ناز کرتے ہیں تجھے قائداعظم کہہ کر

قائداعظمؒ ایک عظیم شخصیت تھے۔ وہ خود ایک تاریخ تھے، تاریخ ساز تھے، تاریخ آفرین تھے۔ ایسا شخص ایک صدی تو کجا کئی کئی صدیاں پیدا نہیں ہوتا۔ پھرتا ہے ملک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں، جو قوم اپنے محسنوں کا اعتراف نہیں کرتی، اپنے لیے جینے والوں کو یاد نہیں رکھتی، وہ اپنی ذات میں بند ہونے والوں کی افزائش کرتی ہے۔ افراد اپنے اپنے مفاد کے بندے بن جائے، تو قوم کا مفاد پائندہ نہیں رہتا۔ قومی مفاد سامنے نہ رہے تو پھر افراد کی زندگی کہاں! اِس لیے اِن کو یاد رکھیے کہ جنہوں نے اپنا کل ہمارے آج کے لیے وقف کر دیا۔ جنہوں نے اپنا آرام اس لیے وقف کر دیا ،کہ ہماری بے آرا میاں ہمیں تھکا نہ دیں، جنہوں نے اپنے کردار سے چراغ روشن کیے کہ ہماری دنیا آندھی اور اندھیری نہ رہے۔ جنہوں نے اپنی زندگی داؤ پر لگا کر ہمیں ایک خطہ ارض حاصل کرکے دیا تاکہ ہم اِس پاک سرزمین میں اﷲ اور اِس کے رسول اﷲؐ کے بتائے ہوئے طریقے پر اپنی زندگی گزار سکیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ عزت و عظمت کا وہ مینار ہیں۔ جن کی تعظیم و تکریم کی خاطر ایک غیر مسلم لیڈر کہتا ہے کہ …………
’’اگر یہ شخص ہم میں پیدا ہوتا تو اِس کی پوجا کی جاتی۔‘‘

اور دوسری طرف وزیراعظم برطانیہ کلیمنٹ اٹیلی اس اعتراف پر مجبور ہے کہ…… ’’مسٹر جناح کا بے مثل جذبہ حریت اور شبانہ روز محنت ہی وہ سرمایہ ہے جس نے پاکستان جیسے ملک کی بنیاد ڈلوائی‘‘۔

تاریخ شاہد ہے کہ قوموں کا عروج و زوال اسلاف کی تعلیم و تربیت میں مضمر ہوتا ہے اور جو قومیں اپنے محسنوں کی تعلیم و تربیت اور اِن کے کارہائے نمایاں کو مشعل راہ گیر گردانتی ہیں وہ کبھی زوال آشنا نہیں ہوتی۔ اِسی عظیم قائد نے ہمیں ایک آزاد ملک پاکستان دیا۔ 25 دسمبر کو اِس عظیم قائد کی ولادت ہوئی۔ اِس نے دِن رات ایک کرکے یہ ملک پاکستان بنایا ۔پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اس لیے بنایا تھا کہ یہاں ہم ایک دوسرے کے گلے کاٹے گے؟اختلافات نفرتوں میں بدلیں گے اور اہم اختلاف کرنے والوں کو جان سے مار دیں گے؟دوسروں کی جان کی حفاظت کرنے والی بہنوں کو سربازار قتل کر دیا جائے گا؟ اِن تمام سوالوں کا جواب یقیناً( نہیں) میں ہے۔تو پھر قائد کی روح آج یہ سب دیکھنے کے بعد تڑپتی نہ ہوگی؟ جس مقصد کے لیے قائداعظم محمد علی جناح نے یہ ملک بنایا وہ آج تک پورا نہ ہو سکا۔قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 23 مارچ 1940 کو قرارداد لاہور کے موقع پر فرمایا۔

