غربت کو مٹانے کی مہم ہوگئی الٹی
مہنگائی کا طوفان روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔عام بازار میں آٹا، چینی،
گوشت، دودھ ،دہی، سبزیاں اور گھی اور تیل سب ہی کچھ مہنگا ہوتا جارہا ہے،
ڈیزل پیٹرول اور اب گھریلو استعمال کی گیس کے نرخ بڑھادیئے گئے ہیں۔ مارکیٹ
میں مختلف دالیں سو روپے سے بھی زیادہ کی قیمت پر فروخت ہورہی ہیں۔سی این
جی بھی دو گنا تک مہنگی ہوچکی ہے جس کی وجہ سے کرایوں میں اضافہ دیکھا
جارہا ہے، تکلیف دہ بجلی کاعذاب اور گیس کا کم پریشر گھریلو خواتین کے لئے
مشکلات پیدا کر رہا ہے۔بسا اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو ان عوامی
مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن دوسری جانب حکمراں طبقہ ہے،جو
اپنی تمام تر توانائیاں صرف اپنی ضروریات پر خرچ کرتا نظر آرہا ہے، اس
طبقہکے اخراجات میں کسی قسم کی کمی نہیں آرہی ہے۔ اس مہنگائی کے طوفان نے
عوام کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔ تنخواہوں میں کسی قسم کا اضافہ
یامہنگائی سے نجات کیلئے کسی بھی قسم کی رعایت کا امکان معدوم ہوکر رہ گیا
ہے۔ ایسے میں اگر کسی ذمہ دار فرد کی جانب سے اس قسم کا بیان آ جائے کہ”
پانچ ارکان کے غریب خاندان کے لئے 600 روپے مہینہ کافی ہے۔ یعنی ایک دن میں
ایک آدمی کا کام صرف چار روپے کے اناج میں چل سکتا ہے“۔تو لوگوں کی کیا
کیفیت ہوگی ؟ظاہر ہے یہ ان کے زخموں پر نمک پاشی اور ان کے جذبات کو مزید
بھڑکانے والی بات ہوگی ۔
شاید اسی وجہ سے عوام دہلی کی وزیر اعلی کے اس بیان کو بحث کا موضوع بنائے
ہوئے ہیں اور ہر خاص و عام میں گزشتہ سنیچر کو خوراک سری منصوبہ کے افتتاح
کے موقع پر شیلا کے اس بیان کو ان کی لاعلمی سے تعبیر کر رہے ہیں ۔واضح رہے
کہ اس موقع پر یو پی اے چیر پرسن سونیا گاندھی بھی موجود تھیں جس میں شیلا
نے یہ بھی کہا تھا کہ دال، روٹی اور چاول کے لئے غریب خاندان کے لئے 600
روپے کی کیش سبسڈی کافی ہے۔ شیلا نے جب یہ بیان دیاغور طلب ہے کہ دہلی میں
شروع ہونے والے اس اسکیم کے تحت ضرورت مندخاندان کو ہر ماہ 600 روپے راشن
خریدنے کے لئے دیئے جائیں گے، جو براہ راست خاندان کی خاتون رکن کے بینک
اکاو ¿نٹ میں ٹرانسفر کر دیے جائیں گے۔بتایا جا رہا ہے کہ اس اسکیم کا
فائدہ 25 لاکھ لوگوں کو ملے گاتاہم ان سب کے باوجود اس منصوبے سے فائدہ
اٹھانے والے لوگوں نے شیلا کے بیان پر سخت اعتراض کیاہے ۔مبصرین کا کہنا ہے
کہ کس طرح اور کس حساب سے شیلا دکشت نے کہہ دیا کہ 5 ارکان پر مشتمل خاندان
میں 600 روپے کافی ہے، کیا 5 ارکان والے گھر کے لوگ پانی پی کر رہتے ہیں
اور ہوا کھا کر زندگی گزار دیتے ہیں، کیا اس گھر کے لوگ کبھی بیمار نہیں
ہوں گے، وہ لوگ رہیں گے کہاں؟ ۔
بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کہا کہ پانچ سے سات افراد کے خاندان میں
مہینے کا راشن 1000 سے 3000 روپے کے درمیان آتا ہے اور یہ بتانے کی ضرورت
نہیں۔ اگر ایک غریب خاندان کے لئے 600 روپے کافی ہیں تو بیماری، رہائش کے
مسائل اور مہنگائی میں گزارا کیسے ہوگا۔ 600 روپے صرف ایک سہارا بھر ہے۔
نہیں سے اچھا ہے کہ کچھ تو ملے گا۔ گنگا دیوی نے کہا کہ وہ ہر ماہ راشن پر
،000 3روپے خرچ کرتی ہیں پھر 600 روپے میں کیا ہوگا؟منصوبہ کو شروع کرنے کے
موقع پر کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے کہا کہ یہ منصوبہ بنیاد کارڈ سے
وابستہ ہوگا اورپی ڈی ایس اسکیم سے الگ ہوگا۔ سونیا گاندھی نے اناج سری
اسکیم نافذ کرنے کے لئے دہلی حکومت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس سکیم کی
سب سے اچھی بات یہ ہے کہ پیسہ ضرورت مند خاندان کی خاتون رکن کو ملے گا۔
سونیا گاندھی نے کہا کہ یو پی اے اور کانگریس کی حکومت غریبوں کو کھانا
دینے کی گارنٹی کو لے کر سنجیدہ ہے اور جلد ہی پارلیمنٹ میں فوڈ سیکورٹی بل
پیش کیا جائے گا۔
کانگریسی رہنماﺅں کے ان باتوں میں کتنا دم ہے اس کا اندازہ ہم ان دو امیر
زادوں کے بیان سے لگا سکتے ہیں جنھوںنے گزشتہ دنوں 100 روپیہ یومیہ میں
زندگی بسر کرنے کا کربناک تجربہ کیا ہے۔ ایک نوجوان کا تعلق ہریانہ سے ہے
