کسان دھرتی کا سینہ چیر کر ہمارے
لیے اناج اُگاتا ہے اور اس کے بعد بڑے دشوار گزار مراحل سے گزر کر اﷲ کا
دیا ہوا رزق ہم تک پہنچتا ہے۔وہ رزق جس کا باری تعالیٰ نے ہر جاندار کو
دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن ذرا یہ بھی سوچئے کہ اگر ہم اس کا احترام نہ کریں
تو یہ ہم سے چھن بھی سکتا ہے۔ اس لیے رزق کی کبھی بھی بے ادبی نہ کریں۔بڑے
بوڑھے کہا کرتے تھے کہ موت کا مارا نسان ایک جگہ روتا ہے مگر رزق کا مارا،
دردر پھرتا ہے۔آج اگر نظر دوڑائیں تو تقریبات میں کھانے کا ضیاع ایک گمبیھر
صورت اختیار کر چکا ہے۔خاص طور پر شادی بیاہ کی تقریبات میں میزبان نے اگر
پانچ سو لوگوں کو مدعو کیا ہے تو یقیناً سو لوگوں یا اس سے زیادہ لوگوں کا
کھانا ضائع ہوتا ہے۔ وہ کھانانہ تو کسی کی پیٹ میں جاتا ہے اور نہ ہی دیگ
میں محفوظ رہتا ہے۔ اسے یا تو بلی کتے کھاتے ہیں یا پھر کچرے میں ڈال دیا
جاتا ہے، جو رزق کی سخت توہین ہے اور گناہ بھی۔دراصل، نعمتوں کی فراوانی نے
چیزوں کی قدرو منزلت کم کردی ہے۔ لہذا ہر شخص کی یہ اخلاقی اور تہذیبی ذمے
داری ہے کہ وہ تقریبات میں رزق ضائع نہ کریں۔اگر ہم موجودہ صورتحال پر نظر
دوڑایں توسیلاب اور زلزلہ سے متاثرین لوگوں کو سب سے زیادہ مسائل کھانے کی
صورت میں درپیش ہیں۔ناقص کھانے کی وجہ سے آئے روز پیٹ کی بیماریوں میں
اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔جہاں یہ متاثرین ایک ایک لقمہ کے لئے حکومت اور عوام
سے امیدیں لگائیں بیٹھے ہیں او ر وہاں ہم اگر شادی وغیرہ کی تقریبات میں
یوں رزق کو ضائع کردیں تو یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔غریب کو ہم ایک
تقریبات میں کھانا تو دور کی بات آنے بھی نہیں دیتے۔لوگوں بڑی بڑی تقریبات
کر کے لوگوں کو اپنی دولت ہونے کا پتہ دیتے ہیں۔ان امیر لوگوں کی شادیوں
میںکھانے کا ضائع ان کو یہ تک سوچنے پر مجبور کرتا کہ جو کھانا ضائع ہو رہا
ہے وہ کسی بھی غریب لوگوں میں تقسیم کردیں لیکن نہیں۔جہاں ملک میں مہنگائی
عروج پر ہو وہاں اس قسم کی صورت میں غریب لوگوں اپنے بچوں کی شادیاں نہیں
کرپاتے۔نت نئے امیرانہ رسموں کی وجہ سے غریب بھی سادہ شادی کرنے سے اجتناب
کر تا ہے۔نت نئے امیرانہ رسومات کو مکمل کرنے کے لئے گھر کا سربراہ لوگوں
سے قرضہ لے کر شادی کی تقریبات کو مکمل کرتا ہے لیکن بعدمیں پوری زندگی قرض
اتارنے میں گزر جاتی ہے۔لہذا اس صورت میں امیروں کو چاہیے کہ جہاںان کی
شادی کی تقریبات ہو رہی ہوں توساتھ ساتھ ان غریبوں کا بھی خیال رکھا جائے ۔جن
کے پاس دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔بے روزگاری، لوٹ مار، قتل و غارت اور
معاشی طور پر سب سے زیادہ اثر صرف غریب پر ہی پڑ رہا ہے۔اور اس سلسلہ میںہر
علاقہ کے لوگوں چاہے وہ غریب ہو یا امیر ایک جیسی صورت حال رکھیں۔زکواة کا
نظام ٹھیک طور پر لاگو کریں اور زکواة مستحق پر بھی جانی چاہیے۔یہاں ذکر
کھانے کے ضیائع پر ہے تو ہم سب کو ان لوگوں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جو
کسی وقت بہت امیر کبیر تھے،گاڑیوں وغیرہ کے مالک تھے لیکن اﷲ تعالیٰ کی
لاٹھی بے آواز ہے اور وہی لوگ اب خوداپنے گھروں سے بے گھر ہیں۔اﷲ تعالیٰ کے
دیئے ہوئے رزق کو مناسب اور صرف حلال طور پر کما کر کھانے کو ترجیح دینی
چاہیے۔اور اس رزق میں سے غریبوں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔اگر ہم کچھ بھی
نہیں کرسکتے تو اپنے کھانے میں سے کسی ایک فرد کو تو مفت کھانا دے سکتے
ہیں۔سوچئے ایک روٹی اور ایک پلیٹ سالن سے اگر کسی کا پیٹ بھر جاتا ہے۔ اور
اس فر د کے منہ سے جو دعا نکلے گی اس کا اثر جو ہو گا وہ رب ہی جانتا ہے۔اﷲ
تعالیٰ ہم سب کو رزق حلال کمانے اور کھانے کے ضائع پر قابو پانے کی ہمت دے۔
آمین |