’’ہندو اور مسلمان دو علیحدہ مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں جو بالکل مختلف عقائد پر قائم ہیں اورمختلف نظریات کی عکاسی کرتے ہیں۔ دونوں قوموں کے ہیروز، رزمیہ کہانیاں ایک دوسرے سے مختلف ہیں لہٰذا دونوں قوموں کو ایک لڑی میں پرونے کا مقصد برصغیر کی تباہی ہے ۔کیوں کہ یہ برابری کی سطح پر نہیں بلکہ یہ برابری کی سطح پر ہوگا کہ اِن دونوں قوموں کے مفادات کومدنظر رکھتے ہوئے برصغیر کی تقسیم کا اعلان کرے جو کہ تاریخی اور مذہبی لحاظ سے ایک صحیح قدم ہوگا۔‘‘لیکن ذرا غور کیا جائے قائداعظمؒ کے اس فرمان کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ہم نے امن کی آشا اور نفرت کی بھاشا کا جو تماشالگا رکھا ہے ،وہ نہ جانے کب تک ہمارے عوام کی آنکھوں میں دھول جونکھتارہے گا۔کیاہندوستان سے یکطرفہ بڑھتے دوستی کے ہاتھ ہمیں تباہی کی طرف نہیں لے جائیں گے۔؟ہندوبنیے کے بارے میں مشہور کہاوت ہے، بغل میں چھری ، منہ میں رام رام ،وہ تو اﷲ قائداعظم محمد علی جناح کا بھلا کریں اور ان کو جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائیں انہوں نے ہندو کی تمام شاترانہ چالوں کو وقت پر سمجھ گئے۔

ہندؤوں کا لیڈر گاندھی کہتا تھاکہ ’’مسلمان یا تو عرب حملہ آوروں کی اولاد ہیں یا ہم سے جدا کیے گئے ہیں۔ اب اپنا وقار بحال کرنے کے لیے یا تو ہمیں انہیں شدھی کرنا پڑے گا یا عرب واپس بھگانا ہوگایا ہندوستان میں ہی غلام بنا کر رکھنا ہوگا۔‘‘

آج الحمداﷲ ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں لیکن نجانے ہمارے سے ایسے کیا گناہ سرزد ہو گیا کہ اس آزاد فضامیں گھٹن امڈ آئی ہے؟

تصویر کا دوسرا رخ بہت ہی افسوناک ہے، نوجوان طبقہ قائد کے فرمودات کو بھول بیٹھا ہے ۔ ان کے ہیروز عامر خان،سلمان خان،اکشے کھنہ اور دیگر اداکار ہیں۔ اپنی ثقافت کو پس پشت ڈال دیا ہے اپنے غیر مسلم آقاؤں کو خوش کرنے میں جت گئے ہیں، نوجوانوں کے لیے ایک پیغام کہ وہ ہندو، عیسائی، تہذیب و ثقافت میں ڈوبنے کے بجائے تحفظ پاکستان کا فریضہ سنبھال لیں۔ قائد کے دور کامشہور واقعہ ہے کہ ایک جلسہ میں تقریر کے دوران قائداعظم محمد علی جناحؒ کا چشمہ گر گیا گاندھی سامنے تھے، انہوں نے کہا آج تو آپ کو ہمارے سامنے جھکنا پڑے گا۔ قائداعظمؒ نے اپنی جیب سے دوسرا چشمہ نکال کر لگا لیا۔ اس واقعہ میں نوجوان طبقے کے لیے اہم سبق ہے ۔مومن گردن تو کٹوا سکتا ہے لیکن اغیار کے آگے جھک نہیں سکتا۔قائداعظم محمد علی جناح اِسی وجہ سے کامیاب لیڈر تھے۔ پاکستان بننے کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا ہمیں پنجابی، سندھی، بلوچی، پٹھان کے جھگڑوں سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہیے ہم صرف اور صرف پاکستانی ہیں۔ اب ہمارا فرض ہے کہ پاکستانی بن کر زندگی گزاریں۔ اِس کے علاوہ آپ نے اقلیتوں کو مکمل تحفظ دینے اور برابری کے حقوق دینے کا اعلان کیا۔ یہی اسلام کی بنیادی تعلیم ہے آج کے نوجوان طبقے میں یہ بیماری بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ دوسروں صوبوں سے نفرت بڑھتی جارہی ہے۔ کالجز، یونی ورسٹیزمیں سندھی ، پنجابی، بلوچی، پٹھان آپس میں لڑتے ہوئے نظر آئیں گے ۔ہر صوبے کے نوجوانوں نے اپنی اپنی علیحدہ علیحدہ سوسائٹی بنائی ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں پٹھانوں سے سخت نفرت کی جاتی ہے یہ سب کیوں؟قائداعظم نے فرمایاتھا آج سے ہم نہ بلوچی ہیں نہ سندھی نہ پٹھان نہ پنجابی ہم صرف اور صرف پاکستا نی ہیں ۔ قائداعظمؒ کے فرمودات کو پس پشت ڈالنے کی وجہ سے آج پاکستان میں آگ لگی ہوئی ہے ،مسلمان مسلمان کی گردن کٹ کر اپنے آپ کو حق والا گردانتے ہیں، ہم غیروں پر الزام لگاتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے اگر آج ہم یہ نفرتیں مٹا دیں تو امن یقینی ہے ۔ ہماری فوج نے فاٹا میں آپریشن کیا ہر زبان میں عام کی تھا کہ یہ آپریشن پٹھانوں کے خلاف ہو رہا ہے یہ جملہ پٹھان بھائیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ یہ آپریشن عسکریت پسندوں اور غداروں کے خلاف ہو رہا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے 4 جولائی 1941 کو مسلم فیڈریشن کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’تمہارا اولین فرض یہ ہے کہ تم خود اور اپنے والدین اور اپنے ہمسائے اور اپنی قوم کو تعلیم کی طرف توجہ دلاؤ اور وقت کی قدر کرو۔‘‘