جو ایک اعلیٰ پولیس افسر کا بیٹا ہے ، اس نے امریکہ سے تعلیم حاصل کی ہے جب
کہ دوسرا نوجوان کم عمری میں ہی اپنے والدین کے ساتھ امریکہ چلاگیاتھا۔
گزشتہ دنوں ان دونوں نوجوانوں نے یو آئی ڈی پروجیکٹ میں شرکت کی تھی اور
یہاں ساتھ رہنے لگے تھے، دونوں نے ایک دن یہ فیصلہ کیاکہ کیوں نہ ہم ایک
ہندوستانی کی اوسط آمدنی پر ایک ماہ گزار کر ہندوستانی عوام کی زندگیوں کو
عملی طورپر سمجھنے کی کوشش کریں۔ انھوںنے اس دوران پایاکہ اب وہ اپنے وقت
کا ایک بڑا حصہ اس ادھیڑبن میں گزارتے تھے کہ دو وقت کے کھانے کا انتظام کس
طرح کریں۔ اب ان کی زندگی کا دائرہ بہت محدود ہوگیاتھا۔ سستی غذائی اشیا کی
تلاش ان کا روزمرہ کا معمول بن گیاتھا، بس کاسفر پانچ کلومیٹر سے زائد کا
نہیں کرسکتے تھے۔ بجلی کا استعمال بھی بمشکل پانچ چھ گھنٹے ہی کرپاتے تھے
اور نہانے کاایک صابن دونوں لوگ آدھا کاٹ کر استعمال کرتے تھے۔ گویا ان کی
زندگی انتہائی مشکلات کاشکار ہوگئی تھی۔ جب کہ سوروپے یومیہ خرچ کرتے تھے۔
اب ذرا ہم ان 80 فیصد ہندوستانی عوام کی زندگی پر نگاہ ڈالیں جن کی آمدنی
محض بیس روپے روزانہ ہے اور ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق شہروں میں 32روپے
یومیہ اور دیہی علاقوں میں 26 روپے یومیہ خرچ کرنے والے افراد کو غربت کے
دائرے سے باہر رکھاگیا ہے۔ ان کی زندگیاں کس طرح گزررہی ہیں،اس کا اندازہ
لگایا جاسکتا ہے۔؟ یہ تو ایک واقعہ ہے جس نے ہندوستانی غریب عوام کی زندگی
کی صرف ایک جھلک بھر دکھایا ہے ۔
گزشتہ دنوں قوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی ایک رپورٹ جاری کی
تھی جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ ہندوستان کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت
میں زندگی گزارتی ہے جبکہ افریقہ کے علاوہ دنیا کے سب سے زیادہ غریب
ایشیائی ممالک یعنی ہندوستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش میں رہتے ہیں۔خود
حکومت کی تشکیل کردہ تیندولکر کمیٹی نے پنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ملک کی
آبادی کا37 فیصد حصہ انتہائی غربت کے زمرے میں آتا ہے لیکن یو این ڈی پی نے
غریبوں کا تعین کرنے کیلئے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے وہ ٹینڈولکر کمیٹی
اور منصوبہ بندی کمیشن کے طریقوں سے مختلف ہے۔ادارے نے آمدنی کے علاوہ
حفظان صحت، تعلیم اور معیار زندگی کو بھی مد نظر رکھا ہے اور اس بنیاد پر
غربت کا کثیر جہتی اشاریہ تیار کیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس انڈیکس
سے ملک میں غربت کی ایک واضح تصویر ابھر کرسامنے آتی ہے جو صرف آمدنی کی
بنیاد پر ممکن نہیں ہے۔اس اشاریہ کے مطابق دنیا کے 10 غریب ترین ممالک تو
افریقہ میں ہیں لیکن اگر کسی ایک ملک میں کل تعداد کی بات کی جائے تو دنیا
کے سب سے زیادہ غریب جنوب ایشیائی ممالک یعنی ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ
دیش میں رہتے ہیں۔
لیکن ان سب کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے حالات میں تبدیلی نہ
لانے کی ٹھان لی ہے تبھی تو ہم آئے دن یہ سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں کہ فلاں
نے فلاں جگہ پر کھانا نہ ملنے کے سبب دم توڑ دیااور مناسب تغذیہ نہ ملنے کے
سبب بیماریوں کا شکار بن گیا۔ایسے مصیبت زدگان کی کہانیاں تو آئے دن
اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیںلیکن اسے المیہ ہی کہا جائے گا کہ سرکارغربت
کے شکار افراد کے احساسات کو سمجھنے ،ان کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے نئے
نئے شوشے چھوڑ کر عام لوگوں کے زخموںپر نمک پاشی کا کام کر رہی ہے ؟حالانکہ
جمہوری ریاست کے پھلنے پھولنے میں اہم محرک عوام کے حقوق کی فراہمی ہے
جمہوریت کے ثمرات صرف محدود طبقات تک نہیں بلکہ عام آدمی کو بھی اس سے
فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے ورنہ عام آدمی یہی کہنے پر مجبور ہوگاکہ
غربت کو مٹانے کی مہم ہوگئی الٹی
گھر کوئی بھی مہنگائی سے بچتا نہیں لگتا
بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اب الجھنیں بے باک
تبدیلی کوئی آئے گی ایسا نہیں لگتا |