دہشت گردی آخر کب تک

اسلام کا مطلب سلامتی اور ایمان کا امن ہے لیکن پوری غیر مُسلم دنیاآج اس کوشش میں مبتلا ہے کہ اسلام کو دہشت گرد قرار دیا جائے اور بدقسمتی سے انہیں خود ہمارے اندر سے کچھ ایسے نام بھی میسر آگئے ہیں جو ان کے مقاصد کے حصول کو آسان بنا رہے ہیں ۔ یہی عناصر ہیں جنہوں نے پاکستان کے امن کو تہہ و بالا کر رکھا ہے کبھی یہی عناصر فرقہ واریت ،کبھی لسانیت ، کبھی علاقائیت ،کبھی صوبائیت کے نام پر دہشت گردی میں مصروف ہیں۔ خود کو بہترین مسلمان کہنے والے دوسروں کے دین و ایمان کو کمزور اور مشکوک سمجھتے ہیں اور ان کو قتل کرکے ثوا ب کمانے کا بلکہ جنت کمانے کا دعویٰ کرتے ہیں اور دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کیا جاتا ہے لیکن ایسا کرنے والوں کے پاس اسلام سے کوئی مستند حوالہ نہیں ہوتا کیونکہ یہ وہ مذہب نہیں جو خلق خدا میں فساد پیدا کرے بلکہ یہ تو زمین میں فساد پھیلا نے والوں کو ناپسندیدہ ترین قرار دیتا ہے اور ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل سمجھتا ہے۔ اگر یہ سب کرنے والے مسلمان ہیں تو وہ پہلے اپنے اسلام اور مسلمانی کا ثبوت پیش کریں ۔تحریک طالبان کی طرف سے ہر حملے کی ذمہ داری قبول کرنا بھی مشکوک ہے یہ سطریں لکھتے ہوئے ہی یہ افسوس ناک خبر آئی ہے کہ پشاور میں خود کش دھماکے میں خیبر پختونخواہ کے سینئر صوبائی وزیر اور اے این پی کے رہنما جناب بشیر احمد بلور شہید ہوگئے ہیں اس دھماکے میں اب تک نو افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور حسب معمول اس واقعے کی ذمہ داری بھی تحریک طالبان نے قبول کرلی ہے۔ لیکن کیا یہ دھماکے کرنے والے واقعی پاکستانی اور مسلمان ہیں بظاہر بھی اور اِن تمام واقعات کا بنظرغائر جائزہ لینے کے بعد بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ اِن عناصر کے ساتھ بیرونی مدد شامل ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو اسی ملک میں پہلے بھی شیعہ اور سنی رہتے تھے اور اب بھی رہتے ہیں کہیں ایک آدھ واقعہ تصادم کا ہو بھی جاتا تھا تو معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے پنجابی ، پٹھان ، بلوچ، سندھی اور مہاجر پہلے بھی تھے اور خاص کر کراچی میں پہلے بھی یہ رہتے تھے لیکن ایک دوسرے کا قتل عام نہیں کرتے تھے پھر آخر اب ایسا کیوں ہے وہ کون سے لوگ ہیں جو ہمارے درمیان آگھسے ہیں جو نہ تو عوام کو بخش رہے ہیں نہ خواص کو ۔ بشیر احمد بلور سے سیاسی یانظریاتی کوئی بھی اختلاف کیا جائے لیکن قابل قتل جرم انہوں نے نہیں کیا تھا۔ نہ ان کی مسلمانی میں کسی کو شک تھا یہ انہی بلور برداران میں سے تھے جنہوں نے قابلِ اعتراض فلم بنانے والے گستاخ رسول کا سر قلم کرنے والے کے لیے اپنی جیب سے ایک لاکھ ڈالر کی خطیر رقم بطور انعام دینے کا اعلان کیا تھا ۔ دہشت گردی کی اس تازہ لہر نے ایک بار پھر پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور خیبر پختونخواہ کے تو اب گائوں اور رہائشی علاقے بھی اس سے محفوظ نہیں متنی اور پشتخرہ شہری علاقے نہیں لیکن دہشت گردوں کی ز د میں ہیں۔ کل کے واقعے میں تو یہ بات بھی غور طلب ہے کہ یہ کوئی بہت بڑا جلسہ نہیں تھا جس کی پورے شہر کو خبر ہوتی بلکہ یہ گھر میں ہونے والا چھوٹا سا اجلاس تھا جس میں انہوں نے خطاب کیا۔ بشیر احمد بلور ایک بہادر انسان تھے اور ایسے ہونے والے دھماکوں کی جائے وقوعہ پر فوراََ پہنچتے تھے۔ یہ افسوس ناک واقعہ تو ملک میں ہونے والے بے شمار واقعات کی طرح ہوچکا۔ لیکن کیا اِن دھماکوں اور دہشت گردی کی جڑ تک پہنچنے کی کوئی حکمت عملی بھی طے ہوگی یا نہیں۔ صرف چند دن پہلے ہی پشاور ائیر بیس اور اُس کے بعد متنی تھانہ کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا اگر چہ شاید پہلی بار کسی حملے کو اُس طرح روکا گیا جیسا پشاور ائیر بیس پر کیا گیا کئی دہشت گرد بھی مارے گئے اور اگلے دن بھی پانچ دہشت گردوں کو تلاش کرکے ہلاک کیا گیا لیکن ہر واقعے کے بعد یہ کہہ دینا کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے صرف ایک طفل تسلی ہے لیکن اب اس دہشت گردی جس نے پورے ملک میں ایک طوفان اٹھارکھا ہے کو ختم کرنے کے لیے کوئی ایسی حکمت عملی طے کرنی ہوگی کہ نہ صرف اس کا مقابلہ کیا جا سکے بلکہ اسے ختم کیا جا سکے۔ تحریک طالبان کی طرف سے مختلف ناموں سے آنے والے پیغامات کی بنا پر ہر واقعے کو ان کے کھاتے میں ڈال دینا اور پھر اِن سایوں کے پیچھے بھاگتے رہنا کوئی حکمت عملی نہیں۔ بلکہ اِن کی روک تھام کے لیے ایسی ہمہ جہت پالیسی کی ضرورت ہے جس کی مدد سے اِن دہشت گردوں کی جڑ تک پہنچا جا سکے اور اس پر خارجہ و داخلہ ہر ہر نہج سے سوچنے کی ضرورت ہے یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ اِن واقعات کی ایک لہر کے بعد وقفے میں کس طرح اور کہاں سے دوبارہ افرادی قوت یعنی مزید خود کش بمبار تیار کر لیے جاتے ہیں اورکہاں سے اسلحہ اور بارود اور خود کش جیکیٹس مہیا ہو جاتی ہیں اگر یہ لوگ ہفتے میں آٹھ دس بمبار اڑاتے ہیں تو کیا بقول حکومت کے یہ تین پانچ ہزار طالبان ختم نہ ہو چکے ہوتے ۔ سوچنے کو بہت کچھ ہے اور پھر حکمت عملی تربیت دیتے وقت اِن عوامل کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا۔ سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ پشاور ائیر بیس کے خود کشوں کے جسموں پر جو ٹیٹوز کندہ ہوئے ملے ہیں وہ کس اسلامی نظریے کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ خود کشی کی اسلام میں حرمت بھی مستند ہے ،اسلام کی امن پسندی بھی ایک مستحکم حقیقت ہے اور اس مذہب میں انسانی جان کی قیمت بھی انمول ہے پھر آخر ایسا کرنے والے کون ہیں اور وہ خاص کر اسلام کا نام کیوں استعمال کر رہے ہیں وہ کون سی ٹیکنالوجی ہے جو اِن سنگلاخ پہاڑوں میں پیدا ہونے والے ،پلنے والے اور رہنے والے لوگوں کو حاصل ہو گئی ہے کہ وہ انسانی ذہنوں کو یوں بدل دیتے ہیں کہ نہ اپنی جان کی اہمیت رہتی ہے نہ دوسرے کی۔

زندگی کسی لیڈر کی ہو یا عام انسان کی اُس کی قیمت ایک ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر اتنی سیکیورٹی کے باوجود کوئی جان محفوظ نہیں تو ایک عام جان کیسے محفوظ رہ سکتی ہے ۔ اس ملک کا ہر شہری آج یہ سوال کرتا ہے کہ یہ حالات کب بدلیں گے کب وہ سکون اور اطمینان سے اپنی زندگی گزار سکیں گے، سیاسی عمل ، کاروبار، تعلیم غرض ہر شعبہ کب اپنی نارمل حالت پر لوٹ سکے گا ہم آخر کب تک دھماکوں کی زد میں رہیں گے اسلام کے نام کو بدنام کر کے آخر ہم کس مسلمانی کا ثبوت دے رہے ہیں۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552681 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.