گنیز بُک والے تیار رہیں

کچرا کِس لیے ہوتا ہے؟ آپ کہیں گے پھینکنے کے لیے۔ سیدھی سی بات ہے، کچرا کوئی گھر میں سَجاکر رکھنے یا گھر کو سَجانے کے لیے تو ہوتا نہیں۔ اور جو چیز گھر کو سَجانے کے لیے نہ ہو وہ شہر کو کیسے سَجائے گی؟ ہمیں ”حکومتوں کی سمجھ“ کبھی نہیں آئی۔ دُنیا بھر میں حکومتیں کچرے کو ٹھکانے لگانے کے نئے طریقے ڈھونڈنے یا وضع کرنے میں جُتی رہتی ہیں۔ ارے بھائی، جو چیز ہے ہی پھینکنے کی تو اُسے کہیں بھی پھینک دو۔ کچرا خواہ کہیں پڑا ہو، تزئین و آرائش کا مقصد تو پورا کرے گا نہیں۔ کچرے کا کام ہے تعفن پھیلانا۔ جب ایک چیز ہے ہی تعفن پیدا کرنے والی تو پھر اُس سے نجات پانے کے لیے زیادہ سوچنے کی ضرورت کیا ہے؟ کچرا ٹھکانے لگانے کے بارے میں سوچنا اب بھی حکومتوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ہمارے نزدیک تو یہ محض وقت کا ضیاع ہے۔

دُنیا ذرا ہمیں دیکھے اور کچھ سیکھے۔ کچرے کے حوالے سے پاکستان نے اچھوتے تصورات متعارف کرائے ہیں۔ کِسی کو اگر گھر کا کچرا پھینکنا ہو تو زیادہ دور نہیں جانا پڑتا۔ پہلے تو علاقوں میں بچوں کے کھیلنے کے میدانوں کو کچرا ڈالنے کے لیے استعمال کرنے کا رجحان متعارف کرایا گیا۔ بعض کم فہم اور ناشُکرے قسم کے لوگوں نے اِسے کھیل کے میدان اور کھیلنے کے رجحان سے کِھلواڑ! قرار دیا! ہر نئے طریقے اور مشرب کا لوگ اِسی طرح تمسخر اڑایا کرتے ہیں!
 

image

جب لوگوں کو کھیل کے میدان تک جانے میں پریشانی کا سامنا ہوا تو ہر گلی کے نُکڑ پر کچرا کنڈی کا اہتمام کیا گیا۔ اِسے ہم ”آٹو کچرا کنڈی سسٹم“ بھی کہہ سکتے ہیں یعنی آپ کچرا ڈالتے رہیے، کچرا کنڈی خود بخود معرض وجود میں آتی جائے گی! کچرا صاف سُتھری جگہ پر تو ڈالا نہیں جاسکتا۔ یعنی جہاں پہلے ہی بہت سا کچرا ہو وہیں آپ بھی کچرا ڈالتے رہیے وہ جگہ خود بخود کچرا پھینکنے کے لیے موزوں ترین ہوتی جائے گی!

جب لوگوں کو کچرے کی تھیلی یا ڈبّہ گلی نُکڑ تک جانے میں مشکل پیش آنے لگی تو گھر کے باہر ہی کچرا پھینکنے کا تصور متعارف ہوا۔ اب اِس سے بڑھ کر سہولت کیا ہوگی کہ آپ اپنے گھر کا دروازہ (یا کِھڑکی) کھولیں اور کچرے کی تھیلی پھینک دیں!

ابتداءمیں جب کچرے کو اہمیت دینے کا رواج عام تھا، یہ سوال اُٹھا کہ شہر بھر کا کچرا کہاں پھینکا جائے؟ پہلے تو لینڈ فِل بنائی گئی۔ مگر ایسا کرنا شاید زمانے کے مزاج سے ہم آہنگ تھا۔ جو کچھ دُنیا کر رہی ہے وہ ہم کیوں کریں؟ ایسا کرنے سے ہماری انفرادیت تو ماری جائے گی نا! بس، یہی سوچ کر یاروں نے ندی نالوں کو بھی کچرا کنڈی میں تبدیل کرنا شروع کیا! اور خیر سے اب یہ عالم ہے کہ شہر کے بیچ سے گزرنے والی لیاری ندی اور شہر کے کنارے کنارے چلنے والی ملیر ندی کچرا کنڈی میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔
 

image

دنیا بھر میں ایسے کئی شہر ہیں جن کے درمیان سے دریا یا پھر دریا نُما چوڑی ندی گزرتی ہے۔ ”دقیانوسی ذہنیت“ ملاحظہ فرمائیے کہ اِن ندیوں اور دریاؤں کو سیر و تفریح یا ماس ٹرانزٹ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اُنہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ ندی نالے اور اِسی طور کے دوسرے آبی راستے کچرا پھینکنے کے لیے ہوتے ہیں! لوگوں کو تو ہر وقت اور ہر معاملے میں تفریح درکار ہے۔ حکومت کب تک تفریح کا سامان کرتی پھرے؟ اور یومیہ سفر کا کیا ہے، کِسی نہ کِسی طور ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا! ایک ذرا سے ماس ٹرانزٹ سسٹم کے لیے اچھی خاصی چوڑے پاٹ کی ندیوں اور دریاؤں کو استعمال کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ اور جناب! اگر ندیوں میں کچرا ڈالیے تو یہ بھی کچرے کا ماس ٹرانزٹ ہی ہوا نا! اِنسان تو جیسے تیسے روزانہ سفر کر ہی لیتا ہے، کچرا بے چارا کہاں جائے!

گنیز بُک آف ورلڈ والے مختلف ریکارڈز درج کرنے کے لیے تصدیق کی خاطر پاکستان آتے رہے ہیں۔ اُنہیں کراچی بھی آنا چاہیے اور بس معمولی سی تیاری کے ساتھ۔ ہر شہر کی کوئی نہ کوئی انفرادیت ہوتی ہے۔ ڈھاکا مساجد کا شہر کہلاتا ہے اور احمد آباد قبروں کا۔ ملتان کو مزاروں کا شہر کہا جاتا ہے اور حیدر آباد کو روشن دانوں کا۔ اب سوال یہ ہے کہ کراچی کو کِس حوالے سے شناخت کیا جائے؟ اِس شہر میں اِتنے اور ایسے عجوبے ہیں کہ حقیقی شناخت کا تعین انتہائی دشوار ہوسکتا تھا۔ شہر سے محبت کرنے والے اختیار یافتہ کرم فرماؤں نے دریاؤں اور ندی نالوں کو کچرا پھینکنے کے لیے استعمال کرکے مشکل آسان کردی۔ اب اگر کراچی کو بلا خوفِ تردید کچرا کنڈیوں کا شہر کہا جاسکتا ہے! اور شاید دُنیا کی سب سے بڑی کچرا کنڈی بھی یہیں کہیں، ملیر ندی میں نکل آئے!
(فوٹو گرافی : ماجد حسین)
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 488083 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More