن وجمال۔
3: لڑکی کا خاندان۔
4: لڑکی کا دین۔
یہ چار چیزِیں سامنے رکھتے ہیں :
1: اس کے مال کو دیکھتے ہیں۔
2: اس کے حسن وجمال کو دیکھتے ہیں۔
3: اس کے حسب و نسب اور خاندان کو دیکھتے ہیں۔
4: اور اس کے دین کو دیکھتے ہیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرچہ ان چاروں چیزوں کو دیکھا جاتاہے لیکن تم دین کو ترجیح دینا اور دین کا خیال رکھنا۔معلوم ہوا کہ خاندان میں برابری ہونی چاہیے لیکن اگر کوئی لڑکا خاندان کے اعتبار سے چھوٹاہو اور دینی اعتبار سےآپ کے خاندان سے بڑا ہو تو پھر اس کو لڑکی دینے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔یہ مسئلہ بھی ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیےتورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندان میں برابری کی ترغیب بھی دی ہے اور دینی تقاضا میں برابری کو چھوڑنے کا حکم بھی دیا ہے یہاں دینی مقاصد اور دینی فوائد کیا تھے؟

ساری حکمت تو اللہ کی ذات ہی بہتر جانتی ہے۔ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے بعد حضرت زینب بنت حجش اور حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہما نے اپنے فیصلے کو بدل دیا اور حضرت زینب کا نکاح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کے مطابق حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے طے ہوگیا۔یہ بات آیت36میں سمجھائی گئی ہے۔

مزاج میں موافقت نہ ہو تو ؟
آگے آیت37میں دوسرا مسئلہ سمجھایا گیا ہے وہ یہ کہ حضرت زید کی حضرت زینب بنت جحش سے موافقت نہیں ہوتی تھی ایک تو حضرت زینب کے ذہن میں تھا کہ میں بڑے خاندان کی ہوں حضرت زید کا خاندان چھوٹا ہے میں قریشی اور آزاد بھی ہوں اس پر غلامی کا داغ بھی ہے ۔

دوسرا یہ کہ حضرت زینب کے مزاج میں کچھ تیزی بھی تھی،مزاج ان کا سخت تھاتو ان دو باتوں کی وجہ سے حضرت زید کی اطاعت اور خدمت میں ان سے کچھ کمی ہوتی۔حضرت زید بھی اس بات سے تنگ دل ہوئےتو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! اے اللہ کے رسول میرا دل چاہتاہے کہ میں حضرت زینب کو طلاق دے کر فارغ کردوں ہمارا نباہ آپس میں نہیں ہو رہا ۔

طلاق کے عمل کا اجرا کیسے ہو ؟
شریعت کا مسئلہ تو بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ جب نکاح ہوجائے تو حتی الامکان اس کو نبھانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اگر کوئی صورت بھی نبھانے کی باقی نہ رہے تو پھر دونوں خاندانوں کے کچھ لوگ بیٹھ کر فیصلہ کریں اور ان میں طلاق کے عمل کو جاری کروادیں ۔

تین طلاق کا جرم کبھی نہ کریں :
طلاق دیتے وقت بھی تین طلاقیں اکٹھی دینے کا کبھی بھی جرم نہ کریں اس لیے تین طلاق کے بعد بیوی پاس رکھنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی، بیوی نکاح سے بالکل نکل جاتی ہے۔اس کے دوبارہ اس کے پاس رہنے کی صورت کوئی نہیں ہوتی۔

حلالہ کا عمل :
ہاں اگر عورت کسی اور سے نکاح کرلے اور وہ کسی اپنی وجہ سے طلاق دے دے وہ پھر دوبارہ پہلے شوہر کے پاس آجائے تو اس کی گنجائش ہے۔لیکن ایسا بہت کم ہوتاہے کہ اگر کسی دوسرے سے نکاح ہو وہ بلاوجہ کیوں طلاق دے گااگر بلاوجہ طلاق دے بھی دیں تو اس پر بھی بہت بڑا جرم ہوگا ۔

حلالہ کرنے اور کرانے پر لعنت :
اور اگر یہ کہہ کر طلاق دے کہ ہم تیرے نکاح میں دے دیتے ہیں تم اسے اپنے پاس رکھو بیوی کا تعلق جوڑو پھر اس کو طلاق دے دو اگر اس طرح نکاح کروا کے پہلے خاوند کے لیے حلال کروائیں گے تو اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت آئی ہے: لَعَنَ اللَّهُ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ،
[ابوداود باب فی التحلیل،ابن ماجہ باب فی المحلل]

اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس شخص نے ایسا کام کیا اس پربھی خدا کی لعنت اور جس پہلے شوہر کےلیے کیا گیا اس پر بھی اللہ کی لعنت برستی ہے۔ اس لیے کبھی بھی طلاق کی نوبت آجائے خدا نہ کرے تو اکٹھی تین طلاقیں کبھی بھی نہ دیں اور اکٹھی دو طلاقیں بھی کبھی نہ دیں خاوند کو یہ بات سمجھنی چاہیے اور عورتوں کو بھی گھر میں مسائل کا تذکرہ کرنا چاہیے ۔

بوقت ضرورت طلاق رجعی :
اگر ضرورت پڑ جائے تو” طلاق ِرجعی “ دے دیں۔ رجعی کا مطلب ہے وہ طلاق جس میں خاوند اپنی بیوی سے بغیر نکاح کے عدت کے اندر اندر رجوع کرسکتاہے یہ ہوتی ہے طلاق رجعی۔

عدت کیا ہے؟
اگر عورت حاملہ ہو جب بھی اس سے بچے کی پیدائش ہوتی ہے اس کی عدت پوری ہوجاتی ہے چاہے اس کو 6ماہ لگیں یا 6گھنٹے ،بالکل اسی طرح اگر امید کے ساتھ نہیں ہے تو تین ماہواریاں اس کی عدت بنتی ہے۔اس کا اس کو خیال رکھنا چاہیے۔

فساد ِمعاشرہ کا اندیشہ :
خیر میں جو بات سمجھا رہا تھا وہ یہ تھا کہ حضرت زید بن حارثہ کی ان سے موافقت نہیں ہورہی تھی نہ مزاج آپس میں ملتا تھا تو انہوں نے ارادہ کیا کہ میں ان کو طلاق دے دوں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خدا کی طرف سے اس بات کی اطلاع مل گئی کہ حضرت زید نکاح کے بعد ان کو چھوڑ دیں گے طلاق ہوجائے گی تو بعد میں ؛مَیں اس سے نکاح کرلوں گا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کو سمجھایا کہ اللہ سے ڈرو اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو اپنی بیوی کو جدا نہیں کرنا چاہیے لیکن اپنے دل میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا کہ اگر زید ان کو طلاق دے دیں تو میں ان سے نکاح کرلوں گا حضرت زیدکو ترغیب بھی دیتے رہے کیونکہ معاشرے کے اندر بگاڑ بھی پیدا ہوگا کہ دیکھو اتنے شوق سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح فرمایا۔حضرت زید نے طلاق دے دی ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر نکاح فرمائیں گے تو معاشرے کے اندر یہ بات چل پڑے گی کہ دیکھو جی! اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا ہے حالانکہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہوتا۔منہ بولے بیٹے کی بیوی اپنے سسر پر حرام ہوتی ہے۔سسر اپنی بہو سے نکاح نہیں کرسکتا یعنی منہ بولے بیٹے کے باپ سے اس کی بہو پردہ کرتی ہے اور اس سے پردہ کرنا چاہیے اوراگر ان میں سے کسی کی وفات ہو تواس کاوارث نہ باپ بن سکتاہے اور نہ بیٹی،اس لیے کہ یہ منہ بولا بیٹا ہے اور منہ بولے بیٹے کی حیثیت بالکل الگ تھلگ ہے۔

فساد ِمعاشرہ کی روک تھام :
میں یہ بات سمجھانا چاہتاہوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں تھا کہ مکہ مکرمہ میں یہ فضا پھیل جائے گی کہ دیکھو جی اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا اللہ رب العزت نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ۔

اے میرے پیغمبر!حضرت زید جن پر خدا نے انعام کیا ہے ان پر ایمان کی دولت عطافرمائی ان کو صحابیت کا شرف بخشا ہے : وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ ،اور ان پر آپ نے احسان فرمایا ہے کہ ان کو غلامی سے آزادی دی ہے اور ان کو اپنے پاس رکھا ہے : أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ،آپ ایسے زید سے فرمارہے ہیں کہ اپنی بیوی کو روک رکھے اور اللہ سے ڈرے: وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ۔

اور آپ کے دل میں تھاکہ بعد میں اس سے نکاح کرلوں گا اس بات کو آپ نے اس سے چھپایا ہے لوگوں کے خوف سے ،وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ ،اللہ تعالیٰ ہی سے ڈرنا زیادہ مناسب ہے، لوگوں سے کیا ڈرنا؟

