دہلی میں گزشتہ اتوار ،
16دسمبر،ایک نوجوان طالبہ کے ساتھ بس میں اجتماعی عصمت دری کے ہولناک واقعہ
کے بعد کشمیر سے کنیا کماری تک شور اٹھا کہ مجرموںکو پھانسی کی سزا دی جائے۔
کچھ اسی طرح کے مطالبہ چند ماہ قبل ہریانہ میںپے درپے رونما ہونے والے
واقعات کے بعد بھی کیا گیا تھا۔ہر چند کہ عصمت دری کا معاملہ بڑا ہی سنگین
ہے اور اس پر قابو پانا نہایت ضروری ہے مگر یہ کہنا ٹھیک نہیں کہ ملزمان
کےلئے سزائے موت کا جو مطالبہ کیا جارہا ہے وہ اسلامی فکر کا عکاس ہے۔
بیشک بعض صورتوں میں اسلامی قانون شادی شدہ زانی کےلئے سنگ ساری (پتھر مار
مار کر ہلاک کر دینے ) کی سزا تجویز کرتا ہے مگریہ بات توجہ دینے کی ہے کہ
شریعت محمدی سزا سے زیادہ جرم کے ارتکاب کے راستوں کو بند کرنے پر زور دیتی
ہے۔ عصمت دری ( زنا بالجبر) تو دور کی چیز ہے، اسلام تو زنا بالرغبت کو بھی
شدید ترین گناہ شمار کرتا ہے حتٰی کہ صرف نگاہوں سے یا زبان اور خیال سے
غیر عورت یا مرد کے ساتھ جنسی لذت بھی ’زنا ‘ میں شامل ہے اورشدید گناہ ہے۔
قرآن’زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو‘ کا حکم دیتا ہے اور رسول رحمت ﷺ نے بلوغت
کی عمر کو پہنچتے ہی بچوں کی شادی کی ترغیب دیکرجنسی بے راہ روی روکنے پر
زور دیا ہے۔چنانچہ جس معاشرے میں شادی کو مشکل اور زنا کو آسان کردیا گیا
ہو اور ساتھ ہی ہر طرف سے جنسی ترغیبات کا سیلاب ہو ،مارکیٹنگ کے نام پر
مادی مقاصد سے یا یا روشن خیالی کے پرفریب نظریہ کی تقلید میں جس کی حوصلہ
افزائی کی جارہی ہو اور جس کے نظام قانون میں زنا بالرغبت (باہم رضامندی سے
جنسی فعل) کو جرم نہ شمار کیا جاتاہو، اس میں بلاتکار کے ہر خاطی کو، چاہے
وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدی، پھانسی کی سزا کا مطالبہ کہاں تک جائز ہے
اور کس طرح اسلام کے نظام قانون کے مطابق قرار دیا جاسکتا ہے؟
اس میں شک نہیں کہ ہمارے ملک میں جنسی جرائم ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے جس پر
قابو پایا جانا چاہئے مگر اس کا طریقہ یہ نہیں ہوسکتا کہ جنسی ترغیبات کا
ریلا بدستور جاری ہے اور اس میں جو کوئی بہہ جائے اس کو پھانسی پر چڑھا دیا
جائے۔
یہ عالمی مسئلہ ہے
اہم بات یہ ہے کہ عورتوں کے خلاف جنسی جرائم کا سیلاب ہندستان میں نہیں
آرہا ہے بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے۔ چنانچہ جسٹس پی ستھ سوم اور
جسٹس رنجن گوگوئی پر مشتمل سپریم کورٹ ایک بنچ نے اسی 12اکتوبر کو ایک
11سالہ لڑکی کو جنسی ہوس کا شکار بنانے اور پھر اس کو ہلاک کردینے کے کیس
میں ایک مجرم کو عمر قید کے سزا سناتے ہوئے کہا ہے:
"The primary concern both at national and international level is about
