یونیورسٹی آف بریڈ فورڈ برطانیہ
1996 ء میں قائم ہوئی اور یک مختصر عرصے میں اس تعلیمی ادارے نے نیا بھر
میں اپنی ساکھ اور اعتبار قائم کر لیا۔ وہ برطانیہ کی دوسری بڑی درسگاہ ہے
جس کے فارغ التحصیل طلبہ کو روزگار کی فراہمی میں ترجیح دی جاتی ہے۔سات
دسمبر2005 ء کو عمران خان نے اس یونیورسٹی کے چانسلر کی حیثیت سے حلف
اٹھایا ۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلرمارک کلیری(Mark Cleary ) نے اس موقع پر
اپنے استقبالیہ کلمات میں کہا تھا کہ ’’ عمران خان نے اپنے سٹائل اور طرزِ
عمل سے دنیا کی نمایاں ترین شخصیات میں سے ایک کا درجہ پایا ہے۔عمران
نوجوانوں کے لئے ایک رول ماڈل ہے۔او ر یہ مشرق و مغرب کے درمیان ایک پُل
ثابت ہوں گے۔‘‘
عمران خان بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے مجموعی طور پر پانچویں اور پہلے
انٹرنیشنل منتخب چانسلر ہیں۔اس میں کوئی کلام نہیں کہ دنیائے کرکٹ کی فاتح
ٹیم کے کپتان اور دیگر کئی حوالوں سے اہل یورپ کی آنکھوں کا تارا رہے۔لیکن
ایک بہت بڑے تعلیمی ادارے کی سربراہی انہیں سونپ کر اہلِ انگلستان نے
انسانیت کے لئے ان کی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔عمران خان جو شوکت خانم
میموریل کینسر ہسپتال کی تعمیر کے بعدسماجی خدمت کے میدان میں ثمر بار اور
گھنے شجر کا روپ دھار چکے ہیں۔ اب تعلیم کے میدان میں بھی کچھ کر گذرنے کے
مشن کو زندگی کا نصب العین بنائے ہوئے ہیں۔بریڈ فورڈ یونیورسٹی کا چانسلر
منتخب ہونے کے بعد انہوں نے اپنے پسماندہ اور درماندہ آبائی ضلع میانوالی
کا رخ کیا ۔ پاکستان سے دو گنا بڑی عمر وا لا یہ ضلع اپنے لیڈروں کی بے حسی
کی وجہ سے بہت پچھے رہ گیاہے۔عمران خان نے اس مٹی کے باسیوں کے شب و روز
بدلنے کے بارے میں سوچا تو ذہن میں آیا کہ تعلیمی ادارے ہی قوموں کی دنیا
بدلتے ہیں۔ علم کی روشنی سے ہی جہالت کے اندھیرے دور ہوتے ہیں۔عمران خان نے
ضلع میانوالی میں ڈھک پہاڑی کے پہلو اور نمل جھیل کے کنارے ایک خوبصورت مگر
ویران اور بیابان جگہ پر ’’نمل کالج ‘‘ کی بنیاد رکھی ۔ یہ فنی تعلیم کا
ادارہ جس کا الحاق برطانیہ کی بریڈ فورڈ یونیورسٹی سے ہے۔ اس تعلیمی ادارے
کے قیام میں صاحبِ ثروت افراد نے دل کھول کر عمران خان کا ہاتھ بٹایا’’ اہلِ
دل ‘‘ کے بے مثال تعاون نے عمران خان کے جذبے کے لئے مہمیز کا کام کیا۔اور
انہوں نے نمل جھیل کے کنارے ایک شہر علم’’Knowledge City ‘‘ بسانے کا خواب
دیکھا اور پھر اس کی تعبیر کے لئے سر گرمِ عمل ہوگیا۔عمران خان کے مطابق ’’
وہ اس علاقے میں میانوالی یونیورسٹی قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ایک پورا شہر
علم آباد کرنا چاہتا ہے جہاں مختلف علوم کے ادارے ہوں گے۔ یہ شہر بین
الاقوامی معیار کا نالج سٹی ہوگا۔ اس منصوبے کے قیام کے لئے ابتدائی طور پر
ایک ارب روپئے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اپنے خواب میں حقیقت کا رنگ بھرنے