حضرت زینب کا نکاح آسمانی :
اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اگر زید یہ فیصلہ کرلیں تو آپ اس میں گھبرائیں مت،دل چھوٹا نہ کریں اب ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ان کے ساتھ کردیا ہے یعنی تکویناً نکاح طے ہوگیا آسمان پر نکاح کا فیصلہ ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے نکاح بعد میں فرمائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوف کی وجہ سے اس کو نہ چھوڑیں بلکہ مسئلہ کھلنے دیں۔ شریعت کے مسئلہ پر عمل کرنے میں نبی کبھی بھی اپنی قوم سے جھجکتا ہے نہ شرماتاہے نہ ہی قوم سے خوف محسوس کرتاہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں صرف اتنی سی بات تھی کہ حضرت زینب کی دلجوئی کے لیے میں نکاح کرلوں،تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دنیاوی معاملہ سمجھ رہے تھے کہ زینب کی دلجوئی مقصود ہے ادھردلجوئی ہوگی ادھر لوگ باتیں کریں گے تو لوگوں کے ایمان کا مسئلہ ہے۔ ایمان جانے کا خطرہ ہے،منافقین طعنے کسیں گے اس سے مسلمانوں کو تکلیف ہوگئی بہت ساری چیزیں ذہن میں تھیں جس کی وجہ سے اس کا اظہار نہیں فرمارہے تھے لیکن جب اللہ نے بات بتا دی ہے کہ اے میرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم!آپ نے نکاح کیا کرناہے ہم نے فیصلہ آسمان سے کردیا ہے آپ کا نکاح انہیں سے ہوگا اب آپ کے سامنے شرعی مسئلہ آگیا کہ اب اللہ کا فیصلہ ہے یہ نکاح ہوگا ۔

شرعی مسئلے پر عمل ؟
کہ متبنیّٰ یعنی منہ بولا بیٹا،اس کی بیوی کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے اور جب یہ مسئلہ ہوا تو اس مسئلے کو بیان کرنے کے لیے نکاح کرنا ہے تو کبھی بھی حضور نے خوف نہیں فرمایا کبھی بھی جھجک محسوس نہیں فرمائی بلکہ فورا اس تقاضے پر عمل کیا یعنی جس مسئلے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی دنیاوی معاملہ سمجھے اس سے قوم سے خوف محسوس کریں تو ہوسکتاہے،لیکن جس کو دینی معاملہ سمجھے اس پر کبھی بھی نبی اپنی امت اور قوم سے خوف محسوس نہیں کرتا۔

خیر! قرآن کریم نے فرمادیا، فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا

کہ جب حضرت زید نے ان کو فارغ کردیا حضرت زید کا معاملہ ختم ہوگیا اللہ فرماتاہے ہم نے ان کا نکاح آپ کے ساتھ کردیا اور یہ کیوں تھا؟تاکہ آگے ایمان والوں پر منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں آئندہ کوئی حرج یا تکلیف نہ ہو،اگر وہ اس کو طلاق دینا چاہے منہ بولا بیٹا جس نے بنایا ہے اگر وہ اس کی طلاق شدہ بیوی سے نکاح کرنا چاہے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔اللہ نے فرمایا:وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا،اور یہ اللہ کا فیصلہ ہے اوراللہ کا حکم ہوتاہی اس لیے ہے کہ اس پر عمل کیا جائے، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت زینب بنت جحش سے ہوا ۔

حضرت زینب کی جداگانہ فضیلت :
حضرت زینب ازواج مطہرات اور امہات المومنین میں اس بات پر فخر فرمایا کرتی تھیں کہ دیکھو! تمہارا نکاح تو فلاں نے پڑھا ہے اور میرا نکاح خود اللہ کی ذات نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کردیا ہے

برہ سے زینب …..نام کی تبدیلی:
بلکہ بعض روایات میں تو یہاں تک آتا ہے کہ جب یہ آیت اترگئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب بنت جحش کے مکان میں داخل ہوگئے وہاں جاکر پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا میرا نام” برہ “ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے برہ نام بدل کے”زینب “ رکھ دیا۔

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں چلے گئے۔ تو عام بندہ سوچتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مکان میں ڈائریکٹ کیسے چلے گئے؟جب اللہ نے ان کا نکاح فرمادیا نکاح ہوگیا ہے ۔