the devastating increase in rape cases and cases relating to crime
against women in the world. India is no exception to it,"
”ہندستان ہی نہیں،خواتین کے خلاف جنسی جرائم میں اضافہ آج قومی اور عالمی
سطح پر شدید تشویش کا بنیادی مسئلہ بن گیا ہے۔“ جب صورتحال یہ ہے تو غور
کرنا ہوگا کہ دنیا بھر میں اس معصیت میں اضافہ کی وجوہات کیا ہیں۔ اب اگر
اس جرم پر قابو پانا ہے تو ان وجوہات کو زیر کرنا ہوگا۔
ہندستان کی صورتحال
ہمارے ملک میں اس وبا کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے دہلی میں گزشتہ
پورا ہفتہ جاری رہنے والے احتجاجات کے باوجود بلاتکارکی کئی شکایتیں آئی
ہیں۔رواں سال کے دوران صرف راجدھانی دہلی میں عصمت دری اور اجتماعی عصمت
دری کے661 معاملے درج ہوئے ہیں۔ ملک بھر میںسنہ 2011 میں 24,206 معاملات
درج ہوئے تھے۔ اس وقت ملک کی جیلوںمیں 450,603 افراد اس طرح کے معاملات میں
بند ہیں۔ ان میں 22100 وہ ہیں جن کو عدالتوں سے سزا ہوچکی ہے۔
اہم بات جو عالمی سطح پر تسلیم کی جاتی ہے یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات میں
اکثر کی رپورٹ ہوتی ہی نہیں ۔ جنسی جرائم کی شکار بہت سے مظلومائیں لوک لاج
کی بدولت کسی سے ذکر تک نہیں کرتیں بلکہ بعض معاملات میں توشکارعورت خود
شکاری کے قدموں میں آگرتی ہے اور خوشامد کرتی ہے کہ کسی سے ذکر نہ کرے۔ اس
طرح اس ہوسناکی کی بظاہر جو صورت نظر آتی ہے ، وہ اصل سے کہیںزیادہ بھیانک
ہے۔
اگر گزشتہ دہائیوں کے اعداد وشمار کا موازنہ کیا جائے اور دنیا کے دیگر
ممالک پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں نظر آتی ہے عرف عام
میںجو معاشرہ جتنا زیادہ ترقی یافتہ یا ترقی پسند ہے اس میں یہ وبا اتنی ہی
زیادہ شدید ہے۔ ان معاشروں میں اختلاط مرد وزن کے آزادانہ مواقع میں اضافہ
تو اپنی جگہ بے حیائی اور بے حجابی کا جو دور دورہ ہے اس نے بلاشبہ زنا اور
زنا بالجبر کے ارتکاب کو ترغیب حاصل ہوئی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا
جاسکتا ہے ہندستان کی ایک ارب21کروڑ کی آبادی میں بلاتکار کے اوسطاً یومیہ
66 معاملے درج ہوتے ہیں جبکہ امریکا میں ان کا اوسط یومیہ 672ہے،حالانکہ
امریکا کی آبادی صرف 31کروڑ ہے۔ یہی حال یوروپ کے ان دیگرممالک کا بھی ہے
جن میں نیم عریانیت ترقی کی علامت اور ستر ڈھکی عورتیں پسماندہ قرار دی
جاتی ہیں۔
ہندستان میں اس وبا کے بڑھنے کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں، لیکن ان
میں سب سے اہم بہر حال بے حیائی ، بے حجابی اور جنسی ترغیبات کا وہ طوفان
بد تمیزی ہے جس کو دولت کی ہوس میں اسی میڈیا نے ہر گھر تک پہنچا دیا ہے جو
جرم ہوجانے کے بعد سب سے زیادہ شور مچاتا ہے۔ ان جنسی ترغیبات و تحریصات کا