چھوٹے مسائل پر توجہ ڈالی جائے توہمارے ہاں خصوصاً نوجوانوں میں والدین کی نا فرمانی کی انتہا ہو چکی ہے، ہم لوگ تو والدین کو گالیاں تک دے جاتے ہیں۔ جائیداد کی خاطر قتل تک کر دیتے ہیں، جہاں والدین کی نافرمانی حد درجہ سے زیادہ وہاں ہمسائے کے حقوق کا علم تک ہمیں نہیں ہے۔ تعلیم میں بھی پاکستان انتہائی پیچھے ہے۔ پاکستان میں تو نام نہاد طالبان اسکول تک اُڑا دیتے ہیں۔ وقت کی قدرتو ہمارے ہاں بالکل نہیں ہم کسی کو ٹائم دے کر بھول جاتے ہیں، نوجوان نسل کا کوئی ٹائم ٹیبل نہیں زیادہ وقت انٹرنیٹ ، ٹی وی میچز پر گزرتا ہے جس کی وجہ سے پڑھائی بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔ مسلمان برصغیر میں اسلامی روایات کے ساتھ داخل ہوئے تھے۔ اسلامی معاشرہ ہر برائی سے پاک تھا لیکن مسلمانوں نے آہستہ آہستہ ان اصولوں سے انحراف کیا۔ اسلامی طور طریقہ زوال پا گئے جو مسلمانوں کے زوال کا باعث بنا۔ آج ہم اسلام سے انتہائی دور ہو چکے ہیں آج قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی سالگرہ کے موقع پر عہدکریں، آئندہ انشاء اﷲ قرآن و سنت پر اور قائداعظم اقوال پر عمل پیرا ہوں گے اور پاکستان کو ترقی یافتہ بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔ آئیے آج ہم اپنے اس عظیم محسن کے بتائے ہوئے سنہری اُصولوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے وطن کی ترقی میں تن من دھن کی بازی لگا کر اس شمع کو روشن کریں ۔جس کے لیے یہ خطہ حاصل کیا گیا تھا۔ ہم نے اس عظیم ہستی کے فرمودات پر عمل کرنے کے بجائے ان کے بتائے ہوئے روشن اصولوں طاق نسیاں کی زینت بنا دیا ہے۔ آئیے آج ہم ان فرمودات پر عمل پیرا ہو کر اپنی عظمت پارینہ کو دوبارہ زندہ کریں، اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ پاکستان کی حفاظت فرمائیں اور قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق نصیب فرمائیں۔
تو نے انعام دیا ہمیں آزادی کا
ناز کرتے ہیں تجھے قائداعظم کہہ کر
Umer Abdur Rehman Janjua
About the Author: Umer Abdur Rehman Janjua Read More Articles by Umer Abdur Rehman Janjua: 49 Articles with 51471 views I am Freelance Writer and Journalist of Pakistan .. View More