اب ان کی بیوی ہیں گھر میں بغیر اجازت کے جانے میں کوئی حرج نہیں تھا شریعت کے مسئلہ پر نبی عمل کرنے میں کبھی بھی نہیں جھجکتا جب اللہ نے فرمادیا ہم نے نکاح کردیا ہے تو معاشرے کی نبی کوئی پرواہ نہیں کرتا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مکان میں چلے گئے ان کو بتادیا کہ آسمان سے تمہارے ساتھ میرا نکاح ہوگیا ہے حضرت زینب نے اس کو قبول فرمالیا ۔

منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح :
تو دوسرا مسئلہ اس میں یہ ہے کہ اگر منہ بولا بیٹا طلاق دے دے تو اس کی بیوی کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے اس سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ منہ بولے بیٹےکی بیوی کے ساتھ اس کی طلاق کے بعد نکاح کرنا جائز ہے تو جب تک اس کی بیوی ہو اس سے پردہ کرنا بھی ضروری ہے۔کیوں؟جس سے نکاح ہوسکتاہے اس سے پردہ ضروری ہےاور جس سے پردہ نہ ہو اس سے نکاح کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔

نبی بے قصور ہوتا ہے :
آگے آیت 38میں اللہ رب العزت نے فرمایا کہ اس معاملے میں نبی پر کوئی مضائقہ، کوئی حرج کی بات نہیں ہے کیونکہ جو فیصلہ اللہ فرمادے نبی وہ فیصلہ قبول کیا کرتاہے اور اس میں جو فیصلہ فرمادے وہ فیصلہ قبول فرمایا کرتاہے۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کےذمے کوئی الزام بھی نہیں جو فیصلہ خدا کا ہے وہ ہی فیصلہ نبی کا ہے : وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَقْدُورًا
اور اللہ کا حکم جو مقرر ہوچکا ہے اس حکم کے سامنے کسی بندے کی کوئی بات نہیں کرنی چاہیے فرمایا ۔ سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ،کہ یہ پہلے انبیاء پر بھی لازم تھا کہ جو فیصلہ فرمائے نبی اس پر عمل کرتے ہیں، یعنی منہ بولے بیٹے کی بیوی کے ساتھ نکاح کرنا اللہ کا فیصلہ تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کیا ہے نبی پر کوئی الزام نہیں ہے ۔

ایک معاشرتی غلط فہمی :
کوئی بندہ یہ الزام نہ دے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہلے بیویاں موجود تھیں تو پھر اس سے نکاح کرنے کی کیا ضرورت تھی اتنی بیویاں رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟فرمایا کوئی نبی کو طعنہ نہ دے یہ اللہ کا آج بھی فیصلہ ہے اور پہلے انبیاء کے ساتھ بھی جو فیصلے گزر چکے ہیں اس پر بھی نبی نے کبھی جھجک سے کام نہیں لیا بلکہ بعض مفسرین نے خود ”مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفی عثمانی رحمہ اللہ “ نے معارف القرآن میں لکھا ہے:
حضرت داؤد علیہ السلام کو دیکھو حضرت سلیمان علیہ السلام کو دیکھو دونوں نبی ہیں اور کثرت کے ساتھ بیویاں ان کی موجود ہیں۔اور کبھی بھی اس مسئلے پہ انبیاء نے اس کو محسوس نہیں فرمایا کہ لوگ اس کو کیا کہیں گے؟ لوگ اس کو برا کہیں گے کیوں؟اس لیے کہ جب پیغمبر کا فیصلہ اللہ کے حکم کے ساتھ ہوتو پھر پیغمبر کے اس معاملے میں کوئی جھجکنے کی ضرورت نہیں،نبی اس معاملہ میں ذرا بھی محسوس نہیں فرماتا کہ لوگ کیا کہیں گے؟

کثرت ازواج اور ہماری شریعت:
حضرت سلیمان اور حضرت داؤد علیہماالسلام ان دونوں کا میں نے تذکرہ کیا ہے مفتی شفیع رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے نکاح میں 100اور سلیمان کے نکاح میں 300بیویاں تھیں۔اب یہ نبی ہیں ان کی شریعت میں جائز تھا ہماری شریعت میں امتی کے لیے چار سے زائد جائز نہیں ہیں اور جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جائز تھیں اللہ کریم نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں رکھ دیں ہیں۔فرمانا صرف یہ تھا کہ اس معاملہ میں نبی پر کوئی الزام اور حرج نہیں۔اللہ کے فیصلے،اللہ کے قانون پر بات کرنا یہ بہت بڑا کفر ہے اور بہت بڑا جرم ہے کہ اللہ کے حکم کے اندر چہ میگوئیاں کرےیا کیڑے نکالے۔اور خدا پر اعتراضات کرے اللہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔

اللہ ہی کافی ہے :
آگے آیت39میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے یہ فرمایا : الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّهِ،اے میرے پیغمبر!جو آپ سے پہلے انبیاء گزرے ہیں جوان کے ذمے تھا اس پر عمل کرتے،اللہ کے پیغامات پہنچاتے اور اللہ ہی سے ڈرتے تھے،اللہ کے سواء کبھی کسی سے نہیں ڈرے،ان کا طرز عمل یہ تھا آپ کا طرز عمل بھی یہی ہونا چاہیے : وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا،اور میرے پیغمبر! تم کو اللہ کافی ہے اور جس شخص کو اللہ کافی ہوجائے دنیا کی کوئی ذات بھی اس کو رتی برابر بھی نقصان نہیں دے سکتی۔

خلاصہ آیات مذکورہ :
ان دو آیتوں میں بنیادی طور پر دو مسئلے ہیں جو ہمیں ذہن میں رکھنے چاہیں۔

مسئلہ 1: اللہ اور اللہ کے رسول کے فیصلے کے بعد کسی بندے کی بات قابل اعتبار نہیں ہوتی اور خصوصاخاندان اور برادری کی تو کوئی رتی برابر پروا نہ کریں اور جو فیصلہ اللہ اور اس کےرسول کا آجائے اس پر عمل کریں اور برادری کو چھوڑ دیں اس لیے کل جب موت آنی ہے قبر میں اتار کر برادری واپس آجانی ہے ۔فرشتے نے یہ نہیں پوچھنا کہ من ابوک؟تیرا باپ کون ہے؟من امک؟تیری ماں کون ہے؟ما قومک؟تیری قوم کیا ہے؟قبیلہ کون سا ہے؟نہیں!بلکہ فرشتہ پوچھے گا من ربک؟بتا تیرا رب کون ہے؟من نبیک؟بتا تیرا نبی کون ہے؟ مادینک؟بتا تیرا دین کیاہے؟تو قبر میں کیا جواب دیں؟ ربی اللہ تب کہیں گے ناں جب اللہ کی بات مانیں گے،نبیی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تب کہیں گے جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانیں گے۔ دینی الاسلام تب ہی کہیں گے جب اپنے دین پر عمل کیا ہوگا اگر دین کو قوم کے لیے چھوڑا ہوگا تو پھر دینی الاسلام کیسے کہیں گے؟ ایک مسئلہ یہ ذہن میں رکھنا چاہیے ہمیں ہر بات میں اللہ اور اس کے رسول کی بات کو آگے رکھنا چاہیےباقی ساری باتوں کو نظر انداز کردینا چاہیے۔

مسئلہ2: یہ سمجھیں کہ جو بات شریعت فرمادے اس پر بند ے کو ملامت اور خوف کی پروا نہیں کرنی چاہیے بغیر خوف اور بغیر ملامت کے شریعت کے مسائل پر عمل کریں اللہ رب العزت مجھے بھی توفیق عطا فرمائےاور آپ کو بھی توفیق عطافرمائے۔شریعت سمجھ آتی ہے شریعت کے سمجھنے والوں سے جس کے لیے بہترین طریقہ دینی مدارس میں پڑھنا ہے اور اولاد کو بھجوانا ہے ۔

میری گزارش یہ ہے کہ اپنی بچیاں مدرسے میں بڑے اہتمام اور پابندی کے ساتھ بھجواؤتاکہ قرآن کریم پڑھ جائیں، حدیث مبارک پڑھ جائیں، اسلامی تعلیم کو پڑھ جائیں،اور شریعت پر عمل کرنے کا طریقہ ان کو آجائے، ہم یہ سب کچھ دنیا میں چھوڑ جائیں گے لیکن اولاد کو دنیا میں دین سمجھا کر جائیں گے تو اس کا بہت بڑا فائدہ ہوگا اللہ اس اولاد کو ہم سب کے لیے صدقہ جاریہ بنائے اور دین پر چلنے کی توفیق عطافرمائے اور مرکز اصلاح النسا کی حفاظت فرمائے اللہ تعالیٰ آپ کو اور مجھے سمجھنے کی توفیق عطافرمائے آمین، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
muhammad kaleem ullah
About the Author: muhammad kaleem ullah Read More Articles by muhammad kaleem ullah: 107 Articles with 121982 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.