ہی یہ بد اثر ہے کہ نوجوان نسل جنسی آسودگی حاصل کرنے کےلئے بے قابو ہوجاتی
ہے اوربعض اوقات جرم کر بیٹھتی ہے۔ فطری طور سے جنسی داعیہ اور اقدام کا
مادہ مرد ذات میں زیادہ ہوتا ہے اس لئے وہ ظالم اور عورت مظلوم بن جاتی ہے۔
سوال یہ ہے جر م کی بلاواسطہ یا بالواسطہ ترغیب کو روکے بغیر اور ترغیب
دینے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کئے بغیرکیا ان لڑکوں کو پھانسی دیدینے سے
جرم رک جائے گا؟
دہلی کے زیر تبصرہ واقعہ میں شامل ملزمان میں سے صرف ایک کی عمر 25 سال سے
اوپر ہے۔ باقی سب غیر شادی شدہ کم عمر نوجوان ہیں، ایک تو نابالغ ہی ہے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ اسی دوران منی پور میںبھی پیش آیا ہے، جس میں آٹھ
لڑکوں نے ایک راہ چلتی لڑکی کو پکڑ کر اس کی عصمت لوٹی اور نیم مردہ حالت
میں جھاڑیوں میں ڈال کر فرار ہوگئے ۔یہ سارے لڑکے بھی 20 سال سے کم عمر کے
ہیں۔ نوخیز لڑکے جب دیواروں پر چسپاں نیم عریاں پوسٹر، اخباروں میں جنسی
پہلوﺅں کو ابھارنے والے اشتہار، ٹی وی پر کنڈوم کی وہ اشتہاری فلم جس کو
دیکھ کر اچھوں اچھوں کا دل خطا کی طرف راغب ہوجائے اور پھر فلموں میں جرم
کے مناظر اور ان کے ادا کرنے والے کرداروں کی واہ واہی دیکھتے ہیں تو پھر
ان کے قدموں کو جنسی جرائم کی طرف بڑھنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟سزائے موت
اس مسئلہ کا حل ہے کیا؟
ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے
اسی ضمن میں ایک دقیق نکتہ یہ ہے کہ شخصی حقوق کے جدید تعبیر و تشریح نے
عصمت اور پاکدامنی کے تصور کو ہی تار تار کر دیا ہے۔ شخصی آزادی کا یہ
تصورجنسی افعال میں کسی اخلاقی یا مذہبی قید و ترغیب کا قائل نہیں، بلکہ یہ
کہتا ہے کے دو افراد، چاہے وہ ہم جنس ہوں یا مردوزن ہوں، اگر باہم رضامند
ہیں تو ان کےلئے کوئی جنسی فعل جرم نہیں۔ اسی نظریہ کے تحت ہندستان میں
لواطت اورہم جنسی کو قانونی جرم کے دائرے سے باہر کردیا گیا ہے اور
دانشوروں کی ایک پوری کھیپ اس فاسد تعبیر و تشریح کے سحر میں مبتلا ہے ۔ اب
جب کسی غیر کے ساتھ جنسی فعل (زنا) کی شناعت کوہی ختم کردیا گیا، تو باقی
کیا بچا؟ بیشک طبقہ نسواں میں فطرتاًجھجک اور احتیاط ہوتی ہے مگر وہ بھی
رفتہ رفتہ زائل ہوتی جاتی ہے اوربے تکلفی بڑھتی جاتی جو اس معصیت کا پہلا
زینہ ہے۔ خصوصاً شہروں میں ’بوائے فرینڈ‘ کے ساتھ سیر و تفریح عام ہوتی
جاتی ہے۔ آپ اس کھلے پن کی ایک ایسی حد مقرر کرنا چاہتے ہیں، جس کی پابندی
جوانی کے جوش میں ہوش کھوبیٹھنے والوں کےلئے شاید ہی ممکن ہو۔ چنانچہ
بسااوقات ’باہم مرضی‘ سے وہ حد عبور کرلی جاتی ہے اور کبھی زور زبردستی کی
جاتی ہے۔ یہی زور زبردستی جب حد سے بڑھتی ہے یا کسی اجنبی کے ساتھ کی جاتی
