یہ قوم دن بدن ٹوٹ پھوٹ کا شکار
ہے‘ ٹکڑوں بلکہ ٹکڑیوں میں تقسیم در تقسیم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ یہ وہی قوم
تھی جس نے اپنی ہر شناخت کو بھلا کر صرف اور صرف اتحاد کا وہ ثبوت دیا تھا
ایک ایسا اتحاد جس میں کوئی برادری تھی نہ کوئی علاقائی پہچان ‘ نہ کوئی
فرقہ تھا اور نہ کوئی علاقائی پہچان ‘ پہچان تھی تو فقط قوم مسلمان جس کو
دنیا نے دیکھا کہ وہ ہندوستان جہاں پر اکثریت ہندو ذات پات میں تقسیم شدہ
تھے وہیں پراقلیت مسلمان پورے ہندوستان کے علیحدہ علیحدہ علاقوں اور زبانوں
کے بولنے والے ہونے کے باوجود ایک پہچان کی خاطر کس طرح سے لاہور میں تین
دن تک یہ قوم یکجا رہی اور علیحدہ وطن کے عزم کو لے کر اس طرح متحد ہو کر
اٹھی کہ پھر دنیا کی طاقت ور قوم مملکت برطانیہ نے بھی شکست تسلیم کرتے
ہوئے علیحدہ وطن کے مطالبے کو تسلیم کیا۔
یہ اتحاد آج اس طرح سے تباہ ہو رہا ہے کہ اداروں کی تباہی کا باعث بن رہا
ہے‘ نظام مملکت اسی اتحاد جیسے عظیم جذبے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو
رہا ہے ۔ یہ اتحاد جو کبھی پاکستان اور پاکستانیت کے لیے تھا آج تقسیم در
تقسیم ہوتا ہوا برادری‘ فرقہ‘ لسانیت اور علاقائیت کی نچلی حدود تک محدود
ہوکر رہ گیا ہے۔
دراصل یہی تو وہ وجہ ہے جس کے باعث ہمارے ادارے تباہی کی جانب گامزن ہیں۔
حقدار کا حق مارا جا رہا ہے۔ میرٹ کاخون ہو رہا ہے صرف اور صرف میری قوم‘
میرا علاقہ‘ میری زبان کی وجہ سے اور اس تباہی کے ذمہ دار تو ہم سبھی ہیں۔
سرکاری دفاتر ہوں یا پرائیویٹ‘ شہر کراچی ہو یا پھر کوئی چھوٹا سا قصبہ ہر
دفتر میں ایک عجیب سی فضا پیدا ہو رہی ہے۔ بھرتیوں کا معاملہ ہو تو کسی
کونے سے ایک آواز ضرور سنائی دیتی ہے کہ موصوف فلاں میرے علاقے کے ہیں اس
کو ہی رکھنا ہے‘ میرٹ پر ہوتے ہوئے بھی کوئی حقدار اس لیے ملازمت سے محروم
رہ جاتا ہے کہ دوسرا اپنی کوئی رشتے داری ‘ ذات برادر ی کی کوئی نہ کوئی
نسبت سلیکشن کمیٹی کے عہدے داران سے نکال ہی لیتا ہے ۔ حتیٰ یہاں تک دیکھا
گیا ہے کہ بڑے افسر کو اپنا ڈرائیور رکھنا ہو تو ترجیح اپنے ہم زبان یا ہم
علاقہ کو دیں گے۔ کسی کا کام کروانا ہو تو ہم افسر کے گاؤں کے یا علاقے کے
کسی تعلق کو ڈھونڈتے ہیں کیونکہ اعلیٰ عہدے دار بھی ذات برادری اور علاقے
کو اولیت دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں چلے جائیں چاہے وہ
کراچی ہی کا کیوں نہ ہو‘ نچلے عملے سے لیکر اعلیٰ ذمہ داران تک کسی کو علاج
کی بہتر سہولیات اس لیے فراہم کرتے ہیں کہ مریض ہم زبان یا ہم علاقہ ہے‘
اور تو اور ایک عرصہ تک انتظار کرتے مریضوں کو چھوڑ کر اپنی برادری والے کا
آپریشن پہلے کر دیا جاتا ہے۔ ایسے معاملات ایک برادری یا صوبے تک محدود
نہیں ہے۔ کراچی یا لاہور جیسے بڑے شہروں میں تو یہ معمول ہو چلا ہے کہ ہر
کوئی اپنے علاقے یا ہم قوم کو ترجیح دے رہا ہے خواہ معاملہ کسی سطح کا بھی
ہو۔
ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اسٹریٹ کرائم ہوں یا دیگر جرائم حتی کہ کہیں نہ
کہیں دہشت گردی کی ذمہ دار بھی ہماری یہی سوچ ہے جو برادری اورقوم پر آکر
ختم ہو جاتی ہے۔ گرچہ میں جانتا ہوں کہ یہ شخص مذہبی شدت پسند گروہ سے تعلق
رکھتا ہے اور مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہے مگر میں پہلے تو اس پر شک نہیں
کروں گا کہیا پھر اس سے متعلق پولیس وغیرہ کو بتانے سے گریز کروں گا کیونکہ
وہ میرے ہی فرقہ کا ہے ۔جب پولیس کسی ملزم سے متعلق معلومات حاصل کرتی ہے
تو ہمارے رویے دو رخی ہوتے ہیں اگر ملزم میرے مخالف فرقے یا قوم کا ہے تو
پھر وہ دنیا میں سب سے بڑا مجرم ہوگا لیکن کہیں وہ ہم زبان یا برادری ہو ا
تو سب کچھ کر کے بھی ہمارے لیے وہ معصوم ہی ٹھہرے گا۔
حکومتوں کو برا کہنے والے ہم لوگ اسی لیے اس حال کو پہنچے ہیں کہ ہم فقط اس
شخص کو اپنا نمائندہ چنتے ہیں جو ہماری برادری یا قوم کا ہو ور ملک کے سچے
خدمات گار اور حق پرست ‘ خدا پرست ‘روشن خیال اور حقیقی محب وطن ہماری
سوچوں کو کوستے ہوئے خود کہیں دور جا سوتے ہیں۔
سوال تو یہی ہے کہ آخر یہ سب کیوں ۔۔ ہم من حیث القوم اپنے دلوں ‘ اپنے
ذہنوں میں پاکستانیت کو کہاں دفن کر بیٹھے ہیں۔ کیا ایک یوم آزادی پر یا
بھارت کے خلاف کھیلوں کے موقع پر ہی ہم متحد قوم کی صورت اختیار کرتے ہیں
اور چندلمحوں بعد ہی پھر سے اسی برادری اور لسانیت‘ علاقایت کی عفریت میں
جکڑے جاتے ہیں۔۔ شاید کہ ہم سب کے لیے یہ سوچنے کا وقت آگیا ہے کہ اگر اس
مملکت پاکستان کو پھر سے پاکستان بنانا ہے تو ہر شخص کو علاقائیت اور
لسانیت کے شکنجے کو توڑنا ہوگا۔ اپنی ترجیحات کو بدلنا ہوگا اور پہلے
پاکستانیت کا نعرہ بلند کرتے ہوئے میرٹ اور حق کے سامنے ہر چیز اور نسبت کو
پس پشت ڈالنا ہوگا تبھی ہم ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑے ہونے کے قابل
ہو سکیں گے ۔ اور سب سے بڑھ کر آئندہ الیکشن میں ووٹ برادری اور لسانیت‘
علاقائیت کی شناخت سے پاک ہوکر ڈالنا ہوگا ۔ |