کے لئے عمران خان نے صاحبِ ثروت لوگوں سے ملک میں اور بیرونِ ملک تعاون کے
لئے رابطے شروع کئے ہوئے ہیں۔اور ان کے بقول اس سلسلہ میں انہیں خاطر خواہ
کامیابی بھی حاصل ہور ہی ہے۔ جن دنوں عمران خان نے ’’ شہرِ علم ‘‘ بسانے کی
بات کی تو ملک پر جنرل پرویز مشرف کی حکمرانی تھی۔پنجاب کے چوہدری اور ان
جیسے کئی سیاستدان اس کے ہاتھ اور پاؤں بنے ہوئے تھے۔ عمران خان جنرل پرویز
مشرف اور اس کے حواریوں کا سخت ترین مخالف تھا۔2001 ء کے انتخابات میں
کامیابی کے بعد عمران خان نے مستقل مزاجی اور اپنی کمٹمنٹ کے باعث اپنا ایک
منفرد مقام بنایا۔وہ آمریت کی حبس زدہ پاکستانی سیاست میں تازہ ہوا کے ایک
جھونکے کی مانند محسوس ہونے لگا تھاکہ اس نے بے فائیوں اور عہد شکنیوں کے
موسم میں وفاؤں کا بھرم قائم رکھا ہوا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے
عمران خان کو زچ کرنے کی خواہشِ ناتمام لئے ان ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ
ڈالنے کی کوششیں شروع کر دیں جو عمران خان نے اپنی مدد آپ کے تحت مختلف
ملکی اور غیر ملکی اداروں کے ذریعے اپنے حلقہ انتخاب کی حالت بدلنے کے لئے
شروع کئے ہوئے تھے۔مرکزی اور صوبائی حکومت کے کارندے اور خفیہ اداروں کے
اہلکاروں نے رات دن عمران خان کے ترقیاتی منصوبوں کی چھان بین میں ایک
کردیا۔ لیکن وہ سب کے سب کسی حکومتی امداد کے بغیر شروع کئے گئے ان منصوبوں
اور پروجیکٹوں کے حوالے سے کوئی بے قاعدگی یا بد عنوانی نہیں تلاش کر پائے۔
اب خطے کی قسمت بدلنے لگی ہے۔ نمل جھیل کے کنارے قائم نمل کالج اپنا تعلیمی
سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ عمران خان ’’شہر علم ‘‘ کے قیام کی کٹھن جد و جہد
میں مصروف ہیں۔ بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے وفود ان کے عزم کی ہمنوائی کا اعادہ
کرنے کے لئے میانوالی کا دورہ کرتے رہتے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ ملک اور
بیرون ملک سے بڑی تعداد میں ڈونرز بھی آتے رہتے ہیں۔کہنے والے کہتے ہیں کہ
اس’’ شخص ‘‘ پر قدرت کی کمال مہر بانی ہے کہ لوگ لاکھوں کروڑوں روپئے بے
دھڑک ہو کر اس کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔کسی کے دل میں ایک لمحے کے لئے
بھی یہ خیال نہیں آتا کہ ان کی دی رقم ضائع ہوگی یا خورد برد ہو جائے
گی۔اگر ہمارے تمام لیڈر عمران خان سے ایمانداری کا سبق سیکھ لیں اور سیاست
کو خدمت کا ذریعہ بنا لیں تو یقین جانیے کہ قیادت کا فقدان اور زندہ قائدین
کا قبرستان چمنستان میں بدل جائے گا۔ضلع میانوالی کے باسیوں کو نوید ہو کہ
انہیں قیادت کا جوہر قابل میسر آگیا ہے ان کے شہر کو ’’ شہر یار‘‘ مل گیا
ہے۔ اب کوئی ان کے شہر ’’ میاں والی‘‘ کے بارے میں یہ نہیں کہ سکے گا یہ
ایک ایسی بستی ہے جس کا نہ کوئی ’’ میاں ‘‘ ہے اور نہ کوئی ’’ والی‘‘ اور
اب ہمیشہ کے لئے ’’ میاں والی ‘‘ کے بارے میں سدا سہاگن کا تائثر ابھرتا
رہے گا۔ |