ہے تو بلاتکار بن جاتی ہے۔
خیال رہے غیراقوام کی تقلید میں ہمارے ملک کا ناقص قانون بھی زنا کو جرم
تصور نہیں کرتا، اس کے نزدیک تو جرم صرف زنا کےلئے ”جبر“ ہے، چنانچہ اس
عجیب و غریب منطق نے زوجین کے درمیان بھی بعض حالات میں جنسی عمل کو
’بلاتکار‘ یا ’ریپ ‘قراردیدیا ہے۔ بلاتکار یا زنا بالجبر میں دو عنصر شامل
ہیں،جبر اور زنا ۔ اسلام کے نزدیک زنا خود ایک بڑا گناہ ہے، اسی لئے اس کی
سخت سزا(کوڑے اور فاحشہ کےلئے خانہ قید) تجویز کرتا ہے۔ لیکن مغربی نظریہ،
جس کو ہمارے ملک کے قانون کی بنیاد بنالیا گیا ہے، صرف جبر کے ساتھ زنا کو
خطا تسلیم کرتا ہے جس کےلئے پھانسی کی سزایقینا غیر منطقی ہے۔ غور کیجئے
زندگی کے مختلف معاملات میں کسی نہ کسی مرحلے پر زور زبردستی انسان کی سرشت
میں شامل ہے۔ اب اگر زنا کو خطا تسلیم کئے بغیر محض جبر کےلئے سزا بڑھا کر
پھانسی کی جاتی ہے تودیگر معاملات میں جبر کی سزا کیوں نہ ہو؟ یہ قانون تو
بعض حالات میں ’بیوی ‘کوبھی اپنے مرد کے ساتھ بلاتکار کا مجرم گردانتا ہے،
ایسی صورت میں کیا ہونا چاہئے؟ لب لباب یہ کہ زنا کو جرم تسلیم کئے بغیر
بلاتکار کےلئے سزائے موت کا مطالبہ غیر واجب اور غیر منطقی ہے۔ملک کے
موجودہ حالات میں اس سزا کا کوئی جواز سرے سے نہیں۔ یہ جو مطالبہ اٹھا ہے ،
اور جس میں بعض اسلامی تحریکات کے رہنما اور کارکن بھی ہاں میں ہاں ملا رہے
ہیں اس کا تعلق وقتی جذبہ غیض و غضب سے زیادہ اور فہم و فراست سے کم ہے۔
بہر حال دہلی میں غیر معمولی شدید احتجاج سے عاجز آکر حکمرانوں نے اعلا
ترین سطح پرعصمت دری کی متاثرہ خواتین سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور جرم
کی سزا کو سخت کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا جنسی
ترغیبات کے سیلاب پر بند لگائے بغیر سزا کو سخت کردینے اور پولیس کے کان
مروڑ دینے سے مسئلہ حل ہوجائیگا اور خواتین کے خلاف جرائم کاسلسلہ رک
جائیگا؟
اسلام نے نہ صرف زنا کو سخت گناہ اور جرم قرار دیا ہے بلکہ زنا کے قریب
پھٹکنے تک سے روکا ہے اور یہی اس کا علاج بھی ہے۔ چنانچہ ارباب حل و عقد کو
سنجیدگی سے ان تمام دروازوں کو بند کردینے پر غور کرنا ہوگا جن سے نوجوانوں
سفلی جذبات برانگیختہ ہوتے اوران کے قدم بہک جاتے ہیں۔ جب اس طوفان پر بند
لگا دیا جائے گا تبھی یہ جائز ہوگا کہ اب جو شخص خطا کرے اس کو سخت ترین
سزا دی جائے۔جن معاشروں میں اس اصول پر عمل ہورہا ہے ان میں جنسی جرائم کی
تعداد نہ کے برابر ہے۔ مثلاً مصر میں ، دست درازی کے واقعات کا اوسط فی
لاکھ آبادی میں صرف ایک ہے جبکہ برطانیہ میں ہرچھ میں سے ایک عورت اور چار
میں سے ایک طالبہ کسی کی جنسی ہوس یا دست درازی کا شکار ہوتی ہے۔ (ختم) |